• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سفارتی سطح پر بڑی دھوم دھام سے برطانیہ میں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی سہ فریقی کانفرنس کوئی تیر نہیں مار سکی۔
3-4 فروری کو ہونے والے اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں طالبان سے مذاکرات کی بات کی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کردیاگیاہے کہ ابھی تک امن کا کوئی عمل شروع نہیں ہوا ہے اور اس بات پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا کہ مذاکرات کس طرح شروع کئے جائیں گے۔ اس طرح مشترکہ اعلامیے میں 6 ماہ کے اندر امن معاہدہ کرنے کا جو ہدف مقرر کیاگیاوہ نہ صرف یہ کہ خوش گمانی پر مبنی ہے بلکہ غیر حقیقت پسندانہ بھی ہے۔طالبان کی جانب سے لندن میں ہونے والے اس اجلاس کو مسترد کئے جانے سے اس کو بڑی تیزی سے ریلیف ملا ہے، طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے اعلان کیا کہ سربراہ اجلاس میں مذاکرات کی پیشگی شرائط پوری کرنے کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سابقہ اجتماعات کی طرح اس سے بھی افغان مسئلے کے حل کا کوئی حوصلہ افزا نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ تاہم مشترکہ اعلامیے میں دوحہ میں طالبان کادفتر کھولنے کی توثیق کی گئی۔ یہ 11 جنوری کو واشنگٹن میں افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی صدر بارک اوباما کے مشترکہ اعلامیے کی گونج ہے۔واشنگٹن مذاکرات اور لندن اجلاس میں طالبان کادفتر کھولنے کے بارے میں دشواریوں کا ذکر کیاگیا ہے جوکہ پائیدار امن مذاکرات شروع کرنے کیلئے ایک جگہ کے تعین کی جانب پہلا قدم ہے۔
گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اس طرح کادفتر کھولنے کی بات چیت جاری تھی۔2011ء اور 2012ء کے اوائل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مصالحت کاروں کا براہ راست تبادلہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مارچ 2012ء میں طالبان نے مذاکرات معطل کردیئے۔ اس دوران مختلف مواقع پر صدر حامد کرزئی اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس دفتر کے قیام کی مخالفت بھی کی جو قطر کے عمل کے رک جانے کی ایک وجہ بنی۔ قطر کا عمل بحال کرنے میں امریکہ کی دلچسپی اور اس پس منظر میں امریکی حکام نے کرزئی کو ان کے دورہ واشنگٹن کے دوران دوحہ کے دفتر کی کھلے عام حمایت کرنے پر مجبورکیا، اس کااظہار مشترکہ بیان اور صدر اوباما کے ساتھ نیوز کانفرنس میں دیئے گئے ریمارکس سے بھی ہوتا ہے۔لیکن کابل واپس پہنچتے ہی کرزئی نے اس دفتر کے قیام کیلئے شرائط عائد کرنا شروع کردیں، انہوں نے قطر کی حکومت کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس میں کئی شرائط شامل ہوں گی جس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ دوحہ کا دفتر صرف طالبان اور ان کی حکومت کی مقرر کردہ اعلیٰ امن کونسل (ایچ پی سی) کے درمیان ہی مذاکرات کے لئے استعمال ہو گا اور دیگر افغان پارٹیوں سمیت کسی اور سے نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خوف تھا کہ ایک دفعہ یہ عمل شروع ہوتے ہی انہیں کھڈے لائن لگادیاجائے گا۔قطر کی حکومت نے کوئی تحریری ضمانت دینے سے انکارکردیا جبکہ امریکی حکام نے تیزی سے غیر محفوظ ہونے والے کرزئی کو واشنگٹن میں کئے گئے وعدے پر لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی 2 فروری کی اشاعت میں اس عدم اتفاق کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کرزئی کس طرح امریکہ کی برہمی کاذریعہ بنے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا موقع نہیں تھا۔سربراہ اجلاس طلب کئے جاتے وقت اطلاعات کے مطابق کرزئی پر مفاہمتی یادداشت کا مطالبہ ترک کرنے اور غیر مشروط طور پر قطر کے دفتر کی منظوری دینے پر مجبور کیا گیا لیکن مشترکہ بیان میں ان کی حمایت سے لندن مذاکرات میں ان کی پیش کردہ شرائط کاپورا پرتو نظر نہیں آتا۔ ان مذاکرات کے دوران کرزئی نے دفتر کھولنے کو طالبان کی جانب سے اس بیان سے مشروط کردیاتھا کہ دوحہ کادفتر صرف ایچ پی سی کے ساتھ مذاکرات کیلئے استعمال ہوگا کسی اور مقصد کیلئے نہیں۔
پاکستانی حکام نے کرزئی پر زور دیاتھا کہ وہ پیشگی شرائط عائد نہ کریں اور امن کی جانب پیشرفت کیلئے کئی تجاویز دیں، دفتر کھلتے ہی جن پر عمل شروع ہوجائے گا۔ جس کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے جس کے بعد ایچ پی سی کے ارکان سمیت افغانوں سے مذاکرات ہوں گے۔ کرزئی اس پر تیار نہیں ہوئے ، اس سے دوحہ کے دفتر کا معاملہ طے نہیں ہوسکا۔ اس بات پر غیر یقینی کی صورتحال موجود ہے کہ آیا طالبان رہنماؤں کو منصوبے کے مطابق تمام افغان فریقوں سے مذاکرات پر آمادگی کے اظہار سے متعلق بیان جاری کرنے پر قائل کیاجاسکے گا۔اسلام آباد اور کابل کے درمیان اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے معاہدے کیلئے مذاکرات کے دوران ایک اور رکاوٹ سامنے آئی جب کرزئی نے سی پی اے کی تکمیل کو امن اور مفاہمت کیلئے پیشرفت سے مشروط کردیا، ان کاموقف یہ تھا کہ پارٹنر شپ امن کے بعد ہونی چاہئے اس طرح انہوں نے اسے قیام امن کا ایک ذریعہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اس سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ستمبر 2012ء میں نیویارک میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں ہونے والی مفاہمت کے برعکس اس مسئلے پر تمام پیشرفت رک گئی۔ صرف یہی وہ معاملہ نہیں تھا جس پر مذاکرات کے دوران کرزئی کاموقف معاندانہ تھا ، نام نہاد ٹریک ٹو مذاکرات پر جس سے مسلمہ طالبان نمائندگان سمیت مختلف افغان گروپوں کو یکجا کیا گیا تھا ،حال ہی میں فرانس میں اور اس سے قبل جاپان میں کرزئی نے اس پر تنقید کی اور اسے خطرناک قرار دیا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اور ان کے ترجمان برملا یہ کہتے رہے ہیں کہ ان اقدامات کامقصد امن عمل میں پیشرفت نہیں بلکہ اس کو ہائی جیک کرنا ہے اور اسے ان کی حکومت کے خلاف لیور کے طورپر استعمال کیاجارہا ہے۔افغانیوں کے درمیان غیر رسمی بات چیت کے بارے میں ان کی مخالفت نے اشک آباد میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مجوزہ اجلاس کو تارپیڈو کردیا ہے اس مہینے کے آخر تک ترکمانستان کو جس کی میزبانی کرنا تھی۔ زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ کرزئی اس خوف سے کہ ان کی حکومت کی اہمیت کم ہوجائے گی کس طرح ان سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، جن سے امن کے عمل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب طالبان رہنما مسلسل یہ اعلان کررہے ہیں کہ اس طرح کی کانفرنسوں میں ان کی شرکت کو مذاکرات میں شمولیت تصور نہیں کیا جانی چاہئے۔ مثال کے طورپر پیرس کے اجلاس میں انہوں نے کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ کابل، مذاکرات کو مجاہدین کے سرنڈر کرنے کے مترادف قرار دینا چاہتا ہے تاہم طالبان رہنماؤں نے مسئلے کے حل کیلئے تمام افغان فریقوں سے مذاکرات پر آمادگی کااشارہ دیا۔ اس میں بعدازاں ایچ پی سی کے ارکان کوکابل حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں شامل کیاجاسکے گا۔ صرف یہی وہ صورتحال نہیں ہے جس کو حل کرنے اور جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے سرکاری طور پرطالبان کے دفتر کھولنے کی راہ میں اس بات پر امریکہ کااصرار بھی حائل ہے کہ دفتر کے قیام سے قبل طالبان ایک بیان جاری کریں جس میں بین الاقوامی دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہو۔
گزشتہ سال اعتماد کی بحالی کے اقدام کے طور پر دونوں جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے تحت اس پر اتفاق ہو گیا تھا۔ سی بی ایم میں قیدیوں کے تبادلے کی بات بھی شامل تھی اور امریکہ طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے زیر حراست امریکی قیدی بووے برگدال کے بدلے گوانتاناموبے سے5 طالبان کو قطر منتقل کررہا ہے۔ یہ تمام امور زیر بحث اور زیرغور تھے جب طالبان نے یہ الزام عائد کیا کہ امریکہ متفقہ اقدام سے منحرف ہوگیا ہے تاہم امریکی حکام نے کسی ٹائم ٹیبل کو حتمی شکل دیئے جانے کی تردید کی ہے۔ یہ سوال کہ کون پہلے جائے گا اور ضروری اقدام کس طرح کئے جائیں ایک کلیدی مسئلہ ہے جسے سنجیدہ مذاکرات جاری رکھنے کی پیشرفت کیلئے حل کیاجانا ضروری ہے۔ مذاکرات جاری رکھنے کیلئے مختلف فریقوں کی مختلف ترجیحات کو مدنظر رکھنابھی ضروری ہوگا۔طالبان کا مسلسل یہ بنیادی مطالبہ ہے کہ افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیں واپس بلائی جائیں اس لئے ان کی اصل توجہ امریکہ کی جانب سے اس کی ضمانت حاصل کرنا ہے، لندن کے سربراہ اجلاس کے بارے میں ذبیح الله مجاہد کے ردعمل سے افغانستان کی خودمختاری کا احترام اور غیرملکی قبضہ ختم کرنے کے مطالبے کی تجدید ہوتی ہے۔ جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا طالبان امن مذاکرات کیلئے اس ضمانت کو پیشگی ضرورت سمجھتے ہیں یا یہ ضمانتیں مذاکرات کے نتیجے کے طور پر سامنے آئیں گی۔ اس سال فوجوں کی واپسی تیز کرنے کے بارے میں صدر بارک اوباما کے اسٹیٹ آف دی یونین سے مجوزہ خطاب میں ایسی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے جو مستقبل کے مذاکرات میں معاون ثابت ہو لیکن اس کاتعین کرنے کیلئے پہلے براہ راست امریکہ طالبان مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اگر لندن کے اجلاس کاکوئی مثبت پہلو ہے تو وہ یہ ہے کہ اس سے ایک علماء کانفرنس کے انعقاد کی جانب پیشرفت ہوئی جو پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر مارچ میں کابل میں منعقد کرنا چاہتے ہیں تاہم یہ کانفرنس مفاہمتی عمل میں کتنی مددگار ہوگی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
لندن کے اجلاس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مذاکرات کی میز تک پہنچنے کاراستہ بہت دشوار ہے موجودہ تعطل اور واشنگٹن اور طالبان قیادت کو جو فیصلے ابھی کرنے ہیں ان کے پیش نظر مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کاامکان اس ضمن میں متعلقہ فریقوں کی جانب سے ظاہر کی جانے والی امیدوں کے برعکس بہت دور از کار نظر آرہاہے۔
تازہ ترین