• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدارابچوں کو وقت دیں۔ آج کے بچے بہت حساس ہیں۔ انہیں ماں باپ کی توجہ کی بے انتہا ضرورت ہے۔ موبائل فون احساسات کا قاتل ہے"۔بیرسٹرشاہدہ جمیل کے یہ جملے میرے دماغ اور دل پہ گہرے اثرات مرتب کرچکے ہیں۔ اور یہ جملے بار بار میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ جو انہوںنے ایک 19 سالہ بچی سیدہ سوہاعرفان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ یقیناً موجودہ دور جسے معروف ترین اوراسٹیٹس اورموبائل فون کا دورکہاجاتا ہے۔یقیناً اس دور میں بہت جدید ترقی کی بدولت بہت سی آسانیاں پیداہوچکی ہیں۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ علم وآگہی کے حصول میں آسانی ہوچکی ہے۔ لیکن انسانی دلوں میں دوریاں بڑھ گئیں ہیں۔ ماں باپ صرف مالی فوائد بچے کو فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اور اس کے بدلے میں بچوں سے ایک شاندار مستقبل ڈیمانڈکرتے ہیں۔ تاکہ فخر سے لوگوں کو بتاسکیں کہ میری اولاد اتنی کامیاب ہےاورفیس بک پر اسٹیٹس ڈال سکیں تاکہ واہ واہ سے بھرپور لائیکس حاصل کریں۔ لیکن اس یک طرفہ ڈیمانڈ کرتے ہوئے یہ ماں باپ یہ بھول چکے ہیںکہ ان کے بچوں کو مادی چیزوں کے علاوہ بھی بہت کچھ چاہیئے۔ سب سے بڑھ کر ماں باپ کا قیمتی وقت! جس میں والدین اپنے بچوں کے پاس بیٹھ کر ان سے ان کے مسائل معلوم کریں۔ ان کے احساسات اور جذبات کو الفاظ کا روپ دلوائیں اور ان کی مدد کریں ان مسائل سے نکلنے میں۔ کیونکہ اس سوشل میڈیا کی بدولت جہاں خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں وہیں ان خبروں کو دیکھ دیکھ کر بچے احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور ایک انجانے مقابلے کا ہروقت شکار رہتے ہیں۔ جیسے اگر کسی بچے کے نمبر بہت اچھے آتے ہیں تو اس کو مارک شیٹ کو فیس بک پر شیئرکردیا جاتا ہے ۔بس پھر۔۔۔۔۔کم نمبرحاصل کرنے والے بچوں کی شامت آجاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ زیادہ نمبرحاصل کرنے والے بچے کے والدین ہر بچے کہ والدین سے معلوم کریں گے کہ آپ کے بچے کا کیا رزلٹ آیا۔ جواب معلوم ہونے پر ایک فاتحانہ ، فاخرانہ اورتمسخرانا مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر اپنے بچے کا رزلٹ زور سے بتاتے ہیںا۔ ایسے میں شرمندگی کے مارے والدین اپنے بچے سے اپنی جھنیپ مٹانے کا بدلہ کیسے لیتے ہوں گے اس کا آپ کوبخوبی اندازہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ میری والدین سے گزارش ہے کہ اپنی زندگی کی ناکامیوں کا بدلہ اولاد کی کامیابیوں سے نہ لیں۔ انہیں اپنے حصے کی کامیابی حاصل کرنے دیں۔ جو کچھ آپ نے غلط کیا یا آپ کے ساتھ غلط ہوا وہ تجربہ اولاد کو بھی کرنے دیں۔ انہیں تجربات سے نہ روکیں۔ انہیں اپنا مقام خود بنانے دیں کیونکہ وہ معصوم زیادہ مسابقتی دور سے گزررہے ہیں۔ ذرا سوچئے یہ بچے بچپن سے برانڈ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسکول پرائیویٹ ہے یا سرکاری؟ پرائیویٹ ہے تو زیادہ فیس والا یا کم فیس والا؟ زیادہ فیس والا ہے توٹھیک ہے۔ وین میں آتے ہو یا ڈرائیور کے ساتھ اپنی گاڑی میں؟ اسٹیشنری سستی ہے یا امپورٹڈ؟ گرمیوں کی چھٹیاں گھر میں گزارتے ہو یا شمالی علاقہ جات میںیا یورپ میں؟ گھر میں لان ہے یا فلیٹ میں رہتے ہو؟ آگے چلے تو سوال آیا اولیول میں ہو یامیٹرک سسٹم میں؟ اے لیول کررہے ہو یا انٹر؟ پھر سرکاری یونیورسٹی میں ہوں یا مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹی میں؟ایسے میں یہ بچے نشے کہ عادی بنیں گے کہ نہیں؟ جنہیں آنکھیں کھولتے ہی صرف" اسٹیٹس" اور "برانڈ" سے مقابلہ کرنا پڑا یا طعنہ سنناپڑا۔ ایسے میں والدین انتہائی مصروف ۔کمانے اور خرچ کرنے کے بعد ان کے پاس بچوں کے لیے بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بچے گھر میں رہتے ہوئے بھی تنہائی کا شکار، عدم تحفظ کا شکارہیں۔ برائے مہربانی ان کے مسائل کو سمجھئے، غیرضروری توقعات وابستہ نہ کیجئے، ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتاہے ،سب ایک جیسے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ انہیں آپ کے اعتماد، سہارے اور حوصلے کی ضرورت ہے ورنہ اس کتاب کی کہانی کے حساب سے ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی بچے اپنے آپ کو یتیم محسوس کریں گے!

تازہ ترین