لاکھوں شہید کر دئیے گئے۔ ہزاروں ماں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔ اربوں روپے کے کاروبار تباہ۔ پیلٹ گنوں نے کشمیر کے رعنا جوانوں کی بینائی چھین لی۔ بوڑھے سید علی گیلانی اور بیمار یٰسین ملک کی نصف سے زائد زندگی جیلوں یا گھر میں نظر بندی میں گزر گئی۔ دختران ملت کی راہنما آسیہ اندرابی پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے۔ ان کے خاوند پروفیسر عاشق اونتو عمرقید نہیں ستائیس سال جیل میں گزار چکے۔ قربانیوں کی لازوال تاریخ ہے جو کشمیریوں نے مرتب کی۔ یہ دو چار یا تیس سال کی بات نہیں پون صدی کا قِصہ ہے۔ 13جولائی 1931 کو کشمیری راہنما عبدالقدیر کو باغی قرار دیکر سری نگر کی جیل میں بند کر دیا گیا تھا، کشمیریوں نے اس پر جیل کے باہر احتجاج کیا اور ظہر کی اذان دینا شروع کی تو ڈوگرہ راج کے سپاہی نے گولی مار کر اسے شہید کر دیا، دوسرا جوان آگے بڑھا غرضیکہ اذان کی تکمیل تک بائیس مسلمان شہید کر دئیے گئے۔ شہادتوں کا یہ سلسلہ وہاں رک نہ گیا تھا، یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا ۔رب کی کبریائی اور کشمیر کی آزادی کی اذاں کشمیریوں نے ہر جگہ دی۔ بڈگام کے یوسف شاہ سیاستدان تھے، انھیں سید صلاح الدین تو بھارتی بربریت نے بنایا۔کشمیر کی تحریک کو لازوال تحریک بنانے کا سہرا بہت سے رہنمائوں کے سر ہے مگر اس میں انمنٹ نقوش چھوڑنے والوں میں سید گیلانی، یٰسین ملک اور سید صلاح الدین ہیں۔ان رہنمائوں سے کشمیری قوم نے جذبہ و حوصلہ پایا، ایسا جذبہ جسے پندرہ لاکھ بھارتی فوج و پیرا ملٹری فورسز ٹھنڈا نہ کر سکیں ۔ کشمیریوں کے وکیل پاکستان کے بعض عاقبت نااندیش رہنما (مشرف کے چار نکاتی فارمولہ)کی قلابازیاں اس تحریک کے لئے ضعف کا باعث بھی بنیں مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری۔ صلاح الدین کے سپاہی برہان وانی اور اس کے ساتھی ذاکر موسیٰ کی شہادتوں کے بعد لاکھوں لوگوں کی نماز جنازہ میں شرکت نے ثابت کیا یہ چندعساکر نہیں پوری کشمیری قوم کی تحریک ہے۔
کشمیری قوم کے غدار شیخ عبداللہ نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے نہرو سے پینگیں بڑھائیں ، اس شر میں خیر بھارتی آئین کا آرٹیکل 35 A تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتا تھا نہ شہریت حاصل کر سکتا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم،مودی کی کامیابی کی خواہش کرتے رہے کہ جیسے وہ انھیں کشمیر پلیٹ میں رکھ کر دے دیگا۔
پھر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش پر وزیر اعظم ہی نہیں شامل باجا دیگر بھی کامیابی کے شادیانے بجاتے رہے۔ ثالثی کی پیش کش کے چند دن بعد ہی امریکہ ، اسرائیل کی اشیرباد سے مئوذی مودی نے نیا کھیل رچایا، وہ کھیل جو امریکی تائید سے اسرائیل یروشلم میں رچا چکا تھا۔ 370 اور 35 A ختم کرنے کا بل وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں پیش کیا جس پر صدر پہلے ہی دستخط کر چکے تھے۔اس سارے کھیل کے پیچھے امریکہ ہے جو کہیں ہمیں FATF میں رگڑا لگا رہا ہے تو کہیں پاکستان کے تانے بانے دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے۔ سیٹو سینٹو سے امریکی غلامی کا طوق جو ہم نے اپنے گلے ڈالا تھا اس سے ہمیں چھٹکارا نہیں مل رہا، اس ملک کو بدترین حالات سے دو چار تو آمر مشرف کی پالیسیوں نے کیا جو اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر امریکہ کے آگے بچھتا چلا گیا۔سفیر کو پکڑ کر کسی کے حوالے کرناتو بنانا ریاستوں میں بھی نہیں کیا جاتا مگر افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی جو بے توقیری ہم نے کی اس کی مثال کسی غیر مہذب معاشرے میں بھی نہیں ملتی۔
ہندوستان کے مظالم و ریاستی دہشت گردی، جس نے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو تین ہفتے سے زائد گزرنے کے باوجود کرفیو کے ذریعے مقید کر رکھا ہے۔
پروین شاکر نے کہا تھا کہ
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
کے مصداق پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا عمیق جائزہ لینا چاہیے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ہم مبنی بر سچ و حق ہیں اور ہماری کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ۔ دوسرے ممالک کے ہندوستان سے معاشی مفادات اپنی جگہ مگر کیا یہ سچ نہیں کہ ہم دنیا کو اصل مسئلہ بتا ہی نہیں سکے۔ ہمارے سفارت خانوں میں قضیہ کشمیر سے متعلق لٹریچر نایاب ہے ۔ دنیا کو ہمنوا بنانے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے تھنک ٹینکس اور لابنگ فرمز کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں مگر ہم ایسا نہ کرسکے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی شہ رگ کے باسی بدترین محاصرے میں گِھرے ہیں اور پاکستانی سیاستدان اس وقت مسئلہ کشمیر کی آڑ میں ذاتی تشہیر میں مگن ہیں۔ موجودہ حکومت نے مسائل میں گھرے لوگوں کے مسائل کم کرنے کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے جس بنا پر اس حکومت کی غیر مقبولیت بڑھی۔ حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر وزراء و حکومتی ترجمانوں کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں تھا ، کشمیر کی موجودہ صورت حال کو حکومت اپنی مقبولیت کے لئے ایک ہتھیار کے طور استعمال کر رہی ہے۔ ایک طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ، لوگ بنیادی حقوق سے محروم اور بھارتی حکومت کے متعفن ماحول میں سانس لینا دشوار ہے اور دوسری طرف یہ کھیل، خدا راذاتی ڈھول پیٹنے بند کریں۔خارجہ پالیسی پارلیمان میں بنائی جائے۔ ضرورت ہو تو یہ اجلاس طویل مدت کے لئے ان کیمرہ منعقد کیا جائے، اجلاس میں خصوصی دعوت پر سابق سفارت کار اور عسکری ماہرین بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔
امریکہ ہمیشہ ہمارا کاندھا استعمال کرتا رہا ہے مگر دو عشروں سے تو ہم نے ان سے بڑھ کر ان کی جنگ لڑی۔ پاکستان کو اس وقت امن وامان اور جس بدترین معاشی صورتحال کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ امریکی جنگ میں ہمارا فرنٹ لائن اتحادی ہونا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ سال چھ ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹر میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اس صورت حال کا شکار ہم غیروں کی جنگ لڑنے سے ہوئے۔ غیروں(ٹرمپ)کو اپنا الیکشن جیتنے کے لئے آپ کے کردار کی اشد ضرورت ہے، زلمے خلیل زاد آپ کے تعاون بغیر کچھ بھی نہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل جائزہ لیجئے اپنی پالیسیوں میں سقم کا۔
مانیے کہ آزاد کشمیر کی انقلابی حکومت کو خود تسلیم کرنے کے بعد دنیا سے اسے تسلیم کروانا تھا، بہت دیر کر دی مہربان مگر ہم فلسطین کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا اب بھی کر سکتے ہیں۔ ایسا ہو جائے تو کشمیری آپ کے تعاون سے خود اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ آج ہمیں تنہائی کا سامنا ہے تو یہ ہماری کمزوریوں کے سبب ہے۔ کلبھوشن پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کا بڑا ذریعہ ، مگر ہم دنیا کو اصل بات نہ بتا سکے۔ بھارت نے ہمارے ملک میں داخل ہو کر فضائی حملے کئے، جواب میں ہمارے قابل فخر شاہینوں نے نہ صرف انکا طیارہ مار گرایا بلکہ انکے پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا۔ دنیا کو اصل صورت حال بتائے بغیر ہم نے ابھی نندن کو واپس بھارت بھیج دیا۔
ترکی ایران ہمارے ساتھ ہیں۔ ترکی اور ایران کو ساتھ رکھ کر آر سی ڈی کو بحال کر کے چین ، روس اور دنیا کے دیگر ملکوں کو ساتھ ملایا جائے ۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں وہ کشمیریوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دےگا۔ اقبال نے کہا تھا کہ
دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ