٭……احمد فراز……٭
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی، میری آنکھ میں ابھی نُور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر، جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزمگاِہ کے درمیاں، ہے میرا نشان کُھلا ہُوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس، نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا
مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر، ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو، یہ میرے نصب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں، جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اُسے مرگزار کا خوف کیا، جو کفن بدوش سدا رہا
وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے، یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر ہے، یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے
سو میرے غنیم نہ بُھول تُو ، کہ ستم کی شب کو زوال ہے
ترا جور و ظلم بلا سہی، میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے مان جوش و گُرز پر، مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا، جو گلاب میرے کفن پہ ہے