• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن…آصف ڈار
کشمیری رہنما افضل گرو کو ’’دہشت گردی‘‘ کے ثبوت نہ ہونے کے باوجود سزائے موت دینے اور خود اس سزا پر افسوس کا اظہار کرنے والی بھارتی سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر مظلوم کشمیریوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کئے جانے کے حوالے سے گول مول فیصلہ دے کر خود کو RSSکے غنڈوں کے غیض و غضب سے بچالیا ہے۔ مگر افضل گرو کے فیصلے کی طرح سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی تاریخ میں بدترین فیصلہ قرار دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں 5ہفتوں سے زیادہ کے کرفیو، گرفتاریوں، قتل و غارت گری اور عزتوں کی پامالیوں کی مذمت کی بلکہ حکومت سے محض یہ ’’درخواست‘‘ کردی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کو معمول پر لے آئے، اس پر ستم یہ کہ حالات کو معمول پر لانے کے لئے کوئی ڈیڈ لائن بھی نہیں دی گئی۔ یعنی جس طرح کا فیصلہ ہندو انتہاپسند چاہتے تھے، ویسا ہی سپریم کورٹ نے دیا۔ ہوسکتا ہے کہ جج صاحبان کو یہ ڈر تھا کہ انہوں نے اگر انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ کیا تو کہیں RSSکے غنڈے بابری مسجد کی طرح سپریم کورٹ کی بھی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دیں، پولیس تو ان غنڈوں کے ساتھ ہوگی، تو پھر انہیں (ججز) تحفظ کون دے گا؟ سپریم کورٹ کی اس رولنگ کی روشنی میں بھارتی حکومت نے بھی اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آرہے ہیں! مگر آزاد ذرائع اور میڈیا کی رپورٹس اس کے برعکس ہیں، دوسری طرف پاکستان کے میڈیا میں بھی اس مسئلے کے حوالے سے پائی جانے والی گرمجوشی میں اب کمی آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کشمیر کی ہیڈلائنز کی جگہ سعودی عرب کی آئل ریفائنری پر حملے اور اس سے پیدا ہونے والی جنگ کی صورتحال نے لے لی ہے۔ باقی خبروں میں قصور کے معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ہلاکتوں اور اسی طرح کے دوسرے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ رہی سہی کسر ڈینگی نے پوری کردی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی میں خطاب کی تاریخ آتے آتے یہ مسئلہ کافی حد تک ٹھنڈا پڑجائے گا۔ اگر خدانخواستہ امریکہ بہادر نے سعودی عرب پر حملے کا بہانہ بنا کر ایران پر جنگ مسلط کردی تو پھر مسئلہ کشمیر مزید پیچھے جاسکتا ہےیا کم از کم عالمی سطح کی خبروں سے دور ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت سارے ’’بڑے‘‘ سعودی عرب کی ایک آئل ریفائنری پر ہونے والے حملے کے خلاف اور سعودی عرب کے ’’حق‘‘ میں سامنے آگئے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب کا کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا ہے کہ وہ اس کو برداشت بھی نہ کرسکے۔ خطے کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ایران کے حوالے سے امریکہ کے ہاتھوں میں جنگ کی کھجلی ہورہی ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے اس پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اب وہ سعودی عرب پر حملے کو جواز بنا کر ایران پر اٹھنے والے اپنے جنگی اخراجات بھی سعودی عرب سے وصول کرنے کا خواہاں ہے۔ اس عالمی چپقلش کی بازگشت جنرل اسمبلی میں بھی حاوی ہوگی اور وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے دوران یقیناً مسئلہ کشمیر کا زیادہ ذکر ہوگا تاہم وہ خود بھی سعودی عرب پر ہونے والے حملے کا ذکر بھی کریں گے اور اس کی مذمت بھی کریں گے بلکہ پاکستانی میڈیا میں اس خطاب کی ہیڈلائنز بھی بنیں گی مگر اس وقت تک بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنےپنجے مزید مضبوط کرچکی ہوگی۔ پاکستانیوں اور شاید کشمیریوں نے بھی ساری امیدیں عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے ساتھ وابستہ کرلی ہیں مگر عمران خان بھی جنرل اسمبلی میں کونسی ایسی نئی بات کریں گے کہ جو انہوں نے ان کی حکومت اور وزیرخارجہ یا سرکاری ترجمان نے پہلے نہ کی ہو؟ اور پھر خود عمران خان کی توجہ بھی ملک کے اقتصادی مسائل پنجاب میں گورننس کے مسائل اور اپوزیشن کو ’’سبق‘‘سکھانے کی دھن میں کافی حد تک بٹی ہوئی ہے؟ ان سے عالمی سطح پر یہ سوالات تو ضرور ہوتے ہوں گے کہ اگر بھارت ’’وہ سب‘‘ کررہا ہے تو پاکستانی حکومت اپوزیشن کے ساتھ کیا کررہی ہے؟ دو سابق وزراء اعظم ایک سابق صدر، سابق اپوزیشن لیڈر اور تقریباً تمام نمایاں لیڈر جیلوں میں ہیں اور جو باہر ہیں ان کو بھی ہر وقت گرفتاری کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ محترم عمران خان صاحب نے شاید ایک مرتبہ بھی اپوزیشن لیڈروں سے بذات خود یہ نہیں کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ان کے ساتھ ہیں؟ یہ درست ہے کہ اپوزیشن اور حکومت مسئلہ کشمیر پر ایک ہی موقف رکھتی ہے مگر اس کا عملی ثبوت بھی ملنا چاہئے اور یہ کام ہرحال حکومت ہی کرسکتی ہے اور اس کےلئے عمران خان کو کنٹینر سے اتر کر سوچنا ہوگا!
تازہ ترین