• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک لڑکا ٹیوشن سینٹر سے موٹر سائیکل پر واپس آرہا تھا ۔ اس کے کچھ اور دوست بھی دوسری موٹر سائیکلوں پر اس کے ساتھ آ رہے تھے ۔ ان سب کو پولیس نے روکا ۔ چیکنگ ہوئی اور سب لڑکوں سے الگ الگ پوچھ گچھ ہوئی ۔ پولیس نے باقی سب لڑکوں کو جانے دیا اور ایک لڑکے کی موٹر سائیکل تحویل میں لے کر اسے پولیس موبائل میں بٹھایا اور تھانے لے گئے ۔ دوستوں نے اس کے والد کو اطلاع کی کہ پولیس ان کے بیٹے کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی ہے اور وجہ یہ بتائی کہ اس لڑنے نے پولیس کے توہین آمیز رویے پر احتجاج کیا تھا۔ سارا دن محنت مزدوری کرنے والا تھکا ماندہ والد بیٹے کی محبت میں تھانے پہنچا ۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ اس کے بیٹے سے ہیروئن اور ایک پستول برآمد ہوا ہے ۔ ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تھی والد کو یقین تھا کہ اس کا بیٹا ایسا نہیں ہے لیکن و ہ اپنے بیٹے کی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتا تھا ۔ اس کا شوگر لیول نیچے آگیا اور بلڈ پریشر ہائی ہو گیا ۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھوچکا تھا کہ اچانک تھانے میں شور و غوغا ہوا۔ پتہ چلاکہ اسی تھانے کی کسی موبائل پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیاہے ۔ اس حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید اور کئی زخمی ہوئے ۔ کچھ دیر بعد کانسٹیبل کی لاش بھی اس تھانے پہنچ گئی ۔ شہید کی بیوہ ماں اور بہنیں بھی وہاں ماتم کرتے ہوئے داخل ہوئیں ۔ ان کی حالت سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بہت غریب لوگ ہیں ۔ یہ سانحہ ان کی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ بعد ازاں لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال بھیج دی گئی ۔ اس اندوہناک منظر کو دیکھ کر وہ شخص اپنا مسئلہ بھول گیا ، جو اپنے بیٹے کو چھڑانے آیا تھا۔ مختصر یہ کہ دو دن کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو رہا کرالیالیکن اسے کچھ پیسے دینا پڑے ۔

یہ واقعہ یوم شہدائے پولیس کے حوالے سے یاد آیا ہے ، جو گزشتہ ہفتے پورے ملک میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ مذکورہ بالا واقعہ ہماری پولیس کے کردار کے کئی پہلوئوں کی از خود وضاحت کرتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا سب سے زیادہ اگر کوئی فورس نشانہ بنی ہے تو وہ پولیس ہے ۔ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور قیام امن کے لیے پولیس کے افسروں اور جوانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ پوری قوم پولیس کے شہداء کو سلام پیش کرتی ہے اور متاثرہ خاندانوں کے دکھ کو محسوس کرتی ہے ۔ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہماری پولیس کو عوام دوست بنایا جائے تاکہ لوگوں میں اس کا امیج بہتر ہو ۔

بعض لوگ پولیس میں خرابیوں کا ذمہ دار صرف اور صرف ’’ سیاسی مداخلت ‘ کو قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیاسی مداخلت ختم ہو جائے تو ہماری پولیس مثالی بن جائے گی ۔ یہ لوگ سندھ میں نئے پولیس ایکٹ کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہ دراصل ایک مائنڈ سیٹ ہے ، جو حقیقی اسباب کو ایک تنازع میں گم کر دینا چاہتا ہے ۔ سیاسی مداخلت ان خرابیوں کا ایک سبب ضرور ہے لیکن اور بھی بہت سے اسباب ہیں ۔ جب سے پاکستان میں دہشت گردی شروع ہوئی ہے اور داخلی امن میں ملٹری اور پیراا ملٹری فورسز کے کردار میں اضافہ ہوا ہے ۔ پولیس کے لوگ بھی اب سیاسی لوگوں یا سویلین حکمرانوں کی بجائے دوسری طرف دیکھنے لگے ہیں ۔ یہ ایک اور سبب ہے ، جو خرابیوں میں اضافہ کر رہا ہے ۔

برصغیر میں جب سے پولیس کا ادارہ قائم ہوا ہے ۔ اس میں عوام دوستی کا جوہر اس وقت کے نو آبادیاتی حکمرانوں نے پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ ایک ایسا پولیس کلچر وجود میں آیا ، جو اپنی تمام تر خاصیتوں کے ساتھ آج بھی موجود ہے ۔ پولیس کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے ۔ لہذا اسے فورس کا نام دیا گیا بلکہ اسے ’’ پولیس سروس ‘‘ قرار دیا گیا۔ مگر ’’ سروس ‘‘ کی بجائے پولیس میں حکمرانی کا مائنڈ سیٹ ہے ۔ لوگوں کے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے ۔ ہر تھانے میں روزانہ جھوٹی ایف آئی آرز ، لوگوں سے لوٹ مار اور زیادتی و نا انصافی کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں ۔ یہ سب کچھ سیاسی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ پولیس کلچر ہے ۔ جو پولیس آرڈر 2000 سے بھی ختم نہیں ہو سکا۔ ویسے تو ہم پولیس کے مقامی ہونے پر بہت زور دیتے ہیں لیکن پولیس سروس وفاقی حکومت کے ماتحت ہے ۔ صوبائی سطح پر پولیس سروس کا نظام ہی نہیں بننے دیا گیا۔ نو آبادیاتی حکمرانوں نے پولیس پر چیک اینڈ بیلنس کا ایک نظام قائم کیا ، جو ایگزیکٹو مجسٹریسی کی صورت میں تھا۔ وہ بھی 2000 ء میں ختم کر دیاگیا۔ ہماری پولیس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں ۔ خاص طور پر کسی بھی شخص کو وہ گرفتار کر سکتی ہے۔ پولیس ایک معمولی جھگڑے والے کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتی ہے ، جو ایک قاتل یا دہشت گرد کے ساتھ کرتی ہے ۔ پولیس میں جدید تربیت خاص طور پر رویے بہتر بنانے کی تربیت کا بہت فقدان ہے ۔ کیپسٹی بلڈنگ پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ۔ لوگوں کے ایف آئی آر درج کروانے کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ پولیس کا آرگنائزیشن کلچر بہت پرانا ہے ۔ تھانے کی سطح پر بجٹ نہیں ہوتا حالانکہ تھانہ ہی پولیس سسٹم میں سب کچھ ہے ۔ انویسٹی گیشن افسر کی جو مرضی آتی ہے ، وہ کیس کا رخ موڑ دیتا ہے ۔ پولیس سسٹم میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں ۔ پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے بہت اقدامات کرنے خصوصا ًچیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے پولیس فورس سے پولیس سروس بنانا ہو گا ۔ پولیس کے شہداء نے جس مقصد کے لیے جانیں قربان کیں ، وہ مقصد اس ادارے کو بہتر بنا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین