• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سفر میں جہاں زحمتیں ہوتی ہیں وہاں کچھ لطافتیں بھی ہوتی ہیں۔ اکٹھے سفر کرنے والے مسافر اگرچہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوتے ہیں لیکن آپس میں باتیں چھڑ جائیں اور اندر کے بھید کھلنے لگیں تو مزے مزے کی کہانیاں کبھی حیران کرتی ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بن جاتی ہیں۔ میں لندن سے دلّی جانے کے لئے جرمن فضائی کمپنی کے طیارے میں سفر کررہا تھا اور جرمن شہر میونخ میں طیارہ بدلنا تھا۔ وہاں سارے ہی مسافر اگلی اڑان کا انتظار کررہے تھے۔ میرے دائیں بائیں دو امریکی خواتین بیٹھی تھیں۔ ایک جو ذرا معمر تھیں بتانے لگیں کہ وہ حیدرآباد دکن جارہی ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا تم وہاں کی شاندار عمارتوں میں اسلامی ثقافت دیکھنے جارہی ہو؟ کہنے لگیں کہ نہیں، وہاں کسی دیوتا کی بہت بڑی مورتی ہے، وہ دیکھنے جارہی ہوں۔ مجھے اچانک الہ آباد میں ہنومان جی کی بہت ہی بڑی مورتی یاد آئی جو اتنی بڑی تھی کہ وہ بیٹھی یا کھڑی نہیں بلکہ لیٹی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی یاد آیا کہ میرے ساتھ میرے سائیکل رکشا والا بھی مندر کے اندر چلا آیا تھا جسے بڑی حقارت کے ساتھ نکال دیا گیا تھا کیونکہ وہ نیچی ذات کا انسان تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ سفید فام امریکی خاتون جب دکن کے مندر میں داخل ہوںگی تو ان کا کیا حشر ہوگا۔ پھر میں یہ سوچ کر چپ ہورہا کہ مجھے کیا۔

دوسری امریکی خاتون کی کہانی کی تفصیل نہ جان سکا ورنہ وہ بھی مزے کی ہوتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم ہندوستان کیوں جارہی ہو۔ ان کا دو لفظوں میں جواب تھا: شادی کرنے۔ ہم رہے مشرقی تہذیب کے مارے ہوئے لوگ۔ ایک خاتون سے کچھ اور پوچھتے ہوئے حیا آئی۔ تفصیل نہ جاننے کا آج تک قلق ہے ورنہ اتنا تو پوچھ سکتے تھے کہ دُولہا کون ہوگا لیکن اس طرح کی اخباری اطلاعات کے حساب سے ان کی انٹرنیٹ پر دوستی ہوئی ہوگی، پھر اس دوستی نے زور مارا ہوگا اور وہ منڈپ سجانے کے خواب دیکھتی ہوئی سوئے گنگ و جمن نکل کھڑی ہوئی ہو گی۔ اس بار بھی میں وہی پہلے والی بات سوچ کر چپ ہورہا کہ مجھے کیا؟

اب ایک اور مسافر کا احوال۔ انسان کے سوچنے کے انداز بھی خوب ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھا تو جی چاہا ادب سے اٹھ کھڑا ہوں۔ بالکل یوں لگا جیسے سامنے سے رابندر ناتھ ٹیگور چلے آرہے ہیں۔ ویسا ہی حلیہ، ویسی ہی داڑھی، ویسی ہی وضع قطع۔ جی چاہا آگے بڑھ کر ہاتھ ملاؤں مگر پھر اچانک ان کے ماتھے پر سیندور جیسی کسی چیز کی بہت بڑی بندی دیکھ کر رُک گیا۔ یہ بزرگ تو سیدھے کسی مندر سے نکل کر آرہے تھے، یہ ٹیگور نہیں ہو سکتے۔ ٹیگور کے بارے میں یہی سنتے آرہے ہیں کہ ا ن کی رگوں میں مسلمان خون دوڑ رہا تھا۔ وہ شاید حسینی برہمن تھے یا کیا تھے۔ وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں۔ اپنی مشہور عالم کتب گیتا نجلی میں ٹیگور نے خالق کو کئی جگہ باپ لکھا ہے، یہ بات کوئی غیر ہندو ہی لکھ سکتا ہے۔ اسی ذہنی ادھیڑ بُن میں پرواز کا اعلان ہو گیا۔ لوگ دوڑ کر لمبی سی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ میں جب تک اٹھ کر لائن میں لگتا، زیادہ چست مسافر مجھ سے آگے کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ایئر لائن کے ایک اہل کار نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے جاکر سب سے آگے کھڑا کردیا۔ مجھے نہیں پتا مجھ کو یہ رعایت کیوں دی گئی۔ یہ شاید میرے سفید بالوں کا چمتکار تھا۔ معمر شہریوں یا سینئر سٹیزن کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے، اس سفر میں مجھے ہمیشہ سے زیادہ احساس ہوا۔اس کے بعد وہ اذیت ناک نو گھنٹے شروع ہوئے جن کا کاٹنا کتنا محال ہوتا ہے، میں ہی جانتا ہوں۔ جرمنی سے ہندوستان تک کا سفر پورے نو گھنٹے میں پورا ہوتا ہے۔ لوگ لمبی تان کر سو جاتے ہیں، چند ایک کتاب پڑھتے ہیں، کچھ میری طرح بیٹھے خلا میں گھورا کرتے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ طویل سفر میں مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ پاکستان کا طیارہ ہوتا تو دو چار جان پہچان والے مل جاتے اور یہ آٹھ نو گھنٹے آسانی سے گزر جاتے مگر یہاں تو سب اجنبی تھے۔ خدا خدا کر کے طیارے کی رفتار دھیمی ہونے لگی یعنی دلّی اب دور نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہوائی اڈے پر خدا جانے کون مجھے لینے آئے گا۔ سنا تھا کہ یہاں مسلمانوں کو خوار کرتے ہیں اور اکثر مسلمان اپنے حلیے سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہی ہوا۔ ہوائی اڈے پر دو نوجوان مجھے لینے آئے تھے، حلیے کی بات جانے دیجئے، وہ تو سرتاپا اسلام کا مرقع نظر آتے تھے، ان کے خالص ایرانی طرز کے سفید لباس سے وہ خود ہی نہیں، آس پاس کا ماحول تک دین کے رنگ میں رنگا نہیں، ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے تعارف ہوتے ہی پہلی بات یہ کہی کہ آج کل کے ماحول میں آپ کو یہ لباس نہ پہننا چاہئے تھا اور اس وقت مجھے حیرت ہوئی جب دونوں نوجوانوں نے میری بات سنی ان سنی کردی، یوں جیسے انہیں یقین ہو کہ کوئی ہے جو ان کی حفاظت کررہا ہے۔

یہاں جو بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ حضرت علیؓ کی شہادت کے ایک ہزار چار سو برس پورے ہونے پر تاریخی شہر دلّی میں ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی جس میں دنیا بھر کے جید علما شریک تھے، اُن ہی کی صف میں مجھے بھی جگہ ملی، بڑا شرف تھا میرا۔ جدید دلّی کی سڑکوں پر مون سون کی بارشوں کے بعد سبزہ پھٹا پڑتا تھا۔ اندھیرے ہی میں سہی، دنیا بھر کے سفارت خانوں کی شان دار عمارتیں دیکھتے ہوئے ہم ایک اتنی ہی شاندار عمارت میں داخل ہوئے۔ یہ انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر تھا، اسلامی مرکز ثقافت۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ مرکز وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے ہاتھوں قائم ہوا اور ان کی بہو سونیا گاندھی اس کی چیئر پرسن رہیں۔

اس روز وہاں کا منظر یہ تھا کہ جمعے کی نماز کے لئے قالین بچھا دئیے گئے تھے اور شام کو ہندو موسیقی کا پروگرام طے تھا۔ یہ مرکز سب کے لئے کھلا تھا۔ یہ تھی اس سیکولر ہندوستان کی ادا جو خواب سی ہوئی جاتی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین