’’100 قدموں کا سفر ۔ The Hundred Foot Journey‘‘ کہانی ہے ایسے سو قدموں کے فاصلے کی، جس کے ایک طرف انڈین ریستوران اور دوسری طرف روایتی فرانسیسی ریستوران ہوتا ہے۔ یہ دونوں کھانے پینے کے ریستوران ہی نہیں بلکہ دو بڑے خطوں کی ثقافت کے مظہر بھی ہوتے ہیں۔ دونوں طرف اپنے اپنے کھانوں اور ثقافت کو سجا بنا کر گاہکوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس مقابلے میں شریک دونوں ریستوران سے وابستہ افراد کس طرح اپنی زندگی میں جدوجہد کرتے ہیں، یہ ناول اسی کہانی کا بیان ہے، جس میں کھانے علامت بھی ہیں اور ذریعہ بھی، جن کی مدد سے ایک دوسرے کی ثقافت اور معاشرت کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس ناول کے مصنف رچرڈ سی مورائس ہیں، جو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ یہ اب تک تین ناول اور ایک نان فکشن کتاب لکھ چکے ہیں، لیکن سب سے زیادہ مقبولیت اسی ناول نے حاصل کی۔ ناول نگار کو عالمی ثقافت میں دلچسپی ہے، جس کی وجہ سے ان کے ناولوں کے کردار عالمی ثقافت میں رنگے ہوئے ملتے ہیں۔ مصنف کی پیدائش پرتگال کی ہے، جبکہ والد ہ امریکی اور والد پرتگالی نژاد کینڈین ہیں۔ تین دہائیوں تک صحافت سے وابستہ رہنے کے بعد انہوں نے ناول نگاری پر توجہ مرکوز کی اور 2010 میں اپنا پہلا ناول لکھا، جو یہاں زیر بحث ہے۔ ناول کو شائع ہونے کے بعد بڑے پیمانے پرمقبولیت حاصل ہوئی اور عالمی ادب میں اس کا خیر مقدم کیا گیا۔
ناول میں کہانی کا مرکزی خیال یوں ہے کہ انڈیا میں مقیم ایک مسلمان خاندان دکھایا ہے، جس کا آبائی پیشہ کھانے پکانے کا ہے۔ ہندوستان میں سیاسی ہنگاموں میں اس خاندان کو بھی نقصان پہنچتاہے اور کاروبار متاثر ہوتا ہے، گھر کے سربراہ’’ پاپا قدم‘‘ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور یورپ کی طرف کوچ کرتے ہیں، قدم ان کا خاندانی نام ہے، اسی شناخت کے ساتھ یہ خاندان کچھ دن برطانیہ میں رکنے کے بعد مرکزی یورپ کی طرف سفر کرتا ہے ، فرانس میں ان کا قیام ہوتا ہے، جہاں یہ اپنے آبائی پیشے کو دوبارہ شروع کرنے کی غرض سے ایک پرانی عمارت خرید کر اس پر اپنا ریستوران کھولتے ہیں۔
اسی مقام پر سوقدم کے فاصلے سے ایک فرانسیسی ریستوران پہلے سے موجود ہوتا ہے، جس سے ابتدائی طور پر ان کے درمیان مقابلے کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ اسی ماحول میں انڈین خاندان کے نوجوان باورچی کو فرانسیسی ریستوران کی خاتون مالکہ کے ہاں کام کرنے والی فرانسیسی باورچن سے محبت ہوجاتی ہے۔ اب دونوں طرف کے بڑے ایک دوسرے سے کاروباری مسابقت ہونے کی وجہ سے خاصے جذباتی ہوتے ہیں، جبکہ نوجوان جوڑے کی کوشش ہوتی ہے کہ حالات معمول پر آجائیں۔
اسی صورتحال کے اتار چڑھائو کو کہانی میں مختلف کرداروں کی مدد سے دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انڈین ریستوران کا نوجوان باورچی حسن قدم اپنے کھانے پکانے کی عمدہ صلاحیتوں کی بنیاد پر فرانس میں اس شعبہ کا ایک بڑا اعزاز جیت لیتا ہے اور پھر اپنے مزید روشن مستقبل کی تلاش میں پیرس روانہ ہوتا ہے، وہاں وہ اورزیادہ کامیابیاں سمیٹتا ہے، اس دوران اس کی محبت اور ملازمت بھی جاری رہتی ہے۔ ایک مہاجر خاندان کی کامیابی کی داستان کو بہت ہی دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے، جس میں صرف کھانے پکانے کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ انسانی احساسات اور لطیف جذبات کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ اس ناول میں 90 کی دہائی کا وقت دکھایا گیا ہے۔
ناول پر اسی نام سے2014 میں فلم بنی، فلم کے تین پروڈیوسرز میں سرفہرست نامور امریکی فلموں کے ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ ہیں، جنہوں نے اس فلم کے لیے اپنا نام بطور پروڈیوسر پیش کیا۔ فلم کے ہدایت کار لاس ہیلسٹرم ہیں، جن کا تعلق سویڈن سے ہے۔ اداکاروں میں معروف انڈین اداکار اوم پوری اور جوہی چاولہ نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا جبکہ معروف برطانوی اداکارہ ہیلن میرن نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن درحقیقت یہ اوم پوری اور ہیلن میرن کے درمیان اداکارانہ مقابلہ تھا، جس میں دونوں نے شاندار صلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے فلم کو چار چاند لگا دیے۔ اوم پوری نے کسی بھی منظر میں خود کوکمزور نہیں پڑنے دیا اور اپنے کردار میں حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ فلم بین اس کے سحر میں کہیں کھو جائے، یہی اوم پوری کاکمال تھا،جس کی وجہ سے وہ عالمی سینما میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
فلم کی موسیقی معروف ہندوستانی اور مسلمان موسیقار اے آررحمان نے دی، جبکہ کئی اور ایسے فنکاروں نے بھی فلم میں کام کیا، جن کا تعلق انڈیا سے ہے۔ اسی طرح منیش دیال امریکی اداکار اور چارلوٹ لی بون کینڈین اداکارہ ہیں، جنہوں نے فلم کے مرکزی کرداروں میں شاندار رومانوی جوڑی کا کردار نبھایا۔ اس فلم کو باکس آفس پر کامیابی ملی، اس نے اپنی لاگت سے دوگنا کمایا اور ناول کی طرح فلم کے پردے پر بھی خوب کامیابی سمیٹی۔ فلم کی لوکیشنز، پس پردہ موسیقی اور دیگر تمام پہلوئوں پر بھی بخوبی کام کیا گیا ہے۔ ’’100 قدموں کا سفر‘‘ (The Hundred Foot Journey)‘‘ کی کہانی دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے رخ کو ایک خاص انداز میں پیش کرتی ہے، جس کو پڑھ کر یا فلم کے پردے پر دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والوں کی طرز زندگی کیا ہوتی ہے اور اگر کوئی غریب ملک سے امیر ملک میں جائے تو اس کو کس طرح کے مسائل پیش آسکتے ہیں، اسے مقامی لوگوں کی طرف سے کس طرح کی مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر میں بالخصوص یورپ میں مہاجرین آباد کاروں کے خلاف ایک نفرت کی مزاحمت موجود ہے، جس کے تناظر میں ہم گاہے بگاہے مختلف واقعات رونما ہوتے دیکھ سکتے ہیں، اسی تناظر میں یہ کہانی اس طرح کے مخصوص ماحول اور ملکی نفسیات کی جزیات کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں اپنے ملک کی سفارت کرنے کی غرض سے ریستوران اور پکوان بھی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، دنیا بھر میں پھیلے انڈین ریستوران اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ کھانے پکانے کے کام سے بھی سفارت کاری کا کام لے رہے ہیں اور ہمیں بھی بطور پاکستانی اس رخ سے سوچتے ہوئے اپنے ملک کی سفارت کاری کرنے کی غرض سے اس پیشے میں اہم اقدامات کرنے چاہییں۔