برسلز : مہرین خان
بیلجیئم دیگر ممالک کو قرضوں کی کمی کے نرم اہداف فراہم کرنے کیلئے یوروزون کے بجٹ کے پیچیدہ قواعد کو آسان بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جو بحران کے دوران جدوجہد کرنے والی معیشتوں کو مشکلات میں نہ ڈالے۔
یورپی کمیشن کے آئندہ انتہائی حساس سیاسی مباحثوں میں سے ایک اس موضوع پر طےہے،عہدیدار بلاک کے استحکام اور نمو کے معاہدے کو دوبارہ تحریر کرنے کے طریقوں پر غور کررہے ہیں،جومعاہدے نفاذ میں ناکام اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں کے لئے حد سے زیادہ لچکدار ہونےکی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔
یوروزون کے ایک سینئر عہدیدار نےاس کے برخلاف دلیل دی کہ اٹلی کوموسم خزاں میں نئے انتخابات اور اس کے 2020ءکے بجٹ کا ڈرافٹ پیش کرنے کی آخری تاریخ دونوں کے امکان کا سامنا ہے۔اس عہدیدار نے کہا کہ غیریقینی منظرنامے کے ساتھ یہ ہر چیز کو مشکل تر بنادے گا۔
یہ منصوبہ جو غیر رسمی طور پر ’’ایس جی پی 1.2‘‘ ،کے نام سے معروف ہے،یورپی یونین کے حکمرانوں کے قواعد کے نفاذ میں یوروزون کے دارالحکومتوں میں اعتماد بحال کرنے میں مدد کے لئے تیار کیا گیا ہے۔گزشتہ سال اٹلی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف حکومت کو2018 اور 2019 میں خسارے کے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہنے پر بیلجیئم کو سزا دینے سے گریز پر کافی تنقید ہوئی۔
فنانشل ٹائمز نے یورپی حکام کے ذریعے ایک داخلی پرمغز دستاویز دیکھی جس میں قواعد میں خاطرخواہ آسانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ایس جی پی،جس کی تشریح کیلئے 108 صفحات پر مشتمل گائیڈبک کی ضرورت ہے،نے عاقبت نا اندیش مالیاتی پوزیشن اور غیرقانونی مالیاتی پالیسیوں کا باعث بنی جس نے مشکلات کی شکار حکومتوں پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کیں ۔
اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب یوروزون کی معیشتیں سست رفتار ترقی کا سامنا کررہی ہیں اور بلاک کی پاور ہاؤس معیشت جرمنی کو کساد بازاری کے خطرے کا سامنا ہے۔ایس جی پی کی اصلاحات کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ عالمی تجارتی کشیدگی، معاہدے کے بغیر برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء اور محدود مالیاتی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے قواعد کو واضح کرے جو مالیاتی پالیسی کے کردار میں رکاوٹ کی بجائے مددگار ثابت ہوگا۔
تاہم یوروزون کے ایک سینئر عہدیدار نےاس کے برخلاف دلیل دی کہ اٹلی کوموسم خزاں میں نئے انتخابات اور اس کے 2020 کے بجٹ کا ڈرافٹ پیش کرنے کی آخری تاریخ دونوں کے امکان کا سامنا ہے۔اس عہدیدار نے کہا کہ غیریقینی منظرنامے کے ساتھ یہ ہر چیز کو مشکل تر بنادے گا۔
نومبر میں نئے کمیشن کے قیام میں آنے کے ابتدائی 12 ماہ کے اندر قواعد کو بہتر بنانے کی تجویز پر حکام نظر ڈال رہے ہیں۔زیرغور اہم اصلاحات میں سے ایک ’’انتہائی خطرے سے دوچار معیشتوں کے لئے قرضوں میں معقول اور پائیدار کمی‘‘ کے لئے قرضوں کے اہداف پر دوبارہ غور کرنا ہے۔
فی الحال،حد سے زیادہ خسارے والی معیشتوں کو قرضوں کا بوجھ 60 فیصد قرضے سے جی ڈی پی کے ہدف کی جانب بڑھنے کیلئے
تین سال کے دوران ایک سال میں 20/1 تک ان کے قرض میں کمی کرنا ہوگی۔حکام نے نجی طور پر اس کا اعتراف کیا کہ زیادہ تر ممالک کیلئے اس ہدف کو پورا کرنا ناممکن ہے جب ا ن کی معیشت معمولی سےا فراط زر کے ساتھ سست ہورہی ہو۔
کمیشن کی آئندہ صدر اروسولا وان ڈیر لیین نے گزشتہ ماہ ارکان یورپی پارلیمان کو بتایا کہ بیلجیئم ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے قواعد میں دی گئی تمام تر لچک کو استعمال میں لائے گا۔
شمالی اور جنوبی یوروزون ممالک کے مابین پھوٹ پڑ جانے کا حوالہ دیتے ہوئے دستاویز میں نوٹ کیا گیا ہے کہ اعلیٰ سطح کی تقسیم اور قواعد کے سخت خودکار طریقے سے اطلاق کے حامیوں اور زیادہ فیصلہ سازی پر مبنی نقطہ نظر کے حامیوں کے درمیان عدم اعتماد کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیشن کو محتاط انداز میں چلنا پڑے گا۔
ہالینڈ کی سربراہی میں طاقت کے استعمال کے حامی چاہتے ہیں کہ نیا کمیشن قواعد کی کتاب لاگو کرتے وقت کوئی سیاسی صوابدید فراہم نہ کرے۔دیگر جیسا کہ اٹلی کے یورپی اتحاد کے ناقد میٹیوسالوینی نے ایس جی پی پر قومی خودمختاری کو پامال کرنے اور کمزور معیشتوں کو سزا دینے کےالزامات لگائے ہیں۔
حدود کو توڑنے کیلئے کسی بھی یوروزون معیشت کو مالی تعزیرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہےجو قرض پر جی ڈی پی کی حد کا 60 فیصد عائد کرتا ہے اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہو۔
یورو کے انچارج نائب صدر ویلڈیس ڈومبروسکس نے کہا کہ انہوں نے ایس جی پی کو کافی حد تک نرمی دینے کے اقدام کی مخالفت کی،ایسے مطالبات ہیں جو پہلے ہی بہت زیادہ لچکدار صورت میں موجودہیں۔یہ ایک بہت ہی مشکل سیاسی بحث ہے جہاں آراء کافی مختلف ہیں۔
ماہر اقتصادیات اور لبرل ہسپانوی رکن یورپی پارلیمنٹ لوئس گاریکانو نے کہا کہ موجودہ قواعد یورپی کمیشن کو ایک ناقابل فہم پوزیشن میں پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقروض ممالک میں شہری غیر جوابدہ عمل سے دباؤ محسوس کرتے ہیں اور قرض دہندگان ممالک کے شہریوں کو لگتا ہے کہ مقروض ممالک کو بری الذمہ قرار دیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو سادہ اور زیادہ جوابدہ ہو۔