• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ الیکشن، کمال ہوگیا، چھانگوں مانگوں سے ان کے چھانگے مانگے، چھانگے مانگے کر گئے، نواز، زرداری جو چمتکار عمر بھر دکھاتے رہے، وہی چمتکار انہیں دیکھنا پڑ گیا، موقع پرستوں سے موقع پرستی ہوگئی، مہم جووؤں سے مہم جوئی ہوئی، مردہ ضمیروں کو مردہ ضمیر ٹکر گئے، گوکہ خواجہ آصف کہہ رہے ’’چیئرمین سینیٹ پر پی پی ہاتھ کر گئی، پی پی کے استعفے ڈرامے بازی، زرداری پر انویسٹمنٹ ہماری غلطی‘‘ گوکہ پیپلز پارٹی والوں کا خیال، شہباز شریف کی مفاہمت کام دکھا گئی، گوکہ صاحبِ علم بازی پلٹنے کی وجہ صادق سنجرانی کی قاتل مسکراہٹ، حاصل بزنجو کی ناپسندیدگی قرار دے رہے لیکن وجہ جو بھی، یہ ہاتھ کی صفائی یا ہاتھ ہوگیا، کمینی سی خوشی، بچے جمہورے مزید ایکسپوز ہوئے، ووٹ کو مزید ’عزت‘ ملی، چوروں کو پڑگئے مور، جیب کتروں کی اپنی جیبیں کٹ گئیں، وہ بے چاری اے پی سی، وہ نام نہاد رہبر کمیٹی، وہ مولانا کے منصوبے، اک کمینی سی خوشی۔

یہ ہونا ہی تھا، کیوں، 4وجوہات، پہلی وجہ خفیہ ووٹنگ، 2فروری 2015ءکو عمران خان ٹویٹ کریں، قومی اسمبلی، سینیٹ کی خفیہ ووٹنگ بے عزتی کے مترادف، یہ نقصان دہ، عمران خان مسلم لیگ، پی پی دونوں سے کہیں، آئیے مل کر خفیہ ووٹنگ ختم کر دیتے ہیں، دونوں جماعتیں یہ آفر ویسے ہی مسترد کر دیں، جیسے آئین کی شقیں 63,62ختم کرنے، نیب قوانین تبدیل کرنے کی پیشکشیں مسترد کیں، لہٰذا آج لیگیوں، پیپلیوں نے 63,62کے مزے چکھ لئے، نیب قوانین بھگت رہے، خفیہ ووٹنگ انجوائے کر چکے، دوسری وجہ، پی پی، مسلم لیگ کا اٹھارہویں ترمیم میں یہ شق بھی ڈالنا، اگر کوئی ممبر پارٹی پالیسی کے خلاف جائے گا، پارٹی پالیسی کے خلاف بولے گا تو اسے الیکشن کمیشن سے نااہل کروایا جا سکے گا، اس وقت اکیلی کشمالہ طارق تھیں، جنہوں نے کہا ’’ایسا نہ کریں، پارٹیوں میں جمہوریت رہنے دیں، پارٹیوں میں ڈکٹیٹر شپ نہ لائیں‘‘ مگر اوپر پارٹی قیادتوں کی یہ مشترکہ خواہش، نیچے گونگوں، بہروں، غلاموں کی تابعداری، لہٰذا آج کوئی کھل کر اختلافِ رائے کے قابل نہیں، جو کرنا، اندر خانے کرنا، جیسے سینیٹ میں، تیسری وجہ، کہنے کو سینیٹ ایوان بالا، دانشوروں، مفکروں، صاحبِ بصیرت لوگوں کا ایوان، مگر نواز، زرداری کی مہربانیوں سے سینیٹ ذاتی ملازم ٹائپ وفاداروں، ٹھیکیداروں، لیڈر شپ کے خدمتگاروں، بیگ اٹھانے والوں سے بھر دیا گیا، بلاشبہ سینیٹ میں اچھے لوگ بھی مگر ایسے بھی جو جس طرح سینیٹر بنے، سب کو پتا، لہٰذا یہی ہونا تھا، جو ہوا۔چوتھی وجہ، لیڈر شپ، گزری دہائیوں میں پی پی، ن لیگ قیادتوں نے جو کیا، وہ دنیا میں کہیں سنا نہ دیکھا، نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ بننے لگے، تیس بتیس ارکان کم تھے، آزاد ممبران خرید لئے، جونیجو، جتوئی کو دھوکہ دے کر اراکین اسمبلی کو چھانگا مانگا، اسلام آباد، مری کی سیریں کرائیں، بینظیر بھٹو، صدر لغاری کیخلاف سازشیں کیں، آئی جے آئی سیڑھی لگا کر وزیراعظم بنے، مشرف سے ڈیل کرکے گئے، ڈیل کر کے واپس آئے، پنجاب میں ق لیگ کے عطا مانیکا کا فارورڈ بلاک بنواکر شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنوایا، ہر الیکشن غیبی مدد سے جیتا، بی بی کو سیکورٹی رسک کہہ کر بی بی سے میثاقِ جمہوریت، گیلانی دور میں پی پی سے اقتدار شیئر کر لینا اور بہت کچھ۔

پیپلز پارٹی، بھٹو صاحب اسکندر مرزا، ایوب خان کی پیداوار، ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کی، بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا، مشرف کا مارشل لاء لگا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا، بی بی نے نواز شریف سے میثاقِ جمہوریت کرکے جنرل مشرف سے این آر او کر لیا، پھر نواز شریف کا جنابِ اسپیکر سے قطری خط تک ہر جھوٹ، کیلبری فونٹ سے ٹرسٹ ڈیڈ تک ہر جعلسازی، ایون فیلڈ سے العزیزیہ تک ہر کرپشن اور پانامے، اقامے سب کے سامنے اور پھر بھٹو والوں کے سرے محلوں سے سوئس بینکوں تک، جے آئی ٹی منی لانڈرنگ کی 25والیومز رپورٹ سے زرداری، بلاول اثاثوں تک، ایانوں سے انور مجیدوں تک سب کچھ بھی سب کے سامنے، یہ بتانے بلکہ یہ سب بتاکر بور کرنے کی وجہ یہ، جب بڑوں کی حرکتیں یہ ہوں گی، تب چھوٹے وہی کریں گے، جو سینیٹ الیکشن میں کیا، حیرت اس بات پر کہ سینیٹ الیکشن کے بعد شہباز شریف بولے ’’جن ارکان نے ضمیر بیچا، ان کی نشاندہی کریں گے‘‘، بلاول کہنے لگے ’’14سینیٹرز نے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، نہیں چھوڑیں گے‘‘ واہ بھئی واہ، تمہاری جمہوریت، تمہارے ضمیر، پی پی مشرف مارشل لاء کا خیر مقدم کرے، جمہوریت مضبوط ہو، بی بی مشرف سے این آر او کریں، جمہوریت مضبوط ہو، پی پی میثاقِ جمہوریت کر لے نواز شریف سے، پی پی صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنائے تحریک انصاف سے ملکر، دونوں بار جمہوریت مضبوط ہو، بلوچستان اسمبلی میں پارٹی تھی ہی نہیں مگر زرداری صاحب وہاں سے اپنے سینیٹرز منتخب کروا لیں، سائیں زرداری خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے ایم پی ایز سے اپنا سینیٹر بنوا لیں، دونوں دفعہ جمہوریت مضبوط ہو، پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج لگا کر گورنر ہاؤس لاہور میں نوٹوں بھرے بریف کیس پہنچے، جمہوریت مضبوط ہوئی اور ہر چوری، ہر ڈاکہ، ہر لوٹ مار سے جمہوریت مضبوط ہوئی۔

بندہ شہباز شریف سے پوچھے جب آپ اور بڑے بھائی جان ڈیلیں کرو، چور دروازوں سے اقتدار حاصل کرو، مخالفین کو سازشوں سے فارغ کرو، تب ضمیر زندہ باد، سینیٹ الیکشن میں ضمیر مردہ باد، یعنی خود کچھ بھی کریں، ضمیر زندہ باد، کوئی غلام کچھ کر دے، ضمیر مردہ باد، بابا جانی، بلاول خود جو بھی کر جائیں، جمہوریت مضبوط ہو، کوئی پارٹی ملازم ذرا سا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا، ذرا سوچئے، جب لیڈر شپ کا اپنا کوئی ضمیر، اصول، منطق، اخلاقیات نہیں ہوگی،جب خفیہ ووٹنگ، باسٹھ ترسیٹھ، نیب قوانین سمیت کوئی ڈھنگ کا کام کرنا نہیں، جب پارٹیوں میں ایسی ڈکٹیٹر شپ ہوگی، جب پارٹیاں ذاتی ملازموں، درباریوں، ڈھولچیوں، طبلچیوں سے بھری پڑی ہوں، تب یہی موقع پرستی، مہم جوئی ہوگی۔

لیکن کیا کریں اپنے جمہوری ڈکٹیٹرز، جمہوریت، ضمیر فروشی کے ہول سیل ڈیلرز کو جمہوریت سے ایسی محبت، ہر گھپلے، اسکینڈل، کرپشن، دو نمبری میں جمہوریت گھسیڑ دیں، خود پھنس جائیں، واویلے جمہوریت پھنس گئی، ہر موقع پرستی جمہوریت کے نام پر، ہر مہم جوئی جمہوریت کے نام پر، حالانکہ نہ یہ جمہوریت پسند، نہ انہیں جمہوریت کا اتا پتا، نہ انہیں جمہوریت سے کوئی دلچسپی بلکہ اصل میں تو یہ سب جمہوریت کے دکھ اور ان کی جمہوریت بس اتنی سی کہ سودا ہم سے خریدیں، ہماری کوئی اور برانچ نہیں۔

تازہ ترین