ڈرگ مافیا ان دنوں آزادانہ طور سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ اداروں نے اس جانب سے مکمل طور سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ پولیس کے علاوہ کسٹم، ایکسائز ، اینٹی نارکو ٹکس فورس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یا ان کی مبینہ طور پر ملی بھگت سے ہماری نوجوان نسل کو کینسر زدہ کرکے موت کی وادی میں اتارنے کا عمل جاری ہے ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے راستے آنے والا بھارتی گٹکا، مین پوری اور دیگر مضر صحت بلکہ کینسر پیدا کرنے والی اشیاء، کیمیکل کے ٹرالرمیں لوڈ کرکے، کراچی، حیدرآباد، سکھر ،نواب شاہ اور پھر نواب شاہ سے تھر کے علاقے میں پہنچا کر مذکورہ زہر اندرون سندھ منتقل کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں حیران کن بات یہ ہے کہ راستے میں درجنوں چیک پوسٹوں کی موجودگی اوران پر سیکڑوں اہلکار وںکی ڈیوٹی کے باوجود افغانستان سے چمن ، کوئٹہ اور سکھر آنے والے موت کے سوداگروں کے یہ ٹرالر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹوں سے باآسانی گزر کراپنے مقررہ ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔ منشیات او ر ضرر رساں اشیاء کی نقل و حمل میں انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا ہے۔ چند روز قبل نواب شاہ پولیس کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس مذموم کاروبار کو دیگر علاقوں میں فروغ دینے کے لیے بڑے ٹرالرز کے بعد چھوٹی گاڑیاں جن میں کاریں اور کوچز شامل ہیں ، ان کے ذریعے منشیات سپلائی کی جارہی ہے۔ دوسری جانب حکومت اور انتظامیہ بھی اپنی رٹ دکھانے کے لیے نمائشی اقدامات کررہی ہے ۔ محض کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لئے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں، ان چھاپوں پر پولیس پارٹیوں کو شاباش بھی مل رہی ہے، انعام و اکرام سے بھی نوازا جارہا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ ، فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے ، پولیس کی جعلی کارروائیوں کی خوب تشہیر کی جارہی ہے ۔لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پان کے ہر کیبن ،کریانہ و جنرل اسٹورز حتی کہ میڈیکل اسٹوروں پر بھی اس زہر کی فروخت کھلے عام جاری ہے ۔
روزنامہ جنگ کے سروے کے مطابق سکرنڈ روڈ پر واقع کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے قائم ایک مقامی اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے مریضوں میں سب سے بڑی تعداد منہ اور چھاتی کے کیسز کی آرہی ہے جن میں نوجوان مریضوں کی تعداد زیادہ ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پان ،مین پوری،گٹکےکے استعمال سے منہ اور چھاتی کا کینسر پھیل رہا ہے جبکہ مین پوری سے منہ بند ہوجاتا ہے اور منہ سے شروع ہونے والا سرطان چھاتی میں پھیل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں صورتحال یہ ہے کہ پولیس کے دعووں کے برعکس ، اسپتال ہو ںکہ پبلک پارکس ،مارکیٹیں ہوں کہ شاہراہیں حتی کہ مساجدکے وضٗو خانے تک میں گٹکے کی بوسے وضو کرنے آنے والوں کو ذہنی اذیتوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس اسٹیشنوں کے سامنے پان کے کیبن اور دوکانوں پر اس کی فروخت کھلے عام جاری ہے۔تاہم ہفتہ دس دن کے بعد پولیس کی جانب سے گٹکا، مین پوری کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے ، جس کے دوران گٹکے کے ایک آدھ کارٹن کی برآمدگی اور ایک دو ملزمان کی تصاویر پریس کو بھجوا کر اور فیس بک اور واٹس ایپ پر خوب تشہر کرکے خانہ پری کردی جاتی ہے ۔
ادھر منشیات کے سلسلے میں بھی صورتحال کچھ اس طرح کی سامنے آرہی ہے کہ درہ آدم خیل اور دیگر قبائلی علاقوں سے آنے والی منشیات بھی ٹرکوں ، بسوں اور مسافر گاڑیوں کے ذریعے کراچی لائی جاتی ہے ، وہاں سے سندھ کےتمام اندرونی شہروں و دیہی علاقوں میں سپلائی کی جاتی ہے۔ اس بارے میں پولیس ،ایکسائزاور اے این ایف کے دعوے اپنی جگہ لیکن منشیات استعمال کرنے والوں کو پرانے نرخوں میں آج بھی یہ زہر کھلے عام فراہم کیا جارہا ہے۔ماضی میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے اس امر کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ دس بیس من چرس ،پانچ دس کلو افیون اور کلو دو کلو ہیروئن ٹرک سے برآمد کرکے اہتمام کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کی جاتی اور ایک آدھ ملزم بھی لائے جاتے اور وہ منشیات فروشی کی کہانی بیان کرتے۔ اس موقع پر یہ بھی اہتمام ہوتا کہ اس منشیات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت کروڑوں کی بتائی جاتی۔ اس طرح کی ایک کارروائی کے موقع پر سوسائٹی میں واقع محکمہ ایکسائز کے آٖفس میں جب برآمد شدہ چرس کی مالیت بین الاقوامی مارکیٹ میں کروڑوں روپے کی بتائی گئی تو محکمہ کے کارپردازوں سے میڈیا کے نمائندوں نے سوال کیا کہ وہ کو ن سی بین الاقوامی مارکیٹ ہے جہاں سے آپ کو اس کے نرخ پتہ چلتے ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ اس واقعہ کو ایک سال کا عرصہ گزرگیا اس کے بعد پھر کوئی محکمہ کی جانب سے کاروائی سامنے نہیں لائی گئی جبکہ اس سلسلے میں پولیس یہ توضیح پیش کرتی ہے کہ منشیات کی ترسیل منظم انداز میں مافیا کرتی ہے اور اس کو روکنے کے لئے ہر ضلع کی پولیس متحرک ہے تاہم معاشرے کا درد رکھنے والے ہر باشعور فرد کو اس جہاد میں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ زہر اب ہمارے گھروں میں پہنچ کر ہمارے پھول جیسے بچوں کو موت کی وادی میں پہنچانے میں کردار ادا کررہا ہے ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری یونی ورسٹیاں اور کالجز بھی اس عفریت کی ز د میں ہیں، تاہم قابل اطمینان بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی اور دینی طبقے نے اس کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ہے اور کررہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مختلف اوقات میں منشیات ، گٹکا اورمین پوری کے خلاف واک اور سیمینار زکے ذریعے لوگوں کو آگہی فراہم جاری ہے تاہم یہ زہر اب سرحد کی لکیروں کا محتاج نہیں رہا۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاست بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادوجب لاہور کے دورے پر آئے توایک تقریب میں ان کی جانب سے پان کی فرمائش کی گئی جس پر انہیں بھارتی گٹکا پیش کیا گیا تھا تو انہوں نےحیران ہوکر کہا تھا کہ ارے یہ ہندوستان میں کینسر پھیلانے کے بعد پاکستان میں بھی پہنچ گیا کیا ؟ لہذا ضروری ہے کہ وفاقی و صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کریں کہ جس طرح چرس، افیون اورہیروئن جیسے نشہ آور اشیاء پر منشیات ایکٹ کے تحت پولیس کیس بنتا ہے اسی طرح گٹکا ،مین پوری اور پان کی فروخت پر بھی کارروائی اگر ہوئی تو ہماری نسل محفوظ رہ سکے گی ۔