• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی سال 2018-19ء میں 110کھرب روپے کے کثیر اضافے کے باعث پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں اور ان پر دیگر مدات کا حجم بڑھ کر 400کھرب کی بلند ترین سطح پر پہنچ جانا من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس صورتحال میں ناگزیر ہے کہ وفاقی و صوبائی سطحوں پر کوئی بھی ایسا پہلو نظر انداز نہ کیا جائے جہاں غیر ضروری اخراجات ختم یا کم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈالر کی قیمت پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں استحکام کی ہر ممکن تدبیر لازمی ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت نے مالی سال 2019-20ء کے لئے مزید کفایت شعاری اور بچت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں سمیت تمام سرکاری اداروں پر ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، تاہم موٹر سائیکل کی خریداری کو استثنیٰ حاصل ہوگا جس کا جواز قابلِ فہم ہے۔ یہ پابندی ترقیاتی اخراجات کے لئے بھی ہوگی جس کا اطلاق فوری طور پر کر دیا گیا ہے۔ بچت مہم کا دوسرا پہلو ہر قسم کی نئی اسامیوں کی تخلیق پر پابندی ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہوگا کہ جملہ وفاقی و صوبائی محکمے معمول کی خالی شدہ اسامیوں پر اس پابندی کا اطلاق نہ کریں کیونکہ 22کروڑ کی آبادی میں اس وقت لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار ہیں۔ سرکاری اداروں اور ان کے بیشتر افسران کے گھروں کے بجلی، گیس، ٹیلی فون، پٹرول اور مرمتی کاموں کے بھاری بھر کم بلوں کو پہلے بھی کئی مرتبہ کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں جو بالعموم ناکام رہیں، لہٰذا اس ضمن میں ٹھوس اور مربوط پالیسی تشکیل دی جانی چاہئے۔ نیز بچت اسکیم محض وفاق تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس کا اطلاق صوبوں پر بھی کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترسیلاتِ زر میں اضافے کے لئے سمندر پار پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ درآمدات پر صرف ہونے والا سرمایہ صرف ناگزیر سطح تک محدود کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں کنالوں اور ایکڑوں پر مشتمل سرکاری رہائش گاہوں کا کلچر بھی ختم ہونا چاہئے۔

تازہ ترین