• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمیٰ اعوان

’’بلند آسماں اور نظر نواز بادلو!…جنوب کی جانب سے آنے والے قازوں کا انتظار ختم ہوا…عظیم دیوار تک اُن کا نہ پہنچنا کوئی بہادرانہ فعل نہیں۔‘‘ تاریخ ساز چینی رہنما، مائوزے تُنگ کی یہ خُوب صُورت نظم مجھے بے طرح یاد آرہی تھی۔اِس نام سے پہلا تعارف 1969ء میں ہوا، جب ڈھاکا یونی ورسٹی کے گرلز ہال میں ہر دوسرے دن چین اور روس نواز طالبات کو مائو اور لینن سے یگانگت کے نعرے لگاتے اور مائو کی ترجمہ شدہ نظمیں جوشیلی آواز میں گاتے سُنتی تھی۔ چین میرے لیے پاکستان کے ایک اچھے دوست کے ساتھ، دیوارِ چین اور مائو کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔’’وہ ہیرو کیسے بن سکتا ہے…جس نے عظیم دیوار کو ہاتھ ہی نہیں لگایا‘‘،یہ نظم بھی کہیں پڑھی تھی۔ عزم و حوصلے سے لدی پھندی، جدوجہد اورعمل کا سبق دہراتی، جب ہیروئن بننے کے لیے عظیم دیوار کو ہاتھ لگانے جارہی تھی، تو دماغ کے کونے کُھدروں میں پڑے کچھ نظموں کے ٹکڑے یاد آ رہے تھے۔ مَیں اواخر مارچ کی خنک تیز ہوائوں اور چمکیلی کرنوں میں لپٹی دوپہر کو’’ بادہ لنگ‘‘ کے پارکنگ ایریا میں مونومنٹ کے پاس کھڑی منظر سے محظوظ ہورہی تھی۔ شفّاف آسمان پر میری تشّکر بھری نظریں جم سی گئیں۔ لبوں نے اُس ہستی کا شُکریہ ادا کیا، جس نے اتنی بڑی کائنات تخلیق کی اور مجھے یہاں آنا نصیب ہوا۔ کسی بھی مُلک کی سیّاحت کے لیے میرا ایک طریقۂ کار رہا ہے کہ اُس کا آئیکون، اُس کی کوئی خاص الخاص چیز ہمیشہ سب سے آخر میں دیکھتی ہوں۔ عجیب سی نفسیات ہے میری، جیسے کوئی امیر بڈھا یا بڑھیا اپنے اثاثوں کی بندر بانٹ کے بعد ایک آدھ انتہائی قیمتی، نادر چیز چُھپا لیتے ہیں کہ یہ تو اپنی کسی دل پسند ہستی کو دینی ہے۔ اس بار عجیب بات یہ ہوئی کہ مَیں چینی ثقافت کے اِس آئیکون کو سب سے پہلے دیکھنے چلی آئی۔ لیکن کیوں؟ چلیں! تھوڑا سا پس منظر میں جھانکتے ہیں۔

اِک جوئے رواں ہے چین....پہلی قسط
مضمون نگار،تاریخی دیوارِ چین کی سیاحت کے دوران

میرے اکلوتے داماد، عمران کی پاک فضائیہ کی طرف سے پاکستانی سفارت خانے میں بہ طور ائیر اتاشی تعیّناتی ہوئی، تو گویا اوپر والے نے ہمیں سیر سپاٹے اور ایک نیا جہان دِکھانے کا بندوبست کردیا۔ بیٹی اپنی میڈ کو بھی ہمارے ساتھ ہی بلوا رہی تھی۔تو مجھے تھوڑی اور آسانی محسوس ہوئی۔ لاہور سے اسلام آباد کی پچپن منٹ کی فلائٹ نے پورا سَوا گھنٹہ لیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے اُڑتے ہوئے محفوظ راستوں کی تلاش ضروری تھی۔ ظاہر ہے، رات کے گیارہ بجے اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ پر ڈولا اُترا، تو ساری خوش فہمیوں اور انجوائے منٹ کا تھرل جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ چلو بیٹا، سامان اٹھائو اور ہوٹل چلو۔’’ یا اللہ موسیٰ ڈریا موت توں، تے موت اَگّے کھڑی‘‘، اب سامان کی وصولی کے لیے چلے، تو دیکھا کہ چند نوجوان بچّے، بچیاں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ،ہمارے دائیں بائیں سے شوں شوں گزر رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ چین میں ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں۔ مزید جان کاری کا تجسّس کُشاں کُشاں اُن کے پاس لے گیا اور شروع ہوا کُرید اور سوال، جواب کا سلسلہ۔ جانا کہ ڈاکٹری کے ساتھ کچھ انجیئنرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن، اکائونٹس اور ماحولیاتی اسٹڈی کے طلبہ بھی ہیں۔ اب یہ تو پوچھنا فضول تھا کہ پاکستان کی بجائے چین میں کیوں پڑھ رہے ہیں؟ایک وجہ تو معلوم ہی تھی کہ میڈیکل اور انجنیئرنگ میں میرٹ پر پورے نہیں اُترے۔ دوسری وجہ اُن کے مطابق یہ تھی کہ چین میں پرائیوٹ میڈیکل اور نان میڈیکل تعلیم پاکستان کے مقابلے میں بہرحال سَستی ہے۔ بیجنگ سے ملحقہ شہروں میں چھے، سات لاکھ سالانہ اور کوئی پچیس ہزار کا ماہانہ ہاسٹل کا خرچہ۔ یہ تو خوشی کی بات تھی کہ پاکستانی والدین نے یہ حدیث پلّے باندھ لی ہے کہ’’ علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔‘‘ اب مجھ جیسی کے لیے صرف یہیں تک ہی ٹھہر جانا مشکل تھا، کیوں کہ معیارِ تعلیم، ذریعۂ تعلیم اور دونوں سسٹمز کے موازنے کا بھی تو پتا لگنا چاہیے تھا۔ ذہین لڑکوں کا جواب تھا’’ ذریعۂ تعلیم تو بے شک انگریزی ہے۔اساتذہ بھی زیادہ تر پاکستانی، بنگلا دیشی، نیپالی اور ملائی ہیں، تاہم تھیوری پر زور ہے، عملی کام صفر۔ حالاں کہ میڈیکل کے بعد پاکستان میں ٹیسٹ دینا پڑتا ہے۔‘‘ چینی زبان کتنے لوگوں کو آتی ہے اور چینیوں کو کیسا پایا؟ اس پر کچھ کا جواب تھا’’ ہماری یونی ورسٹی میں پاکستانی ہی اِتنے ہیں کہ چینیوں سے بات چیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ یعنی چینی طلبہ سے ربط و تعلق کم کم بلکہ ایک طرح سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ کچھ کا کہنا تھا’’ بس اچھے ہیں۔‘‘ اِن جوابات نے ہمیں بتا دیا تھا کہ بھیجنے سے پہلے تربیت نہیں کی گئی۔کسی پلاننگ سے نہیں آئے۔ اسی لیے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے سفیر ہیں اور چین جیسے دوست اور قابلِ رشک ترقّی کرنے والے مُلک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ تب ہی تو صرف یہی کوشش ہے کہ بے چارے سادہ لوح والدین بس یہ فخر کرسکیں کہ دِھی یا پُتر پڑھنے کے لیے چین گیا ہے۔بہرحال، میرے بھاری بھر کم سامان کی ٹرالی ڈھونے میں ان نوجوانوں نے خاصی مدد کی۔ لفٹ میں ٹرالیوں سمیت داخل ہو کر باہر آئے اور عقبی سمت کھڑی ہوٹلز کی سوزوکیوں میں سامان کی لدلدائی ہوئی۔ تاہم، راول پنڈی صدر کے ہوٹل تک کے چالیس میل کے ٹوٹے کا سفر ہو، جب کہ بدن بھی تھکن سے چُور اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہوں، بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ہوٹل اچھا تھا، تاہم لفٹ بند اور کھانا تقاضے کے بعد ملا، وہ بھی نِرا بے سوادا۔’’ پراں مارو، مگروں لوئو‘‘ جیسے محاورے کا سچّا ترجمان۔ اب مزید کچھ باتیں حیرت میں اضافے کا باعث تھیں۔لڑکے، لڑکیوں کے درمیان جو تعلق اور قربت کے مناظر دیکھنے کو ملے تھے، وہ کچھ کہانیاں تو ضرور سُنا رہے تھے، مگر اُن کی گہرائی ایسی شدید ہے، اس کا احساس کمروں کی الاٹمنٹ کے وقت ہوا۔

تین بجے سوئے، تو ساڑھے چار بجے تیز الارم سے اُٹھ کر جب نیچے لائونج میں آئی، تو ان جوڑوں کی حالت دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہ رہا تھا۔ کیا والدین جانتے ہیں کہ اُن کے بچّے، بچیاں کس طرح رہ رہے ہیں؟ ائیرپورٹ کے تھکا دینے والے مراحل طے کرکے’’ شُکر شُکر‘‘ کرتے لائونج میں آبیٹھے۔ یہاں طلبہ کے علاوہ، پختہ عُمر اور جوان مسافروں کی ایک نئی کھیپ تھی۔ اُن کے چہرے مہرے، پہناوے، حال احوال اُن کے پنجاب کے کم ترقّی یافتہ شہروں یا خیبر پختون خوا سے تعلق کی گواہی دے رہے تھے۔ اُن لوگوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ موتی، ستارے ہوزری، گارمینٹس، بیگز، پھلوں، سبزیوں وغیرہ کا بزنس کرتے ہیں اور چین آنا جانا اُن کے لیے معمول کی بات ہے۔ کپاس پیدا کرنے والا ایک زرعی مُلک، جس کا لائل پور کبھی مانچسٹر تھا۔ اب اس کی منڈیوں میں بہت سے پھل، سبزیاں باہر سے آتی ہیں اور ایسے بے ذائقہ پھل، جنہیں کھا کر منہ بن جائے۔ پروردگار! ہماری نالائقیوں نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟قطار میں کھڑے ایک تیز طرّار لڑکے سے بات چیت ہوئی، تو پتا چلا کہ وہ گیس سیلنڈرز کی بکنگ کے لیے جارہا ہے۔ اب بھلا سوال کیوں نہ ہوتا، سو ہوا کہ یہ سیلنڈر کیا پاکستان میں نہیں بن سکتے؟ جواب ملا’’بن سکتے تھے، مگر اب نہیں۔‘‘ 1972-73 ء میں بننے بنانے کے عمل کے آغاز کی ضرورت تھی کہ ہر صنعت غلطیاں کرنے، سیکھنے اور چیزوں کو بہتر کرنے کے عمل سے گزرتی ہے۔یہ لوگ چالیس سال کے عرصے میں ان مراحل سے گزر کر بہت آگے چلے گئے ہیں۔ کھڑی سوچتی تھی کہ بھٹو کہاں کا ویژنری لیڈر تھا؟ اُس نے صنعتوں کو کیوں قومیایا؟ ایوب گو فوجی تھا، پر صنعتی ترقّی تو ہوئی اور بہت ہوئی۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، کوریا کی مثالیں سامنے ہیں۔ ہم تو چلتی صنعتوں کو قومیانے میں لگ گئے۔ ایسے میں مزید صنعتوں کی گنجائش کہاں رہی؟انہی سوچوں میں گھری جہاز میں جا بیٹھی اور اُس نے اڑان بَھرلی۔ رات کا بھوکا پیٹ اب شور مچارہا تھا، بھوکی آنکھیں درمیانی راستہ دیکھتی تھیں کہ کب ٹرالیوں کی کھن کھن سے فضا گونجے، قہوے، ناشتے کی خُوش بُو بکھرے، پر وہاں تو حال تھا کہ’’ امّاں نہ پونیاں۔‘‘ اٹھی، کچن میں پہنچی اور کہا’’ناشتا؟‘‘’’صرف لنچ ملے گا۔بریک فاسٹ تو پروگرام میں نہیں‘‘ذرا نرم، ذرا دھیمے لہجے میں کہا گیا۔’’ ارے بھئی! بلڈ پریشر کی دوا کھانی ہے‘‘ ہمارے احتجاج پر تھوڑا سا دودھ دے دیا گیا۔ بے چاری پی آئی اے کتنی’’ غریبڑی‘‘ ہوگئی ہے۔ ہمیں تو ہوائی میزبانوں کا نیا یونی فارم بھی عجیب سا لگا۔ شاید ہمارے بوڑھے ذہن تبدیلی کو جلد نہیں اپناتے۔ سارا جہاز پیک تھا، کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ نمازِ ظہر بھی ہوئی۔فضائوں میں سجدے کے اِس منظر نے ہمیں بھی ترغیب دی، مگر ایک فِٹ کے غسل خانے میں وضو کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، جو ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔

بیجنگ ائیرپورٹ بہت بڑا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس سے بھی دَس گُنا بڑا نیا ائیرپورٹ تیار ہوچکا ہے، جس کا کسی دَم افتتاح ہوا چاہتا ہے۔ خدایا! ہر مرحلہ مشکلات سے بھرا تھا ۔اپنی آمد کا اعلان کرو، اسکینرز پر آکر۔ آگے آئو، فارم بھرو، ہاتھ میں پکڑو اور کیبنز کے سامنے بیٹھے لوگوں کے سامنے حاضر ہوجائو۔ حاضری دینے کے لیے زگ زیگ کی صُورت لائنز کو اسٹیل کے ڈنڈوں سے بیرئیر بنا کر مقیّد کردیا تھا۔ اِن سارے مراحل میں نوجوان پاکستانیوں نے بڑی مدد کی۔کیبنز کے عقب کا سارا پس منظر دیوارِ چین کے حَسین اور دل موہ لینے والے نظاروں کا تھا۔ تھکن سے نڈھال گوڈے، درد کے باوجود اطمینان سے کھڑے اُن کی جاذبیت سے لُطف اندوز ہورہے تھے۔ یہ مرحلے طے ہوئے، تو سامان کے لیے ہال کی طرف جاتے ایکسیلیڑز کی طرف آئے۔ ایکسیلیٹرز کی ڈھلانی جیسے پاتال میں اُترتی گہرائی کے آخری پوڈے کے عین قدموں میں اپنی بیٹی کھڑی نظر آئی۔ پل بھر کو رُک کر اُسے محبّت پاش نظروں سے دیکھا اور لمحوں ہی میں وہ ماں کی پیار بَھری بانہوں میں سمٹ گئی۔ گلے میں سفارتی کارڈ ڈالے، ہاتھوں میں سُرخ پاسپورٹ پکڑے، اُس نے پُھرتی سے ہمارا سامان ٹرالیوں میں لدوایا اور خودکار دروازوں سے باہر نکال کر ویٹنگ لائونج میں لے آئی۔ بچّوں سے ملنے ملانے سے فارغ ہوکر بیٹی کو دیکھا، تو اُسے ضرورت سے زیادہ اسمارٹ یا دوسرے لفظوں میں کم زور دیکھ کر پریشان ہو اٹھی۔ بار بار میرے اِس سوال پر کہ تم ٹھیک ہو؟’’ہاں، ہاں امّاں! بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘کہتی رہی، پر میری تسلّی نہیں ہو رہی تھی۔ چھوٹے نواسے نے شرارت آمیز نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے کہا’’ارے نانو! آپ تو یونہی پریشان ہو رہی ہیں۔ ماما بازاروں میں اتنا گھومتی تھیں کہ اسمارٹ ہوگئیں۔‘‘اور یہ وضاحت میرے پوچھنے پر کی کہ بازاروں کے چکروں کی کیا ضرورت پڑگئی۔ ’’نانو! شاپنگ، شاپنگ۔‘‘ماں نے ہنستے ہوئے نٹ کھٹ بیٹے کو گُھرکا اور باہر چلنے کا اشارہ دیا۔ بیجنگ کا آسمان ابر آلود تھا۔ ہوائوں میں ٹھنڈک اور تیزی تھی۔ دراصل سیکیوریٹی کے صبر آزما مراحل نے رات سَر پر کھڑی کردی تھی۔ بڑا چیختا چنگھاڑتا ماحول تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر باہر دیکھا۔ پُرہیبت مناظر کا ایک سلسلہ ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔سچّی بات ہے، حیرت کا ایک سمندر دائیں بائیں موجیں مار رہا تھا۔ فلک بوس عمارتیں کسی خودرو جنگل کی طرح اُگی ہوئی تھیں۔ اِن کے گہرے رنگوں والے بیرونی حصّوں میں جَڑے شیشوں سے منعکس ہوتی روشنیوں کی دودھیا چمک، اسفالٹ کی سڑکوں کی سیاہی اور اسٹریٹ لائٹس کی کم کم روشنی میں بھاگتا دَوڑتا، شوں شوں کرتا، گاڑیوں کا لامتناہی سلسلہ، جِنوں بھوتوں والی طلسمی دنیا کی ایک ناسٹلجیائی سی کیفیت طاری کرنے لگا تھا۔ کہانی بھی یاد آنے لگی تھی، وہی کہانی۔ چہار جانب سے اُمنڈتے پہاڑوں میں رہتے دیوئوں اور جِنوں کی قید میں شہہ زادی کی۔ بچپن کی اس کہانی نے ماحول کی خوف ناکی کا جو نقشہ ذہن میں تخلیق کر رکھا تھا۔ خدا گواہ ہے، سارا ماحول اس کا عکّاس تھا۔ ہاں! البتہ شہہ زادی کون ہے؟یہ سمجھ سے باہر تھا۔ سڑکوں پر جرمنی، امریکا، جاپان بھاگا پِھرتا تھا۔ مرسڈیز، اوڈی، رولس رائز، واکس ویگن، ہونڈا، لیکسز دنیا کی ہر منہگی سے منہگی گاڑی یہاں دائیں بائیں سے چیختی چنگھاڑتی گزر رہی تھی۔

’’ Jianguomenwai ‘‘ کے علاقے’’ DR‘‘یعنی’’ ڈپلومیٹک ریذیڈینسی کمپاؤنڈ‘‘ کے چھٹے فلور کے ایک گھر میں داخل ہوئی، جہاں بیٹی اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ رہتی ہے۔ داخلی دروازے پر چسپاں چاند تارے والے جھنڈے کی تصویر یقینًا پاکستانی گھرانے کی نشان دہی کے لیے لگائی گئی ہوگی کہ عمارت میں چھوٹے چھوٹے مُمالک کے سفارت خانے بھی تھے۔ بہت آراستہ پیراستہ فلیٹ تھا۔ اُس کی آرائش و زیبائش دیکھتے ہوئے آنکھوں میں حیرت تھی۔ کشادہ کمروں کی دیواریں منہگی، خُوب صُورت پینٹنگز سے سجی تھیں۔ چوبی فرش، قیمتی چھوٹے بڑے قالینوں سے ڈھکے نظر آرہے تھے۔ کونوں کی سجاوٹی اشیاء بھی توجّہ کھینچتی تھیں۔ پُوچھنے پر جانا کہ’’ فرنیچر اور کچن کی چیزیں حکومت کی فراہم کردہ ہیں۔ ہاں! کچھ سجاوٹی چیزیں بے شک ہم نے خریدی ہیں۔‘‘فطرتاً بیٹی حسّاس اور غیر ضروری نمود و نمائش سے گریزاں مزاج رکھنے والی ہے، پر یہاں یہ تام جھام سمجھ نہیں آیا۔ جی چاہا پوچھوں اور پھر پوچھ بھی لیا کہ’’ وطن کی محبّت اور اُس کی تیزی سے گرتی اقتصادی زبوں حالی خالی خولی باتوں سے کہیں زیادہ عملی اقدام کا تقاضا کرتی ہے۔ مُلک کا قیمتی زرِمبادلہ اِس شوشا کی نذر کرنا کیا مناسب ہے؟‘‘منمناتے لب و لہجے میں وہ معذرتیں پیش کررہی تھی’’امّاں! یہاں لوگ بہت رکھ رکھائو سے رہتے ہیں۔ ٹپّرواسیوں کی طرح نہیں رہا جاتا۔ تھوڑی بہت ٹپ ٹاپ تو کرنی پڑتی ہے۔‘‘رات گو ایک اجنبی مُلک کے اجنبی شہر میں تھی، تاہم نیند کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ نامانوس جگہیں، بستر تکیے کی تبدیلی کم کم ہی اثر انداز ہوتی ہے۔ جوانی میں تو اثر پذیری کی یہ شرح صفر فی صد تھی، یہاں مگر تھوڑی سی عجب بات ہوئی کہ بے حد اپنائیت بھرے ماحول میں بھی، جہاں آپ کے ساتھ آپ کے دل کا ٹکڑا محوِ خواب ہو، آنکھ کا کُھل جانا اور دیر تک نہ لگنا حیران کن تھا۔ یہ احساس کہ ہم اُس دیس میں ہیں، جس کے ایک عجوبے نے اُسے زمانے بھر میں ممتاز اور منفرد کر رکھا ہے۔ گھر کے سامنے رِنگ روڈ نمبر 2پر ساری رات گاڑیوں کی بھاگ دوڑ اُسی طرح جاری تھی، جیسے کہیں آگ لگی ہو اور فائر بریگیڈ دھواں دھار رفتار سے بھاگتی جارہی ہو۔ صبح دَم آنکھ کُھلنے کی عادت نے یہاں بھی نور پیر کے تڑکے ہی اُٹھا کر بٹھا دیا۔ بالکونی میں آئی۔ سامنے گہری سرمئی رنگت کی عظیم الشّان عمارت پر سُرخ جھنڈا ہوائوں کے زور سے پھڑپھڑا رہا تھا۔ یہ کمیونسٹ پارٹی، چائنا کی مرکزی کمیٹی کا پولیٹکل آفس تھا۔ اس سے متعلق رات ہی پتا چلا تھا۔ چھدرے درختوں سے جھانکتے دروازے سے میری تصوّارتی آنکھ اس کے عظیم رہنمائوں کو باری باری دیکھتی تھی۔ میچی میچی آنکھوں، پھولے پھولے گالوں والے ماؤزے تُنگ، شیائو پنگ، چیانگ زے من اور شی جن پنگ آگے پیچھے چینی قوم کو اپنا فلسفہ، سیاسی و معاشی نظام اور نشاۃِ ثانیہ کے خوابوں کی تعبیروں کے منصوبوں کے پلندے تھماتے نظر آئے ۔ عمارت کو تین سمت سے ڈھانپنے والا آسمان، اور اس پر بیٹھا میرا خدائے واحد، جس کی اِک نظرِ کرم کی، یہ جاہل، کاہل اور نالائق مسلم اُمّہ طلب گار تھی۔ سوچ کر ہی نمی آنکھوں کو گیلا کرنے لگی۔ شکوے زبان پر پھیلنے لگے تھے۔ آخر کیوں؟ تُو نے ایسے لیڈر ہمارا مقدّر کیوں نہ کیے۔آنسو ٹپ ٹپ گالوں پر بہنے لگے۔ پاکستان کی آبادی جتنا بیجنگ، چار پانچ سال پہلے اسموگ کا بُری طرح شکار ہوا، تو انتظامیہ نے بڑے کارخانوں کو فوراً شہر سے باہر منتقل کردیا۔ درخت جڑوں سے اُکھاڑ کر لائے گئے اور اُن کی پلانٹیشن ہوئی۔کہاں کی اسموگ اور کہاں کی گرد آلود فضا۔ بیجنگ کا شفّاف، خنکی سے بھرا، تاحدِ نظر پھیلا، فلک بوس عمارتوں کے بے انتہا خُوب صُورت جنگل میں گھرا آسمان، حیران کرتا تھا۔ دائیں بائیں جاتی، مُڑتی، ایک دوسرے کو کاٹتی، کہیں جپھیاں ڈالتی شاہ راہیں اور گاڑیوں کا سمندر۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ رشک اور حسد میں جلتی بُھنتی اندر آگئی۔ 1960ء میں یہی چینی میرے کراچی کی بلندوبالا عمارتیں دیکھ کر کہتے تھے’’ کاش! ہمارے پاس بھی کراچی جیسا ایک شہر ہوتا۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین