• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن ڈی سی سے ایک مرتبہ پھر نیویارک میں اپنے میزبان عابد بٹ کے ہاں پہنچ چکا ہوں۔ یہاں موسم بہت خوبصورت ہے، یہ فریش میڈو کوئینز کا علاقہ ہے، اسی علاقے میں امریکی صدر ٹرمپ پیدا ہوئے، یہیں ابتدائی ایام بسر ہوئے۔ ٹرمپ کا تعلق کسی روایتی سیاسی خانوادے سے نہیں بلکہ ان کے والد کنسٹرکشن کا بزنس کرتے تھے۔ ٹرمپ نے سیاست اور کاروبار میں جو بنایا، ہمت سے بنایا، مقدر ان کے ساتھ رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مشکل ترین لمحات میں ساجد تارڑ ان کے ساتھ تھا۔ ساجد تارڑ پاکستانی نژاد امریکی ہے۔ حالیہ دورۂ واشنگٹن میں ساجد تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات سے ایک روز پہلے سہ پہر کے وقت خوب بارش ہوئی تھی، ہرے بھرے ماحول کو خوشگوار بناتی یہ بارش دلکشی سے خالی نہیں تھی۔ اگلے روز ساجد تارڑ سے ملاقات تھی۔ میں، عابد بٹ اور خالد کھوسہ وہاں پہنچے۔ ساجد تارڑ سے ملتے وقت آپ سہیل وڑائچ کو ذہن میں رکھیں، بالکل اسی جسامت کا، اونچا لمبا مگر ساجد تارڑ پکا امریکی ہے۔ ساجد تارڑ ویسا ہی ہے جیسے امریکی ہوتے ہیں مگر اس کے اندر ایک درویش بیٹھا ہوا ہے۔ برسوں پہلے منڈی بہائو الدین کا یہ نوجوان محض بیس بائیس برس کی عمر میں امریکہ پہنچا اور یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ چوہدری محمد صادق تارڑ منڈی بہائو الدین کے معروف وکیل تھے، انہوں نے چالیس سال وکالت کی، انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں عابد تارڑ اور ساجد تارڑ کی تعلیم پر بہت توجہ دی، جونہی لڑکوں نے میٹرک کیا تو انہیں اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں گھر لے کر دے دیا، بچوں کے لئے ایک ہی پیغام تھا تعلیم، تعلیم اور بس تعلیم۔ اس خاندان کا تعلیم سے رشتہ بھی بڑا گہرا تھا، بچوں کی والدہ منڈی بہائو الدین میں ہیڈ مسٹریس تھیں، وہ لوگوں کی بچیوں کو عبادت سمجھ کر پڑھاتی تھیں، وہ نوکری تنخواہ کیلئے نہیں کرتی تھیں بلکہ ان کا مقصد اگلی نسل کو سنوارنا تھا، پورا منڈی بہائو الدین انہیں آپا جی کہتا تھا بلکہ لوگ پنجابی میں آپاں جی کہتے تھے، آج آپاں جی دنیا میں نہیں ہیں، نہ ہی صادق تارڑ دنیا میں ہیں، عابد تارڑ بھی منوں مٹی تلے جا چکے ہیں مگر آج بھی جب ساجد تارڑ منڈی بہائو الدین جاتا ہے، اس شہر میں کسی جگہ بھی رکتا ہے تو وہاں عورتیں جمع ہو جاتی ہیں اور ایک دوسری سے کہتی ہیں کہ ’’آپاں جی کا پتر آیا ہوا ہے‘‘ بس یہ مٹی، یہ محبت، یہ خوشبو ساجد تارڑ کو بے چین کر دیتی ہے، وہ امریکہ میں بیٹھ کر بھی اپنی ماں کی شاگردوں کا خیال رکھتا ہے۔ ساجد تارڑ، ان کے بھائی اور والد کے ناموں میں ’’د‘‘ یعنی ڈی کا لفظ آتا ہے، باقی آپ کو پتا ہی ہے کہ تارڑ جاٹوں کی ایک گوت ہے، گوت سب کاسٹ کو کہتے ہیں۔

اب ساجد تارڑ کی امریکہ میں کہانی شروع کرتے ہیں۔ بیس بائیس برس کا نوجوان پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرکے امریکہ پہنچتا ہے اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھتا، بس محنت میں جُت جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے ابتدائی ایام ایسے بھی تھے جب وہ ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا جہاں گیارہ لڑکے سوتے تھے۔ ساجد تارڑ نے بزنس شروع کیا تو پہلے دس سال کوئی چھٹی نہ کی، ہفتے کے ساتوں دن منڈی بہائو الدین کا یہ جاٹ محنت میں لگا رہتا۔ پھر محنت کے پھل کے طور پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، اس کا بزنس بڑھتا گیا، وہ امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا مگر پھر موسم نے آنکھ پھیری تو ساجد تارڑ خزاں میں کھڑا تھا لیکن پت جھڑ کے اس موسم میں بھی وہ حوصلے سے کھڑا رہا، ہر سال ایک گیس اسٹیشن (پٹرول پمپ) بیچتا اور گزر بسر کرتا، بچوں کو تعلیم دلواتا، ماں باپ کی نصیحت تھی کہ لڑکیوں کو ایسے اسکولوں میں پڑھانا جہاں صرف لڑکیاں پڑھتی ہوں، سو ساجد تارڑ نے اپنے بچوں کو مہنگے ترین پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھایا۔ بڑی بیٹی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے، ساجد تارڑ کے صاحبزادے نے بین الاقوامی امور کے ساتھ ساتھ قانون سازی کو بھی پڑھا ہے، اس نے حال ہی میں اپنی انٹرن شپ سیکرٹری آف سٹیٹ مسٹر پومپیو کے آفس سے مکمل کی ہے۔ ساجد تارڑ کی چھوٹی بیٹی اسکواش کی کھلاڑی ہے، وہ امریکی ٹیم کا حصہ ہے، پچھلے سال اس نے برٹش اوپن میں کینیڈا کے خلاف بھرپور کھیل کا مظاہرہ کیا تھا، تیسری بیٹی پڑھ رہی ہے۔

ساجد تارڑ کو سیاست کا کئی سالوں سے شوق ہے، وہ گزشتہ پچیس سال سے ریپبلکن ہے، اس نے سالانہ کنونشن میں ٹرمپ کو صدارتی امیدوار نامزد کیا، مسلم فار ٹرمپ گروپ بنایا اور مشکل ترین حالات میں ٹرمپ کا ساتھ دیا۔ اسی لئے آج بھی ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے کہ ’’سجید میں آپ کو کبھی نہیں بھول سکتا‘‘۔ اسی لئے ساجد تارڑ مذہبی امور پر ٹرمپ کی ایڈوائزری کمیٹی میں شامل ہے۔ ساجد تارڑ کا کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ کو جنگوں سے نفرت ہے، وہ امریکہ کو آگے لے جانا چاہتا ہے، پچھلے آٹھ برس اوباما امریکہ کو کہیں پیچھے لے گیا تھا، یہ بات بھی یاد رہے کہ ریپبلکن پاکستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے رہتے ہیں جبکہ ڈیمو کریٹس کا رویہ درست نہیں ہوتا‘‘۔

ساجد تارڑ کے آفس میں اس کے تیس سال پرانے دوست جسدیپ سنگھ سے بھی ملاقات ہوئی، جسّی نے انجینئرنگ اور ایم بی اے کر رکھا ہے۔ میں نے جونہی اسے اس نام سے بلایا جیسے سکھوں کے بزرگ اپنے جوان بچوں کو بلاتے ہیں تو وہ میری شکل دیکھتا رہ گیا بلکہ اس نے ڈاکٹر گل سے کہا کہ ’’ایہہ ویکھو‘‘۔

جسّی اور ساجد تارڑ کی دوستی نے بہت کچھ یاد کروا دیا۔ گرنتھ صاحب میں بابا فریدؒ کا بہت سا کلام ہے۔ گولڈن ٹیمپل کی بنیاد حضرت میاں میرؒ نے رکھی تھی، ہو سکتا ہے امریکہ میں کسی گوردوارے کی بنیاد ساجد تارڑ رکھے کیونکہ ساجد تارڑ تو ایک درویش ہے، دنیاوی کامیابیاں اس کے اندر کا درویش مارنے سے قاصر ہیں۔ وہ مٹی کی خوشبو، موسموں کے اتار چڑھائو اور مقدر کے کھیل کو کبھی نہیں بھولتا، یاروں کا یار ہے اسی لئے یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎

درگاہوں پر جھاڑو دینے والوں نے سمجھایا ہے

یار کے غم میں رونے والی آنکھ بڑا سرمایا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین