• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخِ اسلام میں مدارس کی اہمیت اور ان کے درخشاں کردار کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ مدارس نے دنیا کو ایسے قانون دان، فلسفی، اطبا، مورخ اور سائنسدان دئیے ہیں جن کا کام آج کے جدید دور میں بھی مشعل راہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تاجِ برطانیہ کی آمد سے قبل حصولِ تعلیم کا واحد ذریعہ مدارس ہی تھے، تاجِ برطانیہ نے زمامِ کار سنبھالنے کے بعد دنیاوی و دینی تعلیم کے مراکز کو الگ الگ کرکے ایک ہی معاشرے میں دو علیحدہ دنیائوں کی ایسی بنیاد رکھی جس کی آلائشیں آج تک سمیٹے نہیں سمٹ رہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک بھر میں مدارس کی تعداد کم و بیش اڑھائی سو تھی جو اب 30ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اس وقت بلامبالغہ لاکھوں نوجوان مدارس سے وابستہ ہیں جن کا معاشرتی کرداربالعموم دینی تعلیم تک محدود ہے۔ ایک قابلِ ذکر طبقے کا یہ جمود پورے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ گردانا جا رہا ہے۔ دریں حالات جہاں ایک طرف مدارس کے نصاب کوجدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی وہیں مدارس کے طلباء، جو معاشرے میں عضو معطل متصور ہوتے ہیں، کو بھی قومی دھارے میں لانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ یہ معاملہ مقتدر طبقات کے بھی پیشِ نظر ہے۔ بدھ کے روز اتحادِ تنظیمات مدارس کے انٹرمیڈیٹ امتحان کے پوزیشن ہولڈر طلبہ سے ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے مثبت نتائج نکلیں گے، دینی مدارس کے طلباء کو ملازمتوں کے مواقع ملیں گے، طلباء خوشحال پاکستان کیلئے خدمات جاری رکھیں اور مفید شہری کی حیثیت سے معاشرے کا حصہ بنیں، ان کی اس فکرکی غمازی کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کی قومی ترقی کے سفر میں شمولیت کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 4طالبات سمیت تنظیمات مدارس کے 13طلبہ نے ٹاپ پوزیشنز حاصل کیں۔ کوئی شک نہیں اگر ان طلبہ کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کیا جائے تو نہ صرف تمام طبقات قومی ترقی میں شریکِ سفر ہوں گے بلکہ ملک بھی تیز تر ترقی کی منازل طے کرے گا۔

تازہ ترین