• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماجد نظامی

حافظ شیراز قریشی، فیض سیفی

وجیہہ اسلم، عبداللہ لیاقت

یکم اگست 2019ء کو ہونے والی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپ سیٹ تو تھاہی مگر کچھ سیاسی حلقوں میں اسی نتیجے کی توقع بھی کی جارہی تھی۔ ہونا کیا تھا پوری قوم نے دیکھ لیا 14 سینیٹرز ضمیر کے قیدی بن گئے اور تحریک عدم اعتماد بڑے نمبر کے بعد بھی مسترد کردی گئی۔چودہ منحرف سینیٹرز سمیت اپوزیشن کے 64 سینیٹرز ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد نے بھی اس کامیابی کا سہرا ان ضمیر کے قیدیوں کے سر چڑھایا جن کی پارٹیوں نے ان کے پائوں میں سیاسی زنجیریں ڈال رکھی تھیں۔

نمبر گیم کی جمع تفریق کے علاوہ دیگر افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ شاید کسی بزنس ٹائیکون سے ملاقات کے بعد یہ صورتحال ہوئی یا پھر ستر کروڑ سے دو ارب وصولی کی باز گشت بھی زبان زد عام ہورہی ہے۔حاصل بزنجو کے مطابق خفیہ ادارے کے سربراہ پر بھی الزامات لگائے گئے کہ منحرف سینیٹرز ان کے اپنے سینیٹرز تھے۔

سینیٹ میں کیاہوا اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے ۔اس رپورٹ میں حقائق کو 100اراکین سینیٹ کی سیاسی ماضی و حال کے ذریعے جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخر کونسے سینیٹرز پارٹی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے اور کن سینیٹرز کو شک کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے۔

خیبر پختوا نخوا سے منتخب ہونے والے سینیٹرز

بہرمندتنگی:سینیٹر بہرمند نے پہلی بار 2018ء میں پی پی پی کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کی کراچی آمد پر ہونے والے دھماکے میں انکے بھائی شہید ہوئے تھے۔افواہوں کے مطابق سینیٹر بہرمند کا نام بھی ان 14اراکین میں لیا جارہا ہے جنہوں نے ملکی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیاجبکہ بہر مند کے قریبی حلقے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

سید محمد صابر شاہ:سید محمد صابر شاہ مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدرہیں۔ان کی سیاسی وابستگی ن لیگ کے ساتھ تھی اور آج بھی ہے۔وہ اکتوبر 1993ء خیبر پختونخواہ کے اٹھارویں وزیر اعلیٰ بنے۔ 1997ء میں وزیر اعظم کے مشیر اور 4بارایم پی اے منتخب ہوئے۔ 2002ء میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔2008ء میں وہ ایک بار پھر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔2013میں بھی ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔

فداء محمد:سینیٹر فدا ء محمد نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا اور بعدازاں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔انکے بھائی نثار محمد ن لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹرہیں۔2005ء میں وہ ڈسٹرکٹ ناظم مالاکنڈ منتخب ہوئے۔2013کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب نہیں ہوسکے۔

فیصل جاوید:فیصل جاوید نے 1996ء میں تحریک انصاف سے اپنی سیاست کا آغاز کیاپہلی بار تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیا ۔

محمد ایوب آفریدی: 2018ء سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کے صاحبزادے جاوید آفریدی نجی الیکٹرنک کمپنی کے مالک ہیں۔

محمد طلحہ محمود:محمد طلٰحہ محمود جے یو آئی ف کی جانب سے تیسری بارمنتخب ہونے والے سینیٹر ہیں۔وہ 2006ء میں ایم ایم اے اور2012میں جے یو آئی ف کے سینیٹرمنتخب ہوئے۔2018ء میں وہ تیسری بار جے یو آئی ف کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انہوں نے ملکی استحکام کو بہتر جانتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیا جبکہ جے یو آئی ف کو ان پر شبہ نہیں ہے۔

دلاور خان: ن لیگ کے سینیٹر دلاور خان نے پہلی بار ٹیکنو کریٹ نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ انکے بھائی اعظم خان دوبار ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ افوہوں کے مطابق خیال کیا جارہا ہے کہ سینیٹر دلاور خان ان 14 ارکان میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی جماعت کی بجائے جمہوری استحکام کی خاطرچیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیامگر ان کے ساتھی ان افواہوں کو غلط قرار دے رہے ہیں۔

محمد اعظم خان سواتی: سینیٹراعظم سواتی نے جے یو آئی ف سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور 2011 ء میں جے یو آف کو خیر باد کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔وہ 2001ء میں مانسہرہ کے ضلع ناظم منتخب ہوئے۔ 2003ء میں وہ جے یو آئی ف اور2012ء میں پی ٹی آئی کے سینیٹر منتخب ہوئے ۔2018 ء میں ایک بار پھرپی ٹی آئی سینیٹر منتخب ہوئے وفاقی وزیرہیں۔

روبینہ خالد:سینیٹر پیپلزپارٹی کی روبینہ خالداس سے قبل 2012ء میں بھی پیپلزپارٹی کی سینیٹر رہ چکی ہیں۔وہ سابق وزیر صحت زاہد علی شاہ کی ہمشیرہ ہیں اور انکے والد سید ظفر علی شاہ ضیاء الحق کے دور میں وزیر رہ چکے ہیں۔افواہوں کے مطابق سینیٹر روبینہ خالد نے بھی موجودہ چیئرمین سینیٹ کو زیادہ موزوں سمجھتے ہوئے سینیٹ کے استحکام کے لئے اپنا ووٹ کاسٹ کیامگر ان کے خلاف احتساب کا عمل تیز تر ہے جس سے لگتاہے کہ وہ بے وفائی کی مرتکب نہیں ہوئیں۔

مہر تاج روغانی :سینیٹر مہر تاج روغانی کا تعلق مردان سے ہے ۔وہ خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے ساتھ بھی منسلک رہیں اور پشاور کے ہسپتالوں میں تعینات رہیں۔وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں۔وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت 2000سے 2002تک صوبائی وزیر صحت اور2007ء میں نگران وزیرصحت رہیں۔

شبلی فراز:مشہور شاعر احمد فراز کے بیٹے شبلی فراز اگست 2018ء سے سینیٹ میں قائد ایوان ہیں۔وہ پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں۔2012ء میں سیاست میں قدم رکھا۔ان کے چچا مسعود کوثر گورنر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی:لیفٹنٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی 2015ء سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر ہیں اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں ۔2002ء میں آزاد حیثیت سے ناکام رہے ۔2006ء میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ۔گردش کرنے والی خبروں کے مطابق ان کاشمار بھی ان 14اراکین میں کیا جارہا ہے جنہوں نے صادق سنجرانی کو ووٹ دیامگر یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ سب افواہیں ہوں۔

محسن عزیز :سینیٹر محسن عزیز کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ پہلی بار2015میں سینیٹر منتخب ہوئے اور چھ سال تک سینیٹر رہیں گے۔

محمد جاوید عباسی:سینیٹر محمد جاوید عباسی نے پہلی بار 2001 میں ضلعی ناظم بنے۔ 2008میں مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔2015 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے۔

نعمان وزیر خٹک:سینیٹر نعمان وزیر خٹک 1987 میں وہ بطور سکواڈرن لیڈر اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے اور پشاور میں سٹیل مل قائم کی۔2015ء میں تحریک انصاف کے سینیٹر منتخب ہوئے۔

ثمینہ سید:سینیٹر ثمینہ سید کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔وہ 2015 ء میں چترال سے منتخب ہونے والی پہلی سینیٹر ہیں۔

عطا ء ارحمان:سینیٹر عطاء الرحمان خیبر پختونخوا میں جے یو آئی ف کے صدر ہیں۔ وہ 2008ء میں وفاقی وزیر برائے سیاحت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔سینیٹر عطاء الرحمان ، امیر جماعت مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہیں۔سینیٹر عطاء الرحمان دوبار ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

خانزادہ خان:خانزادہ خان 2015ء میں پیپلزپارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے اس سے قبل وہ 1993ء اور 2008ء میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔2013ء کے انتخاب میں این اے11مردان سے الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوپائے۔وہ پی پی پی کے جیالے سمجھے جاتے ہیں۔

لیاقت خان ترکئی:سینیٹر لیاقت خان ترکئی کے صاحبزادے شہرام خان لوکل گورنمنٹ کے صوبائی وزیر ہیں۔2014میں کابینہ میں تبدیلی کے بعد شہرام خان کو سینئر وزیر برائے صحت و انفارمیشن ٹیکنالوجی بنایاگیا۔ ان کے ایک بھائی عثمان ترکئی ایم این اے ، دوسرے جاوید خان ترکئی رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

ستارہ ایاز: سینیٹر ستارہ ایاز 2015میں مخصوص نشستوں پر اے این پی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔ وہ 2008 سے2013 ء تک صوبائی وزیر برائے فلاحی امورکے عہدے پر فائز رہیں۔

برگیڈئر(ر)جان کینیتھ ولیم :سینیٹرجان کینیتھ ولیم 2015ء میں اقلیتی نشستوں پر منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے سینیٹر اورآرمی کے سابق ریٹائرڈ آفیسر ہیں۔

پنجاب سے منتخب ہونے والے سینیٹرز

ڈاکٹر اسد اشرف:ڈاکٹر اسد اشرف 2015ء میں سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کے بھائی جاوید اشرف کو 1996ء میں قتل کردیا گیا جون لیگ کے دیرینہ کارکن تھے۔1997ء میں وہ مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ 2002ء اور 2008ء میں میں وہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔2015ء میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔

ڈاکٹر آصف کرمانی :ڈاکٹر آصف کرمانی کا شمار ن لیگ کے وفادار اور دیرینہ کارکنوں میں ہوتا ہے۔ 2013ء میں انہیں سابق وزیر اعظم نوازشریف کا سیاسی مشیر بنادیا گیا اور2015ء میں وہ معاون خصوصی بنے۔ 2018ء میں دوبارہ وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر شہزاد وسیم:ڈاکٹر شہزاد وسیم 2018ء میں تحریک انصاف کی ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے ۔2002ء میں ق لیگ سے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور 2003ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور وزیر مملکت بنے۔ق لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔

ڈاکٹرغوث محمد خان نیازی :ڈاکٹرغوث محمد خان نیازی 2015ء میں ن لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے ۔ان کاتعلق خوشاب سے ہے اور تعلیمی قابلیت ایم بی بی ایس ہے۔ان کاشمار نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتاہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالقیوم:لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم 2015ء میں ہونے والے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری اور سٹیل مل کے سی ای او بھی رہے۔ 2012ء میں ن لیگ سے سیاسی سفر شروع کیا اور اسی کی ٹکٹ پر 2015ء میں سینیٹر بنے۔

ڈاکٹر مصدق ملک :ن لیگ کے ڈاکٹر مصدق ملک 2018ء میں سینیٹر بنے2013ء کے عام انتخابات سے قبل وہ میر ہزار خان کھوسو میں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی بنے ۔2014ء میں وہ وزیر اعظم نواز شریف کے ترجمان اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وہ معاون خصوصی تھے۔

مشاہد اللہ خان :سینیٹرمشاہد اللہ خان پنجاب سے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے 2015ء میں جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔1990ء میں سیاسی سفر کاآغاز کیا۔1997ء میں وہ اوور سیز پاکستانیوں کی وزارت میں مشیر رہے2009ء اور2015ء میں ن لیگ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

پرویز رشید :سینیٹر پرویز رشید 2015ء میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے ۔1997ء میں ن لیگ کے سینیٹر منتخب ہوئے اور چیئرمین پی ٹی وی بھی تعینات رہے۔2009ء میں ایک بار پھر سینیٹر منتخب ہوئے۔2013ء میں انہیں وفاقی وزیر برائے اطلاعات بنادیاگیا۔2015ء وہ تیسری بار سینیٹر منتخب ہوئے ۔2016ء میں ڈان لیکس پر ان سے بطور وزیر اطلاعات استعفیٰ لے لیاگیا۔

رانامحمود الحسن : سینیٹر رانا محمود الحسن 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔2002ء اور2008ء وہ ن لیگ کے ایم این اے تھے ۔2013ء میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ 2015ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔ افواہوں میں رانا محمود الحسن کے نام پرشک کیاجارہا ہے کہ انہوں نے جمہوری استحکام کیلئے اپنے ضمیر کا ساتھ دیا۔ رانا صاحب کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ محض پراپیگنڈہ ہے۔

رانا مقبول احمد :رانا مقبول احمد کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں سینیٹر منتخب ہوئے۔1999ء میں آئی جی سندھ اور 2009ء میں آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعینات رہے۔

سلیم ضیاء :سینیٹر سلیم ضیا ء 2015ء میں ن لیگ کے ٹکٹ سے پنجاب کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔1997ء میں ن لیگ کے ٹکٹ سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور وزیر قانون کا قلمدان سنبھالا۔ ان کا شمار بھی ن لیگ کے وفادار ساتھیوں میں ہوتاہے۔

شاہین خالد بٹ:کیپٹن (ر)شاہین خالد بٹ 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔وہ ن لیگ کی حکومت میں اورسیز کمیشن کے وائس چیئرمین بھی رہ چکے ہیں وہ شہباز شریف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

ولید اقبال :علامہ محمد اقبال کے پوتے ولید اقبال 2018ء میں تحریک انصاف کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے2011ء میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔2013ء میں انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے میدان میں اتارا مگر ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔2018ء میں ہارون اختر خان کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ولید اقبال کامیاب قرار پائے۔

حافظ عبدالکریم :حافظ عبدالکریم 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔2013ء میں وہ مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزیررہے۔2018ء کے سینیٹ الیکشن میں کامیاب ہوئے اور ایم این اے کی حیثیت سے استعفا دیدیا۔ گردش کرتی ہوئی افواہوں کے مطابق حافظ عبدالکریم کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے ۔ دوسری طرف ان کی جانب سے تردید کرجاتی ہے۔

پروفیسر ساجد میر:پروفیسر ساجد میر مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر ہیں اور 2015ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹرمنتخب ہوئے تھے۔وہ پہلی بار 1994ء میں پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے۔1997ء میں ایک بار پھر ن لیگ کے ٹکٹ سے سینیٹ میں پہنچے۔2003ء ق لیگ کے سینیٹر بنے۔2009ء میں وہ دوبارہ ن لیگ کے سینیٹر بنے۔ 2015ء میں بھی وہ چوتھی بار سینیٹ کا حصہ ہیں۔یوں انہوں نے ایک بار ق لیگ میں شمولیت اختیار کی جب ق لیگ کی مرکز اور صوبہ میں حکومت تھی۔

راجہ ظفر الحق :راجہ ظفر الحق مسلم لیگ ن کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ضیاء الحق کے دور حکومت میں کیا1981ء میں ضیاء الحق کے دور میں وزیر بنے۔ 1985ء اور 1988ء میں شکست کھا گئے۔ 1990ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔1997ء میں وہ وفاقی وزیر مذہبی امور تھے۔ 2000ء میں وہ شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ ن کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2009ء میں دوسری بار وہ سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔2015ء میں ایک بار پھر وہ تیسری بار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تاحال وہ ن لیگ کے چیئرمین اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں ۔

عائشہ رضا فاروق:سینیٹر عائشہ رضا فاروق 2015ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست کیلئے سینیٹر منتخب ہوئیں۔انہیں2017ء میں وزیر اعظم کی انسداد پولیو پروگرام کی فوکل پرسن بھی بنایا گیا۔ 2013ء میں خواتین کی مخصوص نشست پر وہ رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئیں۔وہ سابق ایڈووکیٹ جنرل رضا فاروق (مرحوم )کی بیوہ ہیں ۔رضا فاروق سابق چیف جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور چودھری اسد الرحمن رمدے کے بھتیجے تھے۔

نجمہ حمید:راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر نجمہ حمید 2015ء میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔2009ء میں بھی وہ ن لیگ کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئی تھیں ۔ان کی بہن طاہرہ اورنگزیب اور بھانجی مریم اورنگزیب ایم این اے ہیں۔

نزہت صادق: 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں نزہت صادق مسلم لیگ ن کی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ 2008ء میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوئیں۔2012ء میں وہ سینیٹ کاحصہ بن گئیں جبکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا دیدیا۔

سیمی ایزدی:سیمی ایزدی 2018ء میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئیں۔وہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی بہن ہیں ۔

کامران مائیکل:ن لیگ کے سینیٹر کامران مائیکل 2018ء میں اقلیت کی مخصوص نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔2002ء اور2008ء میں ن لیگ ٹکٹ سے ایم پی اے و صوبائی وزیربنے ۔وہ2012ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں

سندھ سے منتخب ہونے والے سینیٹرز

مصطفی نواز کھوکھر:سینیٹر مصطفی نواز کھوکھرسابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی محمد نواز کھوکھر کے صاحبزادے ہیں ۔وہ سابقہ حکومت میں مشیر وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔وہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان ہیں۔

مولابخش چانڈیو:مو لا بخش چا نڈیو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر اور رکن قو می اسمبلی بھی رہ چکے ہیں ۔پہلی بار 2009ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2011ء اور2012ء میں انہیں وفا قی وزیر بنا یا گیا۔ 2015ء میں انہیں مشیر اطلاعات سندھ بنادیا گیا۔ 2018ء میں دوسری بار پیپلزپارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے۔

میاں رضا ربانی:سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی2018ء میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔وہ 2015ء میں سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ۔اپنے سیاسی سفر میں وہ 1993ء کے بعد سے اب تک چھ بار سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ 2005ء میں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ 2008ء میںایوان بالا کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔

امام الدین شوقین:امام الدین شوقین نے مسلم لیگ فنکشنل سے اپنی سیاسی مراسم ختم کر کے 2015ء میں پیپلزپارٹی سے جوڑ لئے تھے۔ 2002ء میں مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے فنکشنل لیگ سے مستعفی ہو کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔2015ء سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں سوشل میڈیا کے مطابق سینیٹر امام الدین شوقین نے سینیٹ کی بہتری کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال کیامگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

سید محمد علی شاہ جا موٹ :مسلم لیگ فنکشنل سے سیاست کا آغاز کرنے والے سید محمد علی شاہ جاموٹ اب پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی سفر کو جاری کئے ہوئے ہیں۔ محمد علی شاہ جا موٹ 2005ء میں مٹیاری کے ضلع نا ظم منتخب ہو ئے ۔2013ء میں صو بائی نشست پر کامیاب نہیں ہوسکے۔2018ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر محمد فروغ نسیم :ماہر قانون بیر سٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینیٹر محمد فروغ نسیم وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔2012ء میں بھی وہ ایم کیوایم کی ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔وہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بھی رہ چکے ہیں۔

سید مظفر حسین شاہ :سندھ کے سابق وزیراعلیٰ و سینیٹر سید مظفر حسین شاہ2018 سینیٹ انتخاب میں فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ 1980ء سے 1982ء تک مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔1983ء میں پہلی بار صوبائی وزیر اور 1990ء سے 1992ء تک مختلف وزارتوں پر فائز رہے1986 ء سے 2002 ء تک مختلف ادوار میں بطور اسپیکرسندھ اسمبلی خدمات انجام دیں اور 1992ء میں سندھ کی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔

ڈاکٹر سکندر میندھرو: پیپلز پارٹی کے ڈا کٹر سکندر علی مند ھرو 1997ء سے 2013ء تک مسلسل سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہو تے چلے آرہے ہیں۔ 2018سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے ۔

رخسانہ زبیری: 2018 میں رخسانہ زبیری پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر مخصوص سیٹ پر منتخب ہوئیں۔ 2003 ء میں پہلی بار پی پی پی کی ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔ 2009ء میں وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئیں۔

انور لال ڈین:انور لال ڈین ضیاء دور سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔ 2018سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کی طرف سے مخصوص نشست پر کامیاب ہوئے۔

رحما ن ملک:سینیٹررحمان ملک کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے ہے۔ 2008میں وفاقی وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل ’ایف آئی اے‘ کے سربراہ تھے۔ ان ہیں ستارہ شجاعت اور نشان امتیاز سے نوازگیاتھا۔ رحمان ملک 2009ء میں پہلی بار اور2015ء میں دوسری بار سینیٹر بنایاگیا۔

گیان چند:گیان چند ایک پاکستانی سیاست دان ہے جو سینیٹ آف پاکستان کا مارچ 2015 سے رکن ہے۔ اس نے 1989ء میں سندھ زرعی یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں بیچلر کیا۔ وہ سینیٹر بننے والے دوسرے ہندو ہیں۔

اسلام الدین شیخ:اسلام الدین شیخ ایک بار اپنی سیاسی وفاداری بدل چکے ہیں۔وہ سکھر کے میئر بھی رہے۔ 1990ء میں مشیر وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔وہ چار مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ پہلی مرتبہ آزاد امیدوار کے طور پر جبکہ دوسری مرتبہ اسلام الدین شیخ مسلم لیگ فنکشنل اور دو مرتبہ مسلسل پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے ۔ 2015سینیٹ انتخاب میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔افواہوں کے مطابق سینیٹ الیکشن میں سینیٹر اسلام الدین شیخ نے سینیٹ چیئرمین کے حق میں ووٹ دیا مگر اس کی تصدیق کہیں نہیں ہوسکی۔

خوش بخت شجاعت:فروری 2007ء کو متحدہ قومی موومنٹ جو ائن کیاور18فروری 2008ء کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 250 سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔3مارچ 2015ء کو متحدہ قومی مومنٹ کی طرف سے پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔

میاں محمد عتیق شیخ:سینیٹر میاں محمد عتیق نے2012 میں متحدہ قومی مومنٹ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ 2015ء میں سندھ سے پہلی بار سینیٹ کے رکن بنے۔

سلیم مانڈوی والا:ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والاسرمایہ کاری بورڈ کے صدر اور وزیر برائے سرمایہ کاری کے عہدوں پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں ۔ مارچ 2018ء سے وہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ سلیم منڈی والا 2013میں وزیر خزانہ بھی رہے۔ 12 مارچ 2018میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔

شیری رحمٰن:پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں۔مارچ 2008 میں انہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا تھا ۔2011 میں امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا۔ 2013ء میںشیری رحمٰن کو اعلیٰ سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔شیری رحمان سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تھیں۔

فاروق حامد نائیک:فاروق نائیک کا شمار پیپلزپارٹی کے قابل اعتماد رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ماضی میں فاروق ایچ نائیک 2003، 2009اور 2015ء تک تین بار سینیٹر رہ چکے ہیں۔2009 سے 2012 تک سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیں۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا شمار پاکستان کے قابل وکیلوں میں ہوتاہے۔

محمد علی خان سیف: 2015ء سینیٹ انتخابات میں محمد علی خان سیف ایم کیوایم کے سینیٹر منتخب ہوئے۔نومبر 2007 میں سابق وزیر اعظم محمد میاں سومرو کی نگران وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا ۔ 2008میں وزیر سیاحت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

کیشو بائی کرشنا کوہلی:پیپلزپارٹی کی پہلی ہندو دلت خاتون سینیٹر کیشو بائی پچھلے دو دہائیوں سے سماجی ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔عورتوں کے حقوق اور ان کی مشکلات کے حل کیلئے ضلع تھر پارکر میں سر گرم رہتی ہیں۔ کیشو بائی 2018ء سینیٹ انتخاب میں پیپلزپارٹی کی مخصوص نشست پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔

نگہت مرزا :سینیٹر نگہت مرزا متحدہ قومی مومنٹ سے 2015 میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

قرۃالعین مری:قراۃا لعین مری 2018ء میں پیپلزپارٹی کی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ قرۃ العین پہلی بارسینیٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ ان کی بہن شازیہ مری اس وقت قومی اسمبلی میں ہیں۔

سینیٹر سسی پلیجو: سینیٹرسسی پلیجو کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اورصوبائی وزیربھی رہ چکی ہیں۔ سسی پلیجو کے والد غلام قادر پلیجو دوبار صوبائی رکن اسمبلی بن چکے ہے۔ مارچ 2015ء کو پیپلزپارٹی نے انہیں سینیٹر کا عہدہ دیا۔

فاٹا سے منتخب ہونے والے سینیٹر

سجاد حسین طوری:پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طور ی کے بھائی سجاد حسین طوری 2015 سینیٹ الیکشن میں پہلی بار جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ساجد حسین طوری 2008ء اور 2013ء میں فاٹاسے آزاد حیثیت سے ایم این اے بنے جبکہ وہ اب بھی ایم این اے ہیں ۔

ہدایت اللہ:ہدایت اللہ ایک بار پھر2018ء سینیٹ الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ 2012ء میں بھی وہ سینیٹر منتخب ہوئے ۔ان کے بھائی شوکت اللہ خیبرپختونخوا کے گورنر کے عہدے پر فائزر ہے۔

ہلال الرحمان:سینیٹر ہلال الرحمان2018میں آزاد حیثیت میں دوسری بار سینیٹر منتخب ہوئے۔انکے بھائی بلال رحمان موجودہ ایم این اے اور والد 1997ء میں ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔سینیٹر ہلال الرحمان کے بھائی عباس الرحمان صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔

شمیم آفریدی:سینیٹر شمیم آفریدی 2018سینیٹ الیکشن میں جنرل نشست پر آزاد حیثیت میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ رکن قومی اسمبلی امجد آفریدی کے بھائی ہیں۔

مرزا آفریدی:مرزا آفریدی 2018سینیٹ الیکشن میں پہلی بار جنرل نشست پرآزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ انکے کزن محمد ایوب آفر یدی بھی سینیٹر ہیں۔

حاجی مومن خان آفریدی:سینیٹر مومن خان آفریدی سابق ایم این اے ناصر خان آفریدی کے بھائی ہیں۔وہ 2013ء جنرل الیکشن میں آزاد حیثیت میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔حاجی مومن خان آفریدی 2015ء میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔

اورنگزیب خان :سینیٹر اورنگزیب خان 2015ء سینیٹ انتخابات میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ۔پاکستان اور دبئی میں ایک بڑے کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں۔

تاج محمد آفریدی:سابق ایم این اے الحاج شاہ جی گل آفریدی کے بھائی تاج محمد آفریدی 2015ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کے بھائی2013ء خیبر ایجنسی سے آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔سینیٹر تاج محمد آفریدی کے بھتیجے خیبر ایجنسی سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔

دارالحکومت سے منتخب ہونے والے سینیٹر

ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی:سینیٹر ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی 2015ء میں مسلم لیگ ق کا سیاسی مسکن چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئیں۔ 2005ئوہ ناظمہ ٹنڈو الہ یار بنیں۔ 2015ء میں مسلم لیگ ن نے انہیں سینیٹر بنا دیا۔سوشل میڈیا پر چلے والی خبروں کے مطابق انہوں نے پارٹی پالیسی سے الگ فیصلہ کیا۔یہ افواہیں کتنی درست ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

ڈاکٹر محمد یعقوب خان ناصر:سردار یعقوب خان ناصر2015 میں بلوچستان سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔وہ 2013 میں ایم این اے اور وفاقی وزیر بھی تھے اگست 2017ء کو مسلم لیگ ن نے سردار یعقوب ناصر کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیاتھا ۔

محمد اسد علی خان جونیجو :ماضی میں مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے سیاستدان محمد اسد علی خان جونیجو اب مسلم لیگ ن کے سینیٹر ہیں۔ اگست 2017ء میں مسلم لیگ ن کو اپنا سیاسی مسکن بنایا۔ وہ 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔سوشل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسد علی خان جونیجو نے جمہوری نظام کو بچانے کیلئے چیئرمین سینیٹ کا ساتھ دیاتھا مگر تصدیق نہیں ہوسکی۔

مشاہد حسین سید:مشاہد حسین سیدبھی سیاسی وفاداری تبدیل کرتے رہے۔ 2018ء سینیٹ الیکشن میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے ۔1997ء میں سیاست میں قدم رکھا اور سینیٹر منتخب ہوئے بعد میں انہیں اطلاعات کی وزارت دی۔اس کے بعد مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے۔ ق لیگ سے 2003ء میں سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔ 2018 میں انہوں نے دوبارہ مسلم لیگ ن جوائن کر لی ہے ۔

بلوچستان سے منتخب ہونے والے سینیٹرز

احمد خان :سینیٹر احمد خان2018سینیٹ انتخابات میں آزاد حیثیت میں جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔ وہ2015ء سینیٹ انتخاب میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

انوار الحق کاکڑ: سینیٹر انوار الحق کاکڑ2018سینیٹ انتخاب میں بلوچستان سے آزاد حیثیت میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔2008ء کے جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

سردار محمد شفیق ترین: سردار محمد شفیق کا تعلق پختو انخوا ملی عوامی پارٹی سے ہے۔2013ء جنرل الیکشن میں ناکامی کا سامناکرناپڑا۔ 2018ء سینیٹ انتخاب میں آزاد حیثیت سے پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔

محمد اکرم خان : نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم خان بلوچستان اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے ہیں۔سینیٹ انتخاب میں نیشنل پارٹی کی جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔

محمد طاہر بزنجو:سینیٹر محمد طاہر بزنجو سینیٹ انتخاب میں نیشنل پارٹی کی طرف سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پرسینیٹر منتخب ہوئے۔

ثناء جمالی:پی کے میپ کی ثناء جمالی نے 2018سینیٹ انتخاب میں خواتین کی مخصوص نشست پر آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔ثناء جمالی سابق وزیر میر جان محمد خان جمالی کی صاحبزادی ہیں ۔ثناء جمالی نے 2015ء سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا مگر کامیاب نہیں ہو ئیں تھیں۔

مولوی فیض محمد :جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مولوی فیض محمد2018ء میں پہلی بار رکن سینیٹ منتخب ہوئے۔مولوی فیض محمدصوبائی امیر بھی ہیں۔

نصیب اللہ بازئی: مسلم لیگ ن چھوڑ کر باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے نصیب اللہ بازئی 2018میں پہلی بار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ منسلک تھی مگر2018ء میں انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

عابدہ محمد عظیم دوتانی:سینیٹر عابدہ محمد عظیم ثناء جمالی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جان جمالی کی بیٹی ہیں۔ 2018 سینیٹ انتخاب میں خواتین کی مخصوص نشست پر آزاد حیثیت میں پہلی بار رکن سینیٹ منتخب ہوئیں۔

گل بشرہ :پشتو انخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی گل بشرہ 2018 سینٹ انتخاب میں پہلی بار خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹرمنتخب ہوئیں۔

کلثوم پروین:سینیٹر کلثوم پروین سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتی رہی ہیں۔وہ2015سینیٹ انتخاب میں تیسری بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔ 2003ء میں پہلی بارمسلم لیگ (ق)کی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ 2009ء میں مسلم لیگ ق کو خیر باد کہہ کر بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے ٹکٹ پر سینیٹربنیں ۔ 2015ء میں ن لیگ کی سینیٹر تھیں۔انہوں نے صادق سنجرانی کی طرف سے دئیے کئے عشائیے میں شرکت کی تھی۔

ڈاکٹر اشوک کمار:سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار 2015سینیٹ الیکشن میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پراقلیتی نشست پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔

جہانزیب جمال دینی :ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے 2015ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ بی این پی مینگل کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں اور اختر مینگل کے قریبی ساتھی ہیں۔

حاصل خان بزنجو:سینیٹر حاصل خان بزنجو 2015ء میں نیشنل پارٹی کی ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1990ء اور 1993ء میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2009ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2015ء میں مسلم لیگ ن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ نامزد کئے گئے مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ 2016ء میں انہیں وفاقی وزیر کا عہدہ دیاگیاجبکہ 2017ء میں وفاقی وزیر رہے۔

کہدہ بابر :کہدہ بابر 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ بلوچستان سے جنرل نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔

میر محمد یوسف بادینی :کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے میر محمد یوسف بادینی جنرل نشست پر 2015ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کی سیاسی وابستگی پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے۔

عبدالغفور حیدری:جمعیت علماء اسلام ف کے معروف رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ 2015ء میں بلوچستان کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1981ء میں وہ جے یو آئی سے باقاعدہ سیاست میں آئے 1990ء میں وہ پہلی بار بلوچستان اسمبلی میں پہنچے اور سینئر صوبائی وزیر بنے۔1993ء اور2002ء میں و ہ پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2009 ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے اور 2015ء میں دوسری بار وہ سینیٹ کا حصہ ہیں۔2013ء میں وہ وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔

صادق سنجرانی :چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔اس وقت سیاسی وابستگی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ان کی شناخت کاروباری شخصیت کی حیثیت سے کی جاتی ہے۔وہ 1998 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر اور2008 میں یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں وہ چیئرمین سینیٹ بنے۔

عثما ن خان کاکڑ :عثمان خان کاکڑ 2015ء میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔1996ء میں انہوں نے پی کے میپ سے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور آج بھی اسی پارٹی سے وابستہ بھی ہیں۔وہ مرکزی سیکرٹری پختونخوا ملی عوامی پارٹی بھی ہیں۔

سرفراز احمد بگٹی:سینیٹر سرفراز بگٹی بلوچستان کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔وہ ن لیگ سے بلوچستان عوامی پارٹی تک کا سفر طر کرچکے ہیں ۔ 2013ء میں صوبائی وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالا۔2018ء میںانہوں نے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی اور ن لیگ سے سیاسی راہیں جدا کر لیں۔ 2018ء میں وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔

آغا شاہزیب درانی:آغاشاہزیب درانی 2017 میں ٹیکنو کریٹ نشست پر مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے بلامقابلہ منتخب ہوئے۔گردش کرتی ہوئی لسٹ میں جمہوری اداروں کے تسلسل کی خاطر تحریک عدم میں آغا شاہزیب درانی نے اپنا مثبت کردار اداکیا اور صادق سنجرانی کو ووٹ کاسٹ کیا مگر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

منظور احمد کاکڑ:بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر منظور احمد کاکڑ 2019ء میں سینٹر منتخب ہوئے۔وہ 2013ء میں پی کے میپ سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ انہوں نے پی کے میپ چھوڑ کر باقاعدہ باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جس کی ٹکٹ پر وہ سینیٹر ہیں۔

میر کبیر احمد محمد شاہی :میر کبیر احمد محمدشاہی 2015ء میں نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1994ء میں وہ نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے اور آج بھی اس کے ساتھ ہیں۔ وہ پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے ممبر بھی ہیں۔

منحرف گھوڑے کون؟

چیئرمین سینیٹ کے خلاف مسترد ہونے والی تحریک عدم اعتماد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔قومی اسمبلی کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے ایوان ایوان بالامیں بھی لوٹوں کی باز گشت سنی جانے لگی ۔متحد اپوزیشن ایک دوسرے کی جانب مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ آخر منحرف ووٹر کون ہے۔اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی تشکیل تو دیدی گئی مگر کیا2018ء کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دائو پیچ کو بھی تلاش کیاجائے گا؟چودہ منحرف سینیٹرز کی تلاش میں میڈیاسمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بہت سے نام گردش میں ہیں ۔سینیٹردلاو رخان اور سینیٹر کلثوم پروین نے باقاعدہ صادق سنجرانی اور حکومتی اعشائیوں میں شرکت کر کے اپنی کلیئر لائن دے چکے تھے۔دیگر اراکین جن کے نام گردش میں ہیں ان کا تعلق مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی سے بتایاجارہاہے۔دوسری جانب یہ بھی الزامات ہے کہ ضمیر کے قیدی سینیٹر نہیں بلکہ کچھ سیاسی جماعتوں نے خود کسی بھی طرح کی ڈیل کرلی جو سوچی سمجھی سازش تھی جس کا فائدہ حکومتی اتحاد کوہوا۔سوال یہ ہے کہ یہ منحرف گھوڑے تلاش کئے جانے کے بعد بھی سینیٹ میں رہیں گے ؟ کیاسیاسی جماعتیں موجودہ حالات میں اپنے قد سے بڑا فیصلہ کرپائیں گی؟ 

جس دھج سے کوئی۔۔۔رضا ربانی مستعفی؟

تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی کے تمام سینیٹرز نے اپنے استعفے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو جمع کروادئیے ۔چھ بار منتخب ہونے والے سینیٹر وسابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بلاول بھٹو کو جمع کروایا گیا استعفاواپس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ان کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتاہے جو اداروں اور جمہوریت کے مستحکم ہونے کی بات کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ وہ ماضی میں آئین، قانون اورسویلین بالادستی کے حق میں بھی بات کرتے نظر آئے ۔2017ء میں چیئرمین سینیٹ کے عہدہ چھوڑنے کی دھمکی دی اور سرکاری پروٹوکول بھی واپس کردیاتھا۔ بعدازاں معاملات سنبھلنے تک انہوں نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور فیصلہ واپس لے لیا۔2018ء میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں انہیں مسلم لیگ نواز کی طرف سے بھی متفقہ امیدوار کی پیشکش کی گئی مگر پیپلز پارٹی نے انہیں امیدوار نہیں بنایا۔وہ ریاست کی غلط پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کرنے وجہ سے بھی مشہور ہیں۔

تازہ ترین