قومی اسمبلی، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور دیگر تھکا دینے والی سیاسی و سماجی مصروفیات کے بعد میں اس وقت یوم ِ آزادی منانے کیلئے شمالی علاقہ جات میں موجود ہوں،بلاشبہ دنیا کی حسین ترین وادی ناران کاغان اور گلگت بلتستان کا علاقہ ہنزہ قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔مجھے دنیا بھر کے مختلف نمایاں مقامات کی سیاحت کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ خدا نے پاکستان کو جغرافیائی، تاریخی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ہرقسم کی منفرد نعمت سے نوازا ہے، یہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ایک دوسرے سے منسلک ہیں،دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو سمیت بیشتر بلند وبالا چوٹیاں پاکستان میں واقع ہیں جنہیں سر کرنے کا خواب دنیا کا ہر کوہ پیما دیکھتا ہے، پاکستان کو خد ا نے گلیشیئرز کی صورت میں برفانی خزانے سے بھی نوازا ہے، مجھے ہر جگہ وادی کاغان کے سرسبز جنگلات، چراگاہیں ، ندی نالے، جھیلیں اور پرکشش مقامات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے نظرآئے۔وادی کی ایک رونق دریائے کنہار ہے، لذیذ ٹراؤٹ مچھلیوں کے اس صاف شفاف دریا کا اتار لولوسر جھیل سے ہوتا ہے اور پھر ملکہ پربت سے جھیل سیف الملوک سے ہوتا ہوا دریائے جہلم میں جاملتا ہے، ملکہ کہلانے والی ملکہ پربت کی چوٹی کو وادی کاغان کی بلند ترین چوٹی قرار دیا جاتا ہے ۔ دنیا کے ہر قدیمی خوبصورت مقام کی طرح وادی کاغان سے بھی بہت سی لوک کہانیاں وابستہ ہیں، جھیل سیف الملوک کے بارے میںمشہور ہے کہ چاند کی چودھویں رات کو پریاں وہاں رقص کرنے اترتی ہیں، اس حوالے سے مشہور مصنف میاں محمد بخش نے جھیل سیف الملوک کواپنی تحریر سے ایک لافانی شہرت عطا کردی، وادی کی ایک اور حسین آنسو جھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خوبصورت پری کی جدائی کے غم میںمبتلا شہزادے کے آنسوؤں سے وجود میں آئی ہے،اسی طرح سری پائے مقام کو کچھ مقامی افراد قدیم دور کی شری ہندو دوشیزہ اور پائے نامی نوجوان کی محبت کی کہانی بتلاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کا خوبصورت ترین علاقہ ہنزہ بھی سیاحوں کیلئے مثالی مقام ہے، وادی ہنزہ میںنو سال قبل لینڈ سلائڈنگ کی بناء پر وجود میں آنے والی عطاء آباد جھیل قدرت کا ایک عظیم شاہکا ر ہے جہاںسیاحوں کی دلچسپی کیلئے بوٹنگ، جیٹ اسکائی ، فشنگ سمیت مختلف سرگرمیاں جاری ہیں۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سیاحت کا فروغ شامل ہے، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان مختلف مواقع پر اپنے عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فروغِ سیاحت کیلئے ہمیں مزید ٹھوس اقدامات ترجیحی بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں بنیادی انفراسٹرکچر بہتر کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کے کسی بھی سیاحتی مقام کی کامیابی کا راز وہاں تک آسان رسائی ہے، شمالی علاقہ جات کے سفر کے دوران سڑکوں کی زبوں حالی نے شدید کوفت میں مبتلا کیا،دوران سفر پبلک واش رومز کی تلاش بھی سیاحوں کیلئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، آج کے ترقی یافتہ دور میں انٹرنیٹ ،وائی فائی کی سہولیت کی عدم دستیابی سیاحوں کو جلد واپسیپر مجبور کردیتی ہے۔میں نے اپنے تین روزہ دورے کے دوران وہاں پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے موٹلز میں قیام کیاجو نہایت خوبصورت مقامات پر واقع تھے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان موٹلز کو مزید بہتر انداز میں چلایا جائے تو یہ پاکستانی اور عالمی سیاحوں کو راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں،ہمیں ٹورازم کے فروغ میں کوشاں پی ٹی ڈی سی کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسے صوبائی تحویل میں دینے کی اطلاعات سے فی الحال ملازمین میں بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، وادی بھر میں لگ بھگ سو کے قریب ہوٹل اور ریسٹورنٹ موجود ہیں لیکن موثر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو کافی شکایات ہیں، بیشتر پتھریلے مقامات تک دشوار رسائی بذریعہ جیپ، خچر منہ مانگے کرایوں کے بغیر ممکن نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے علاوہ سیاحتی لحاظ سے بھی نہایت اہم ہے، آج اگر اس اہم قومی منصوبے کو احسن انداز سے چلانے کیلئے سی پیک اتھارٹی کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں تو ہمیں نیشنل ٹورازم اتھارٹی کوبھی زیرغور لانا چاہئے۔میرےخیال میں ہر صوبے سے نمائندگی کی حامل مجوزہ ٹورازم اتھارٹی حقیقی انداز میں ایک واضح پالیسی بناسکتی ہے جس کے تحت متعلقہ سیاحتی علاقے کے منتخب عوامی نمائندوں کو فنڈز کی فراہمی یقینی بنائی جائے، یہ اتھارٹی نہ صرف فروغ سیاحت کیلئے سہولتوںکی فراہمی یقینی بنائے بلکہ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام وضع کرتے ہوئے ہوٹل مالکان، پبلک مقامات ، سیاحتی مراکز کیلئے عالمی معیار کے یکساں کوالٹی اسٹینڈرزیقینی بنائے، ٹورازم اتھارٹی کے تحت سیاحت میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ممبرشپ اسکیم شروع کی جائے جس کے ممبران کا دائرہ کار پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہو، مجوزہ اتھارٹی عالمی سیاحوں کیلئے سیاحتی ویزے کے اجراء کیلئے دعوت نامہ، انگریزی و مقامی زبان جاننے والے ٹور گائیڈ، ہوٹل رجسٹریشن، روم بکنگ، ایمرجنسی ریسکیو اقدامات سمیت شعبہ سیاحت کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرے، اسی طرح یہ قومی ادارہ خواتین اور عالمی سیاحوں کے تحفظ کیلئے بہترین ماحول یقینی بنائے۔مجھے یقین ہے کہ اگر حکومت پاکستان وفاقی سطح پر نیشنل ٹورازم اتھارٹی بنانے میں قائم ہوجاتی ہے تو یہ اقدام ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے اس لحاظ سے اہم ثابت ہوگا کہ ڈالر باہرنہیں جائے گا بلکہ زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنے گااور مجھ سمیت وہ تمام پاکستانی جوقدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کیلئے بیرون ملک کے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں، وہ بھی اپنے پیارے وطن کے سیاحتی مقامات کو ترجیح دیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)