سیؤل : ایڈورڈ وائٹ
ٹوکیو: کنا انا گاکی
جاپان نے جنوبی کوریا کو کمپیوٹر چپس بنانے میں استعمال ہونے والے ایک اہم مواد کی ترسیل کی منظوری دے دی ہے۔ٹوکیو کی جانب سےان بڑھتے ہوئے خدشات کو کم کرنے کے لئے کہ برآمدی پابندیوں کا سلسلہ عالمی ٹیک سپلائی چین کو متاثر کرے گا۔
جاپانی وزیراعظم شنزو ابے کی حکومت نے جولائی میں جنوبی کوریا کے چپ اور ڈسپلے میکرز کیلئے اہم تین کیمیکلز فوٹو رسسٹ، ہائیڈروجن فلورائیڈ اینچنگ گیس اور فلورینٹڈ پولی مڈ کی فروخت پر سخت چیک عائد کئے ۔
جاپان اس مادے کی تیاری کے لئے مارکیٹ کے غالب حصہ کا مالک ہے۔
جنوبی کوریا کے دوران جنگ جبری مشقت کے متاثرین کیلئے معاوضے کے بارے میں ممالک کے مابین اختلاف کے ردعمل میں سخت جانچ پڑتال نے اس خدشے کو بڑھایا کہ مصنوعات کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ الیکٹرانکس کی پوری صنعت میں رکاوٹوں کا باعث بن سکتا ہے۔
جاپان کے اقتصادی تجارتی اور صنعت کے وزیر ہیرو شیج سیکو نے جمعرات کو نیوز کانفرنس میں کہا کہ جاپان نے سخت جانچ پڑتال عائد کرنے کے بعد سے پہلا ایکسپورٹ لائسنس منظور کیا تھا،تاہم اس سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا کہ کس سے مٹیریل کو اجازت دی گئی تھی۔
ہیروشیج سیکو نے کہا کہ جنوبی کوریا کی حکومت بے بنیاد الزامات عائد کرتی رہی ہے کہ برآمد پر پابندی ہے،لہٰذا ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایسی برآمدات کی منظوری دے رہے ہیں جو ہماری سخت اسکریننگ کے عمل سے گزر چکی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس اسکریننگ کے عمل کے دوران اگر نامناسب معاملات کا انکشاف ہوا تو جاپان تینوں مواد سے آگے جاتے ہوئے سخت جانچ پڑتال میں توسیع کرسکتا ہے۔
جبکہ اس اعلان سےقلیل مدت میں سپلائی میں رکاٹوں کے بارے میں کچھ خدشات کو دور کرنے میں مدد ملی،تاہم یہ جبری مشقت کے بارے میں سیؤل اور ٹوکیو کے مابین بنیادی کشیدگی کو ختم نہیں کرے گا۔
جاپان کا اپنے دعویٰ پر اصرار ہے کہ 1965 کے معاہدے میں جنگ کے وقت بیگار کا معاملہ طے پاگیا تھا،تاہم جنوبی کوریا کی عدالت عالیہ نے 2018 میں فیصلہ دیا کہ کمپنیوں کے خلاف انفرادی طور پر دعوے کئے جاسکتے ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے ایک بار پھر جاپان پر تنقید کرتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ انتقامی تجارتی اقدامات ’’اقتصادی انتقامی کارروائی‘‘ ہیں اورجاپان کے آزادانہ تجارت سے حاصل ہونے والے فوائد کے منافی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بغیر کسی فاتح کے کھیل ہے،جس کے آخر میں جاپان سمیت ہر کوئی متاثرین میں شامل ہوگا۔
گزشتہ ہفتے جاپان نے جنوبی کوریا کواس کی ترجیحی تجارت کی حیثیت والے ممالک کی وائٹ لسٹ سے نکال دیا،جس کا مطلب جاپان سے سیکڑوں اشیاء درآمد کرنے والی جنوبی کوریائی کمپنیوں کے لئے ممکنہ طور پر اسکریننگ کا عمل سخت ہونا ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک شخص کے مطابق جاپانی وزارت اب تک سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے فوٹو رسسٹ کی برآمدات کے لئے درخواستوں کی منظوری دے چکی ہے۔
اس شخص نے مزید کہا کہ جنوبی کوریا کی کمپنیوں کی ہائیڈروجن فلورائیڈ ایچنگ گیس اور فلورینیڈ پولیمائڈ کے لئے درخواستیں ابھی بھی وزارت کے پاس نظرثانی کے لئے منتظر ہیں،جو برآمدی کنٹرول سے پیداوار میں ممکنہ رکاوٹوں کے خدشات کو مستحکم کررہی ہیں۔
اس شخص نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اجازت دینے کا ارادہ سپلائی میں خلل ڈالنے والی رکاٹوں سے متعلق عالمی خدشات کو دور کرنا ہے،تاہم جاپانی حکام کی جانب سے حکمت عملی یا استحصال کرنے کے لئے ابھی بھی کافی گنجائش باقی ہے۔
جنوبی کوریا کے حکام نے بھی جلد ہی ڈوڈو کے آس پاس فوجی مشقیں کرنے کی تصدیق کی ہے، یہ علاقہ اس کے مشرقی ساحل پر جنوبی کوریا کے زیر کنٹرول جزائر جس پر جاپان کا بھی دعویٰ کرتا ہے، واقع ہیں۔
اس علاقے میں جنگی کھیل،جس میں فوج،فضائیہ،بحریہ اور کوسٹ گارڈ شامل ہیں، جنوبی کوریا رواں سال جاپان کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کرنے سے بچانے کی کوشش کررہا ہے۔