• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

’’حسنین کریمینؓ ‘‘ سرورِ کونین،امام الانبیاء،سیدِ عرب و عجم ،حضرت محمدﷺ کے چہیتے نواسے ،خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃالزہراءؓ اورشیرِ خدا سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فرزند ہیں۔سرکارِ دوجہاں ﷺ حسنین کریمینؓ کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔آپﷺ نے ان دونوں حضرات سے عقیدت و محبت کو دین کی بنیاد اور اپنی اطاعت و محبت کی بنیادی شرط قرار دیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ ان دونوںحضرات کی سیرت وکردار، فضائل و مناقب کا ایک روشن اور تاریخ ساز باب ہے۔ذیل میں اس حوالے سے نگاہِ سرور کونین ﷺ میں ان کے مقام اور فضائل و مناقب کے حوالے سے ارشاداتِ نبویؐ پیش خدمت ہیں۔جن سےحسنین کریمینؓ کی عظمت و مقام کا پتا چلتا ہے۔

٭…حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں، میں ایک رات کسی ضرورت سے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دروازے پر دستک دی، آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ کوئی بچہ آپﷺ کی گود مبارک میں ہے، مگر مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ کون ہے؟ جب میں اپنے آنے کی غرض بیان کر کے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ ،آپ ﷺکی گود میں کیا ہے؟ آپ ﷺ نے چادر ہٹائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک طرف سیدنا حسنؓ اور دوسرے پہلو میں سیدنا حسینؓ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں میرے اور بیٹی فاطمہ ؓ کے لختِ جگر ہیں۔ ’’اے اللہ! مجھے ان سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے تو اس سے بھی محبت فرما۔‘‘(ترمذی)

٭…حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ’’وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہﷺ! آپ کو آپ کے گھرانے کے افراد میں کون زیادہ محبوب ہیں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حسنؓ و حسینؓ ! چناں چہ آپ ﷺ حضرت فاطمہؓ سے فرماتے کہ میرے بیٹوں کو میرے پاس بھیج دو۔ وہ آتے تو آپ ﷺ انہیں سینے سے لگاتے اور خوب پیار کرتے۔‘‘ (ترمذی)

٭…حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ،حسنؓ و حسین ؓ بھی ساتھ تھے۔ ایک دائیں کندھے پر اور دوسرے بائیں کندھے پر سوار تھے۔آپ ﷺکبھی اِن کا بوسہ لیتے اور کبھی اُن کا۔دونوں سے خوب پیار کرتے۔ (مسند احمد)

٭…حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) سجدہ فرماتے،اتنے میں حسنؓ و حسینؓ آکر آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو آپ ﷺ سجدہ لمبا فرما دیتے۔ چناں چہ آپ ﷺ سے عرض کیا جاتا کہ آپﷺ نے سجدہ طویل فرمادیا؟تو آپ ﷺ فرماتے ’’میرے لختِ جگر میری پیٹھ پر سوار تھے، اس لیے جلدی کرنا مجھے اچھا نہ لگا۔‘‘ (مسندِ ابویعلیٰ)

٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ہوتے،جب آپ ﷺ سجدہ فرماتے تو سیدنا حسنؓ و حسین ؓ آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر جابیٹھتے، صحابۂ کرامؓ انہیں روکنا چاہتے تو آپ ﷺ اشارے سے منع فرمادیتے کہ انہیں مت روکو! آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو انہیں اپنی گود میں بٹھا لیتے اور فرماتے کہ: ’’جو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ ان سے بھی محبت رکھے۔‘‘ (طبرانی)

٭…عبداللہ بن نجی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں جو حضرت علی ؓ کے خادم تھے کہ وہ ایک سفر میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے، صفین کی طرف جارہے تھے، ہم لوگ جس وقت نینویٰ(نامی) بستی کے قریب پہنچے تو حضرت علیؓ نے مجھے آواز دے کر فرمایا: ابو عبداللہ، ٹھہر جایئے! ابو عبداللہ ،ذرا فرات کے کنارے رکیے! میں نے عرض کیا کیا بات ہے؟ فرمانے لگے ،میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھیں پُرنم ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ﷺ کی آنکھیں اشک بار ہیں خیر تو ہے؟ آپﷺ کو کس نے غمگین کیا ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا کہ کسی نے نہیں ستایا، دراصل بات یہ ہے کہ ابھی کچھ دیر پہلے جبرائیلؑ میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ ﷺکے نواسے حسینؓ کو دریائے فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا اگر چاہیں تو اس سرزمین کی مٹی آپ ﷺکو سنگھائوں؟ میں نے کہا ،ضرور لایئے، اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ دراز کیا اور ایک مٹھی مٹی مجھے تھمادی، اس پر میرے آنسو بہہ نکلے۔ (مسند احمد)

٭…حضرت انسؓ فرماتے ہیں، آپﷺ سجدہ فرماتے، اتنے میں حسنؓ و حسین ؓ آکر آپﷺ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے جس کی وجہ سے آپ ﷺ سجدہ طویل فرمادیتے۔ جب آپ ﷺ سے پوچھا جاتا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے سجدہ بہت طویل فرمایا (کیا بات تھی؟) تو آپ ﷺ فرماتے میرے بیٹے میری پشت پر سوار تھے۔ اس لیے جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔ (مسند ابویعلیٰ)

٭…عبدالرحمن بن ابی نعیم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : حسنؓ و حسینؓ میری دنیا کی بہار ہیں۔ (صحیح بخاری)٭…یعلیٰ بن مرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں جارہے تھے، راستے میں دیکھا کہ حضرت حسینؓ کھیل رہے تھے، رسول اللہ ﷺ ہم سے آگے بڑھے اور حضرت حسینؓ کو پکڑنے کے ارادے سے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر حضرت حسینؓ کی طرف متوجہ ہوئے، وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ ﷺ بھی ان سے دل لگی فرماتے رہے ،حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اپنا ایک دستِ مبارک ان کی ٹھوڑی کے نیچے دیا اور دوسرے ہاتھ سے گدی پکڑ کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا، حسینؓ مجھ سے ہے، میں حسینؓ سے ہوں۔ حسینؓ ایک عظیم نواسۂ رسولﷺ ہے۔ (ابنِ ماجہ)

٭…آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اے فاطمہؓ ،میں، تم اور یہ دونوں یعنی حسنؓ اور حسینؓ اور یہ سونے والا یعنی علیؓ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے۔ (مسندِ احمد)٭…عمرو بن شعیب ؓسے مروی ہے کہ وہ زینب بنت ابی سلمہؓ کے ہاں گئے تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ (ایک مرتبہ) حضرت ام سلمہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے حضرت حسنؓ کو ایک جانب بٹھایا اور حضرت حسینؓ کو دوسری جانب اور سیدہ فاطمہؓ کو دونوں کے درمیان بٹھایا اور فرمایا: رحمۃ اللہ علیکم اہل البیت۔ یعنی اس گھرانے پر اللہ کی رحمتیں ہیں۔ (طبرانی)

٭…حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ، فاطمہؓ ،حسنؓ و حسینؓ سے فرمایا: جس کے ساتھ تمہاری جنگ اس کے ساتھ میری جنگ اور جس کے ساتھ تمہاری صلح اس کے ساتھ میری بھی صلح اور مسندِ احمد کی روایت میں یوں ہے: جو تم سے لڑے گا، اس کے ساتھ میری بھی لڑائی اور جو تم سے صلح کرے گا، اس کے ساتھ میری بھی صلح۔ (ترمذی)

٭…دائود بن ابوعوف سے مروی ہے، جو انتہائی ثقہ تھے، وہ ابو حازم سے اور وہ ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’جس نے حسن ؓو حسین ؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ (ابنِ ماجہ)٭…عبدالرحمن بن ابی نعیمؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’حسنؓ و حسینؓ میری دنیا کی بہار ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

٭…سیدہ فاطمہؓ حسنؓ و حسینؓ کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،آپ ﷺ مرض الوفات میں تھے۔ عرض کرنے لگیں، اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپ کے نواسے آئے ہیں ،انہیں کچھ عنایت فرما دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا :حسنؓ میری سیادت و ہیبت اور حسینؓ میری جرأت و سخاوت کا وارث ہوگا۔ (طبرانی)ان تمام روایات اور فرامین نبویؐ سے حضراتحسنین کریمینؓ کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا اور ان کے فضائل و مناقب کا اظہار ہوتا ہے۔بلاشبہ، حسنین کریمینؓ کی حیات و خدمات اسلامی تاریخ کا روشن اور تاریخ ساز باب ہے۔

تازہ ترین