• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھبرائیے نہیں، میں نے بات نریندر مودی کی کرنی ہے، سو ازراہِ کرم فتوے ابھی پٹاری ہی میں رکھئے۔ ویسے بھی میں صلاح الدین نہیں کہ ڈائریکٹ طریقہ اپناؤں اور جان سے جاؤں اور پوچھوں کہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟ لہٰذا تسلی رکھئے میں نامناسب جگہ پر نامناسب سوال کسی نامناسب سے نہیں کرنے والا۔

ہم اپنے وزیراعظم سے تو آج کل بہت خوش ہیں کیونکہ خبر ملی ہے کہ کم و بیش 27 وفاقی وزراء کو ریڈ لیٹرز جاری ہوئے ہیں ورنہ ہم تو اپنی پیدائش سے آج تک یہی دیکھتے آئے ہیں کہ وزراء کو ہمیشہ ریڈ کارپٹس ہی ملے ہیں۔ جان کی امان بخشیں تو بتا دیجئے گا حاملین ِلال خط جسے آخری وارننگ کہا جارہا ہے، میں داخلہ و خارجہ والے بھی ہیں ؟ ارے ہمارا کیا ہے، ہم تو حسنِ ظن کے اس کمال سے بھی آشنا ہیں کہ گر حسن کا فقدان ہو تو اسے تراش لیتے ہیں یا دریافت کرلیتے ہیں، گویا اس پر شاداں و فرحاں ہیں کہ عمران خان نے وزیراعظم کی طرف سے صدرِ مملکت کو بھیجی گئی قرض معافی کی سمری کا نوٹس لے لیا ہے! خیر زیبِ داستان سے ہٹ کر شاہراہِ حقیقت پر چلتے ہوئے دیکھیں تو پرسوں بھی وزیراعظم نے خوش کر دیا۔ وزیر اعظم کا عسکری قیادت کے ساتھ کنٹرول لائن پر جانا اچھا لگا۔ سچ یہی ہے سرحدیں جغرافیائی ہوں یا نظریاتی ان کو ڈھانپنے کیلئے خونِ جگر اور دردِ دل درکار ہے۔

ایک بات ذہن میں اور آ اٹکی ہے، پہلے وہ کر لوں۔ ریڈ کارڈ یا ریڈ کارپٹ، ’’ریڈ کرپٹ‘‘ اور ریڈ الرٹ شلرٹ کی بات بعد میں، بات یہ ہے کہ جیسے چھوٹے چھوٹے زخموں کو فراموش کرکے انسان انفیکشن اور ناسور کو دعوت دیتا ہے، ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں اور روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے غلط فیصلوں کو نظر انداز کرکے ہم سماجی بگاڑ کو دہلیز تک آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ مصلحتیں بھی درست اقدام سہی تاہم قومی سطح کی مصلحتوں کے اثرات ذاتی یا شخصی نہیں، قومی ہی ہوتے ہیں۔ سو حقیقی قیادت ہی اس کا ادراک رکھتی ہے! کسی کیلئے محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان ہیرو ہیں اور کوئی انہیں ولن خیال کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ کے نزدیک ہٹلر اور مسولینی ہیرو ہیں جبکہ ہم انہیں ولن گردانتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کل عمران خان ہمارا اور سرحد پار والوں کا کپیل دیو ہیرو تھا۔ وقت آگے نکل آیا ہے، اب وزیراعظم عمران خان ہمارا ہیرو ہے اور سرحد کے اس پار والوں کا ہیرو نریندر مودی۔ لیکن تاریخ کھنگالنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ نے اسے اپنے ماتھے پر غیر متنازع ہیرو کندہ کیا جس کا اپنا ہیرو انسان تھا اور انسانیت سے محبت! انسانیت تو کہتی ہے کہ دشتِ بے آب میں کوثر کی روانی گویا کشتِ انساں پر برستا پانی بنا جائے!

مغرب والے یہ سوچتے تو ہوں گے کہ بھارت اور پاکستان میں انسانی حقوق کا ایک طرف عالم یہ ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انسان کو انسان سمجھتے ہی نہیں اور ان کی نظر محض اشرافیہ ہی انسان ہے اور دوسری طرف پاکستان کشمیریوں کیلئے بالخصوص اور بھارتی مسلمانوں کیلئے بالعموم کتنا تڑپتا ہے۔ بھارت کو دیکھیں ایک طرف روئے زمین کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے، علاوہ ازیں سیکولر ازم کا دم بھرتا ہے مگر دوسری جانب کشمیر میں انسانیت کو یوں کچلتا ہے جیسے کوئی روڈ رولر پتھروں کو۔ جنگ و جدل کیلئے تیار دونوں ممالک کرتارپور کیلئے گفت و شنید بھی کر رہے ہیں اور ایک صفحہ پر بھی۔ (منٹو کے افسانے ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ کا تذکرہ آج نہیں) اقوام متحدہ نے مسلم ملک انڈونیشیا کو مشرقی تیمور (20مئی 2002) اور مسلم سوڈان کو جنوبی سوڈان (9جولائی 2011) ریفرنڈم پر مجبور کیا کہ معاملہ انسانوں کا تھا۔ کیا کشمیریت کی روح میں انسانیت نہیں اور انسانیت کی روح میں کشمیریت نہیں؟ کیا جمہوریت انسانیت کیلئے اور انسانیت جمہوریت کیلئے نہیں؟ مودی جی! کیا آپ کو وزیراعظم انسانیت نے انسانیت کیلئے نہیں بنایا؟ کیا کشمیری حقوقِ انسانی کیلئے نہیں ترس رہے؟ کیا آئین ہو کہ قانون یہ انسانوں کیلئے نہیں؟ کیا اقوام متحدہ اور او آئی سی انسانوں کیلئے نہیں؟ مودی اور اس کے تھنک ٹینک کو ہندو ازم والے سمجھائیں کہ اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی میں ’’جنتا‘‘ کا مطلب کیا ہے اور ’’اس جنم‘‘ میں اگر وہ انسان بن کر آ ہی گیا ہے تو یہ بھی سمجھے کہ 370اور 35 اے جیسی دفعات کا خاتمہ غیر انسانی فکر و عمل ہے۔ دنیا کا ہر مذہب بہرحال اخلاقیات کو دیکھتا اور انسان سازی کی بات کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر درحقیقت انسانی مسئلہ ہے جہاں انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے۔ لیڈر تو جانتا ہے کہ ہر مذہب کے محقق اور ہر مذہب کے تاریخ دان نے محمد مصطفیٰﷺ کو محسنِ انسانیت ثابت ہی اس لئے کیا کہ رب العالمین نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنایا مگر ظالم نے محمدﷺ کے پیروکاروں کو سمجھا اور چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح!

وہ ایک بات اپنے وزیراعظم سے کرنا تھی جنہوں نے سرخ خط کے حامل وزراء کو متشکل کیا کہ وہ ہو سکے تو ان وزراء کو آئین پاکستان کی دفعات 9اور 10علاوہ بریں بالعموم 19بالخصوص 19اے، 25اور بطور خاص 25اے ضرور پڑھائیں۔ وعدہ رہا کہ یہ سرخ خط سبز خط میں بدل جائے گا! اگر مناسب سمجھیں تو زیادہ نہیں، بس درج بالا دفعات تمام پولیس افسران اور نظام عدل سے منسلک افراد کو بھی گھوٹ کے پلا دیں، پورا پاکستان روحانی و جسمانی طور پر سرسبز و شاداب خطوط پر چل پڑے گا اور تبدیلی قدم چومے گی۔

وزراء اگر اپنی مٹی، اپنی تہذیب اور محسنِ انسانیتﷺ کی تعلیمات سے دور نکل جائیں گے تو آپ، آپ کی حکومت اور آپ کے وزراء کسوٹی پر مزید ’’کھلتے‘‘ چلے جائیں گے۔ درج بالا دفعات اگر گھوٹ کر نہ پلائی گئیں تو ممکن ہے آنے والا الیکشن تو دور کی بات، آپ کے کئی وزراء کو کوئی دل جلا کسی بھی وقت پوچھ لے کہ ’’آپ نے وزیر بننا کس سے سیکھا ہے؟‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین