• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ میں زیر غور آنے والی بھارت کے لئے فضائی حدود اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کرنے کی تجویز درحقیقت اس صورت حال کا فطری ردعمل ہے جو نئی دہلی کی نریندر مودی سرکار کے 5؍اگست کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے غیرقانونی و جارحانہ اقدام کے علاوہ کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے نت نئے حربے آزمائے جانے اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی مسلسل اشتعال انگیزی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے ٹوئٹر پیغام اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کی پریس بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تجویز کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ درست طریقہ بھی یہی ہے کہ اہم اور دور رس اثرات کے حامل فیصلے خوب سوچ سمجھ کر کئے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 24روز سے جاری کرفیو اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال اس مقام تک جاپہنچی ہے جہاں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس عرصے میں دوائوں کی عدم دستیابی، بھوک اور بھارتی فوجیوں کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے نتیجے میں کتنے مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے نقد جاں سے محروم ہوچکے ہیں۔ قابض فوج نے وادی کے تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو شہید ہونے والوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے کی جو ہدایت کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سنگین صورت حال کا ادراک رفتہ رفتہ پوری دنیا کو ہورہا ہے اور پاکستان میں ہی نہیں، بہت سے ملکوں سے کشمیریوں کی حمایت میں مظاہروں اور صدائے احتجاج بلند کئے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ بھارت سے آنے والا سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو کا بیان انتباہ ہے اس بات کا کہ جو کچھ اس وقت کشمیر میں ہورہا ہے آگے چل کر وہی کچھ اتر پردیش یا دوسرے صوبوں کے عوام کے ساتھ بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مبصرین کا کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے دبائو بڑھائے جانے کے حوالے سے کہنا ہے کہ سول آبادی کو گولہ باری کا نشانہ بنانے کا مقصد مقامی لوگوں کو کنٹرول لائن کے علاقوں سے انخلا پر مجبور کرنا ہے تاکہ بھارتی فوج کو ان علاقوں پر قبضہ جمانے کا موقع مل سکے۔ بھارتی حکومت کا طرز عمل مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے اقدامات سے پرکھا جائے، بغیر اطلاع پاکستانی علاقے میں ڈیموں کا پانی چھوڑے جانے کی کارروائی کے پس پشت مذموم سوچ کے حوالے سے اس کا تجزیہ کیا جائے یا بھارتی حکمرانوں کے بیانات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے، واضح یہی ہوتا ہے کہ نئی دہلی کے حکمران جنگ پر تلے ہوئے ہیں۔ چند دن قبل بھارتی وزیر دفاع کی طرف سے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی جاچکی ہے۔ اب بھارت کی مشرقی کمان کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ایم ایم ناراوا کا کہنا ہے کہ ’’ہم پاکستان کے ایٹمی بھوت سے ڈرنے والے نہیں‘‘۔ اس صورت حال میں ہر آزمائش میں پورا اترنے والے دوست ملک چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل زوکی لیانگ چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی چیانگ کا جو پیغام لے کر آئے وہ پاکستانی قوم کے لئے بلاشبہ حوصلہ افزا ہے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم اور بحریہ کے سربراہ سے ملاقاتوں میں دیا گیا واضح پیغام یہ ہے کہ ’’چین ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ 6؍ ستمبر کو یوم دفاع کی تقریبات میں چینی وزیر خارجہ کی شرکت بھی اسی پیغام کا علامتی اظہار ہوگی۔ مذکورہ پیغام واضح اشارہ دے رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی چین اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا۔ اس پس منظر میں یہ توقع بے محل نہیں کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے مجوزہ اجلاس میں پوری مسلم امہ کی طرف سے اسلامی ملکوں کے مفاد میں ہمیشہ سرگرم رہنے والے ملک پاکستان کے موقف کو ایسی ہی بھرپور پذیرائی دی جائے گی جیسی ایران اور ترکی کی طرف سے سامنے آئی ہے اور جس ملک کے سفیر کا بیان بھارت کی حمایت میں آیا، اسے بھی سفارتی ذرائع سے حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا جائے گا۔ جہاں تک بھارت پر پابندیاں لگانے کی تجویز کا تعلق ہے اسے عالمی برادری کی وسیع تر حمایت سے متعدد شعبوں تک پھیلانے کی سفارتی کاوشیں کی جانی چاہئیں۔

تازہ ترین