• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

وطنیت شاد رنگوں سے رنگا شمارہ

موجودہ شمارہ آزادیٔ پاکستان کےرنگوں سے رنگا ’’وطنیت شاد ایڈیشن‘‘ ثابت ہوا۔ کچھ تحریرات ’’تحریک آزایٔ پاکستان ‘‘ سے متعلق ہیں، تو سرسبز ورق پر ’’مستقبل کے معمار‘‘ آزادی کی جھنڈیاں لہراتے پائے گئے۔ نوجوانوں کے پُرعزم چہروں اور اُمیدوں کےجگنوؤں سی روشن آنکھوں کو، مرکزی صفحات پر ایڈیٹرصاحبہ نے موضوعِ تحریر بناتے ہوئے رائٹ اپ بھی بہت عُمدہ لکھا۔ اس پائےکی نثر، ’’دبستانِ دلّی‘‘ کی آخری شمع کی بھڑکتی لَو یا ’’دبستانِ لکھنؤ‘‘ کی صحبتِ برہم سے کچھ عرصہ پہلے تلاشی جاتی تھی۔ جب شمع بُجھی، صحبت برہم ہوئی تو، اب کہاں ایسی اردو اور اردو دان طبقہ؟ ایک ہجوم ہے، جو ’’بولی سے گزارہ‘‘ کیےجاتا ہے۔ قارئینِ میگزین کے دین و دنیا کے سدھار کا ذمّہ محمود میاں نجمی کے سر ہے۔ اس ہفتے ان کی تحریر ایک ایسے نبیؑ سے متعلق تھی، جن پر بہت کم لکھا گیا۔ نجمی صاحب نے حضرت ’’حزقی ایل‘‘ (حزقیل= شانِ الہٰی، قدرت اللہ) کے بارے میں لکھا، ساتھ، قرآن و حدیث کے علاوہ تفاسیرِ قرآن کےحوالےبھی شامل کیے، سبحان اللہ۔ فاروق اقدس کی معصومانہ پردہ پوشی پربھی ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کو جی چاہا، جنہوں نےکس مزے سے پانچ سطری سُرخیاں جمائیں۔ ’’وزیر اعظم کا دورہ ٔامریکا، یقین دہانیاں، وعدے عملی شکل اختیار کریں گے؟‘‘ جب کہ اُن ہی کے مضمون کی آخری سُرخی، اِسی سوال کا مستند جواب بھی تھی کہ ’’اصل اہمیت فوجی قیادت سے ملاقاتوں کی ہے‘‘۔ گل اِی مُک گئی جے۔ ماں کی ممتا کی دائمی اہمیت و افادیت ڈاکٹر عذرا رفیق اور ڈاکٹر غلام صدیق نے ’’ماں کا دودھ… سفید خون‘‘ کےعنوان سےلکھی تحریروں کےذریعے بتائی۔ دونوں مضامین میں شِیر خواران کے متعدد طبّی مسائل کا واحد علاج ’’شِیرِ مادر‘‘ تجویز کیا گیا۔ قلبی تسکین تو مسلمانان عالم کی حج بیت اللہ کی عبادتوں، ریاضتوں کے دوران ہوتی ہے۔ ان ہی روحانی جذبات وکیفیات کابھرپور اظہار محمدانور شیخ نے ’’فریضۂ حج، فلسفہ ٔحیاتِ مسلم‘‘ جیسے بہترین مضمون میں کیا۔ تصاویر بھی عُمدہ اور جاذبِ نظر تھیں۔ ’’عبداللہ‘‘ کی کہانی جاری و ساری ہے اور مصنّف ہر لحاظ سے پلاٹ اور کہانی کے کرداروں پر گرفت رکھے ہوئے ہے۔ سنّتِ ابراہیمیؑ کی ادائیگی کو، گھر کا بجٹ متوازن رکھتے ہوئے، کیسےممکن بنایا جائے، اس حقیقت کا اظہار، ایک دل کش کہانی میں کیا گیا۔ بڑے عرصے بعد ایسی جان دار طبع زاد کہانی پڑھی۔ دوسری ’’آموزشی‘‘ تحریر پیرزادہ شریف الحسن عثمانی کی تھی۔ یوں اِک ’’ہرابھرا ایڈیشن‘‘ تمام ہوا۔ باتیں ہزاروں، لاکھوں ہوتی ہیں، بس کہنے والے بدلتے رہتے ہیں۔ ہم نہ ہوں، کوئی ہم جیسا ہوگا۔ لیکن علم و ادب سے محبّت اور تحریر کی قدر دانی کی جس شمع ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘ کو آپ نےسنڈے میگزین میں روشن کیا ہے۔ اُسے تاقیامت کوئی ’’بادِ مخالف‘‘ بُجھا نہیں سکتی۔ ان شاء اللہ! (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)

ج:فیض نے کہا تھا؎ ’’نہ گنوائو ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا…جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لٹا دیا…مِرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو… جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکادیا… جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے… رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا۔‘‘ تو بھئی، ہم نے تو جو حق تھا، وہ ادا کرنے کی بھر پور سعی کی، لیکن ’’بادِ مخالف‘‘ (بادِ سموم، ’’تبدیلی‘‘ کی ہوا) تو چل ہی پڑی ہے۔ کئی دِیے بجھاچُکی، تو کچھ بس چراغِ نیم شب ہیں، جن کی لوَ کبھی کبھی بھڑکتی تو ہے، پر کب دغا دے جائے، کہہ نہیں سکتے۔

زبان پر نہیں چڑھ رہا

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل حنائی ہاتھ کی خوشبو لیے ایک آنکھ سے تَک رہی تھی۔ اشاعتِ خصوصی میں محمود میاں نجمی نے حجِ بیت اللہ کی خصوصی تیاری سے متعلق صائب مشورے دیئے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں رئوف ظفر نے ریاضی دان، نور محمد اعوان سے فکر انگیز گفتگو کی۔ یہ انکشاف مغموم کرگیا کہ مغرب ہمیں، ہمارے ہی بزرگوں کےعلمی وَرثے سے محروم کررہا ہے۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت نے خواتین کے ایک اہم مسئلے کی عُمدہ نشان دہی کی۔ اربابِ اختیار کو اس پر فوری توجّہ دینی چاہیے۔ ’’اسٹائل‘‘ پرچارماڈلز براجمان دیکھ مسّرت آمیز حیرت ہوئی۔ ویسے منہدی اور معشوق کے تعلق کو آپ نے بھی بڑے گلیمرس انداز میں بیان کیا۔ ہم تو اشعار کی نفاست و جاذبیت ہی میں کھو کے رہ گئے۔ (ایک بات ہے، آپ کا یہ ’’منہدی‘‘ تو کسی طور زبان پرچڑھ ہی نہیں رہا۔ رہ رہ کے ’’مہندی‘‘ ہی کے دورے پڑ رہے ہیں) ’’کہی اَن کہی‘‘ میں خوب رُو اداکارہ اپنے دل کی باتیں اختر علی اختر سے شیئر کر رہی تھیں، بہت خُوب بھئی۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ میں ہاشم ندیم کے متاثر کن انداز کا جواب نہیں۔ یہ بس اُن ہی کا خاصّہ ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے ہیپاٹائٹس سے متعلق فکرانگیز مضمون قلم بند کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رضیہ جوہر، فرحی نعیم، فائزہ جہاں اور منیزہ اظہر کی تحریریں بہترین تھیں۔ اور اب آخری اسٹیشن ’’ہمارا صفحہ‘‘ کی بات، اس بار اعزاز اسماء خان دمڑی کے حصّے میں آیا۔ حیرت کا جھٹکا لگا کہ خط پوسٹ کرنے پر 80 روپے کا خرچہ۔ بھئی، اس منہگائی کے سیلاب کے آگے آخر کون بند باندھے گا۔ ملک رضوان نے پچھلے شمارے میں محمد حسین ناز کے بارے میں پوچھا تھا، تو ایک دوست سے پتا چلا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: لفظ ’’منہدی‘‘ کی ادائیگی، تلفّظ اُسی طرح رہے گا، جیسا آپ برسوں سے سُنتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے تو صرف اس کی اِملا درست کی ہے۔ آپ ناحق زبان کو دوروں، جھٹکوں کے عذاب میں مبتلا نہ کریں۔

ہیٹ ٹرک ہوجائے گی.....؟؟

آج خلافِ توقع طبیعت 2 شماروں پر تبصرے کے لیے مچل اٹھی۔ تو سوچا، چلو یوں ہی سہی۔ اَن گنت اوصاف سمیٹے شمارئہ اوّل پیشِ نظر ہوا۔ منہدی والے ہاتھوں سے سجا سرِورق اپنی مثال آپ تھا۔ واقعی، ’’کیا شوخ ہے رنگ اس حِنا کا.....‘‘ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ پر پہنچے تو کالم نمبر 4 کی سطریں پِن صاحبہ نے قید کر رکھی تھیں۔ میگزین پِن کرنے والوں سے عاجزانہ التماس ہے کہ ہم قارئین کا بھی کچھ خیال کرلیا کریں کہ ہم جریدہ پڑھنے کے لیےخریدتے ہیں، محض صفحات پلٹنے کے لیے نہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں معروف ریاضی دان، ڈاکٹر نور محمد اعوان سےتفصیلی گفتگو پُرمغز رہی۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت نے ملازمت پیشہ خواتین کی نذر ایک بہترین مضمون کیا۔ اُن کے موضوعات ہمیشہ ہی لاجواب ہوتے ہیں۔ ’’اسٹائلشی صفحات‘‘ میں منہدی کے شوخ رنگ پر سُریلی شاعری سے مزّین مدیرہ کی تحریر حُسن بکھیر رہی تھی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں کم عُمر، سنجیدہ اداکارہ رمشا خان کی باتیں دل چسپ لگیں۔ ناول کی تیسری قسط بہت سُندر، لاجواب تھی، ہاشم ندیم کا طرزِ تحریر باکمال ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں امّ حبیبہ نور نے اُردو کی درگت بنانے کی کوشش تو بہت کی، مگر آپ کی ایڈیٹنگ قینچی نے ایک نہ چلنے دی۔ اگلے شمارے کی مدح سرائی ہی کروں گا کہ آغاز ہی جشنِ آزادی کے رنگوں سے ہوا۔ ’’سرورِ جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو.....‘‘ سے آراستہ و پیراستہ سرِورق دلآویز تھا۔ اشاعتِ خصوصی میں فاروق اقدس نے عمران خان کے دورئہ امریکا پر احسن قلم کشائی کی۔ سرچشمہ ہدایت میں محمود میاں نجمی نے حضرت حزقیل علیہ السلام سے نہایت عُمدگی سے روشناس کروایا۔ ہم نے تو حضرت حزقیل علیہ السلام کا نام پہلی مرتبہ اسی میگزین کے توسّط سےجانا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر شاعری کی کھنک لیے آپ کی دل کش تحریر جاں فزاں رہی۔ بڑی بات ہے، مسلسل دو شماروں میں آپ کا رائٹ اپ۔ یقیناً ہیٹ ٹرک ہو ہی جائے گی کہ اگلا شمارہ عیدالاضحیٰ کا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پاک، امریکا تعلقات کے گرد گھومتے رہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پیرزادہ شریف الحسن نےسوہنی دھرتی پاکستان سے محبت کے جذبے کو الفاظ کی صُورت بہ خوبی بیان کیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سلیم راجا نے شیروانی سے ڈرکاتذکرہ کیا، تو آپ نے وزیراعظم والی شیروانی کا ذکر کرکے دل کی بات کردی۔ بہ خدا یہ حلف والی شیروانی تو وبالِ جان ہی بن گئی ہے۔ (ملک محمد رضوان، محلّہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج: ’’ہیٹ ٹرک ہوجائے گی.....؟؟‘‘ اور ہیٹ ٹرک ہوگئی۔ مطلب آپ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اسی لیے اب ہم نے کچھ بریک بھی لیا ہے۔

تنقید کا نشانہ

شیروانی کی آڑ میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ مت بنایا کریں۔ آپ ہمیشہ پرویز مشرف اور عمران خان ہی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ ارے بھئی، کبھی نواز شریف پر بھی نظرِ کرم فرما لیا کریں، وہ بھی پاکستان کی تباہی کے ذمّے دار ہیں۔ عمران خان کو ابھی وقت دینا چاہیے۔ ابھی تو ان کی حکومت کو صرف ایک سال ہوا ہے اور پورا میڈیا ان پر راشن، پانی لے کرچڑھ دوڑا ہے۔ ارے بھئی، حسن نثار اور منصور آفاق بھی تو ہیں، جو عمران خان کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر عمران خان اتنے ہی بُرے ہیں، تو آپ لوگ جنگ اخبار میں حسن نثار اور منصور آفاق کے کالمز کیوں شایع کرتے ہیں۔ اور ہاں، میگزین میں کچھ ایسا خاص نہیں تھا کہ جس پر بات کی جائے۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: نواز شریف پر تو کس کس کی نظر کرم نہیں۔ پوری حکومتی مشینری بغیر راشن، پانی ہی اُن پر اور اُن کےساتھ سب اہل خانہ اور حواریوں پر بھی حملہ آور ہے، ایسے میں ہم کیا انہیں تنقید کا نشانہ بنائیں۔ رہی بات عمران خان کی، تو بھائی نہ ہم ان کو لانے والے، نہ ہم ان کو واپس بھیجنے کی کوئی سازش کر رہے ہیں۔ ہمارا رونا تو صرف یہ ہے کہ ایک سال میں جو مُلک کا حال ہو گیا ہے، اگر صورتِ حال یہی رہی، تو پانچ سال میں تو خدانخواستہ … اور ہم تو ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ ’’جنگ‘‘ کی پالیسی بہت متوازن ہے۔ صحیح معنوں میں جمہوریت یہیں دیکھی ہے۔ آپ کو یہاں سلیم صافی، حامد میر، عطا الحق قاسمی، بلال غوری جیسا فلیور ملے گا، تو حسن نثار اور منصور آفاق جیسا بھی۔

چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش

اس بار بھی حسبِ روایت دو ہی شماروں پر تبصرہ حاضر ہے۔ ٹرمپ کا بے لچک روّیہ اور اسیران کے جوہری عزائم خطرناک جنگ کا اشارہ دے رہے ہیں، تو دوسری طرف بھارت نے بھی سرحدی خلاف ورزیاں شروع کردی ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت’’ میں حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام پر مضامین پڑھ کر ایمان تازہ کیا۔ کافی انتظار کے بعد ہاشم ندیم کے سُپرہٹ ناول عبداللہ سیزن تھری کی پہلی دو اقساط پڑھیں۔ واللہ، مزہ ہی آگیا۔ نہ جانے ہاشم بھائی کے قلم میں کیا جادو ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو جیسے جکڑلیتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر ضیاء القیوم اور ستّر سے زیادہ تراجم اور تفاسیر کے نصاب کے موجد، مبلّغ شجاع الدین شیخ سے گفتگو معلوماتی تھی۔ پہلے شمارے کے’’اسٹائل‘‘میں سن گلاسز اوردوسرےمیں پھولوں کی مہکارخوب رہی۔’’کہی اَن کہی‘‘ میں باصلاحیت فن کارہ رباب ہاشم سے اختر علی اختر کی باتیں بہت مزہ دے گئیں۔ عمران، ٹرمپ کی ملاقات، جی ہاں! افغانستان ہی اس ملاقات کا محور تھا۔ اللہ کرے کشمیریوں کو اُن کا حق ملے اور مقبوضہ کشمیر بھی آزاد کشمیر میں شامل ہوجائے، آمین۔ پہلے شمارے میں ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ ’’میں ناچیز کا پیغام تھا اور دوسرے شمارے میں خط۔ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے نوازتی رہا کریں کہ ہم ان خوشیوں ہی سے بہت خوش ہو لیتے ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:جی ہاں، جب تک موجودہ حکومت براجمان ہے، ایسی ہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں ’’لائٹ آگئی‘‘ پانی آرہا ہے‘‘ ’’گیس آرہی ہے‘‘ ’’پیٹرول ایک روپیا سستا ہوگیا‘‘ پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ بڑی بڑی خوشیوں کی تو کچھ خاص توقع ہے نہیں۔ اور یہ آپ کا بازار کیسے تبدیل ہوگیا، ڈھاباں بازار سے نادر شاہ بازار……؟؟

کنفیوژن کا شکار

قارئین سن ڈے میگزین کو میرا آداب۔ میں مدیرہ صاحبہ کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ میں نے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کےلیےجو پیغامات ارسال کیے، وہ شایع کردیئے گئے۔ اس طرح کم ازکم مجھے اپنے 80روپے کے زیاں کا تو دُکھ نہیں ہوا۔ ویسے آپ نے ہمیشہ ہی میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگر سچ کہوں تو آج جو چند جملے لکھ پاتا ہوں، وہ آپ ہی کی بدولت ہیں۔ سنڈے میگزین کے اوپر تلے کے دونوں ہی شمارے لاجواب تھے۔ پڑھ کر طبیعت فریش ہوگئی۔ محمود میاں نجمی کو اللہ پاک جزائے خیر دے۔ وہ بہت ہی اعلیٰ کام کررہے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بلاشبہ ہدایت کا ایک بہتا ہوا چشمہ ہی ہے۔ آج مجھے آپ سے ایک معذرت بھی کرنی ہے۔ میں نے ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں کبھی، اسلم قریشی، تو کبھی اسلم پرویز قریشی اور کبھی اسلم قریشی، ملیر، کراچی کے نام سے خط لکھے، جس سے آپ تھوڑا کنفیوژ ہوگئیں، لیکن اب میرا وعدہ ہے کہ آئندہ میں ’’اسلم قریشی، ملیر، کراچی‘‘ ہی کے نام سے خط لکھا کروں گا۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج: ہمارے کنفیوژن کی تو خیر ہے ۔ قارئین کو لگتا ہے کہ شاید ہم خطوط نگاروں کا نام، پتا درست طور پر شایع نہیں کرتے۔ اب انہیں کون بتائے کہ یہاں خطوط نگار ہی ایسے علاّمہ ہیں کہ اپنے ہی نام کو آگے، پیچھے، اوپر نیچے کر کر کے پتا نہیں اپنی کس مہارت کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور آپ کو کیا پروفیسر مجیب کے سایہ ٔ عاطفت میں جگہ مل گئی ہے کہ اس بار خط کے ساتھ ایک 20 صفحاتی ’’مَیں نامہ‘‘ بھی ارسال کردیا۔ آپ جیسے لوگوں کے لیے ایک صلاح ہے کہ آپ آٹو بائیوگرافی لکھنے کا سوچیں، شاید آپ کے تجربات سے کسی کا بھلا ہی ہو جائے۔

                                                                                            فی امان اللہ           

اس ہفتے کی چٹھی

جب پیکرِحُسن سج دھج کر مقابلِ نظر آجائے، فضا میں خوشبوئے حِنا چھا جائے اور اِک مترنّم صدا آئے ؎ مَیں ہُوں خوش رنگ حنا۔ تو اس سحر انگیز عالم میں اہلِ دل و اہلِ زباں بے ساختہ بول اٹھیں، ’’کیا شوخ ہےرنگ اس حنا کا.....‘‘ رنگِ منہدی سے رَچا بسا سرِورق، شادی سیزن اور موسمِ عید کی نویدِ خوش کُن دے رہا تھا۔ تین ذیلی سُرخیاں (یہ تین کا تڑکا مناسب ہے) اور اُفقاً شہ سُرخی کا (جو ہمیں پسند ہے) تال میل بھلا لگا، کیوں کہ یہ جو آپ کبھی کبھار شہ سُرخی کوسرِورق پر عموداً ٹانگ دیتی ہیں، وہ نِرا تکلّف ہی لگتا ہے۔ منہدی سے ہاتھ رنگنے کے بعد ذوقِ مطالعہ کی تسکین واسطے، صفحہ نمبر2 کے راستے آغازِ مطالعہ کیا۔ نجمی صاحب کی تصویر دیکھ کر ایک لمحہ حیران، دو پَل پریشان اور تین گھڑی انگشتِ بہ دنداں ہوئے ’’ہیں!مدیرہ صاحبہ نے یوٹرن لےلیا ہے کہ ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ پھر صفحہ 2 پر آگیا‘‘ لیکن، پھر ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ دیکھ کر غلط فہمی، کم فہمی کے پر جھاڑ کررفع دفع ہوگئی۔ مضمونِ نجمی کے توسّط سے حجاجِ کرام کی جو تیاری کروائی گئی، اُس سے آپ قارئین میگزین کے لیے خُوب سے خُوب تر اور خُوب تر سے خُوباں ہوگئے۔ شاباشے بھا رئوف ظفر! کہ ایک ریاضی داں کادماغ افزا انٹرویو کیا۔ ’’فیچر‘‘ میں ملازمت پیشہ خواتین کےرہائشی مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اسیر خواتین کی حالتِ زار کی طرف بھی سرکار کی توجّہ مبذول کروائیں۔ بات ہوجائے، صفحہ دس نمبری یعنی اسٹائل کی، جس پر ہم بلاملاحظہ تبصرہ کرتے آرہے ہیں۔ (آن دی ایڈوائس) اب کوئی ڈیل نہیں تو ڈھیل ہی فرمادیں کہ آپ کے رائٹ اپ کا شاعری اور فلسفہ زندگی سے ہمارا شعری ذوق ری فریش رہتا ہے۔ ناول عبداللہ کی دھوم تھری (تیسری قسط) تقریباً فِری پڑھی (44پیسے کا صفحہ) قبل ازیں صحرائی فلسفہ پارے پڑھ پڑھ کے زندگانی کے مکھانے غم کے افسانے میں ڈھلتے جارہے تھے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ہیپاٹائٹس آگہی، فنٹاسٹک رہی۔ موسمِ برسات کے پیشِ نظر کسی مضمون میں ہیضہ، تربوز وخربوزہ کی سنگت کو آشکار فرمائیں اور منور مرزا کے عالمی افق پر اس بار نو منتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی تصویر سَجی تھی، جب کہ ہمارے دل کے آسمان پر دیگر ہم وطنوں کی طرح بےیقینی کی گھٹا چھائی رہتی ہے۔ حزبِ اختلاف پیشیاں بُھگت بُھگت کر ہلکان ہوئے جارہی ہے اور حزب اقتدار پریس کانفرنسز میں ماضی کے غبن کے غبارے پھاڑ پھاڑ کر اپنے دل کاغبارنکال رہی ہے۔منہگائی کےوا ورولے (سائیکلون) اور گھٹن زدہ ماحول میں بھائی پُکھانے والا (غبارے والا) اور اخبار والا کیا کریں یا یہ کہیں.....دَم مارو دَم، رُک جائے دَم.....ہائے ربّا ہائے خان پندرہ کی روٹی، بیس کا نان.....از اٹ نیو پاکستان؟ آخر میں بات ’’سجناں دی محفل‘‘ (آپ کاصفحہ) کی، جہاں مصباح، پروفیسرحمیدی، برادرچھکّن، نواب صاحب اور برقی جلوہ گر تھے، جب کہ چیئرپرسن اسماء خان تھیں۔ گڈ! اور ہاں گزشتہ ہفتے کی کرسی صدارت عطا کرنے پر بندہ سرشار و شُکر گزار ہے۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: آپ سرشار ضرور ہوں، پر زیادہ شُکرگزار ہونے کی ضرورت نہیں کہ حتی الامکان کوشش کرکے بھی، ہم سےیہ زیادتی نہیں ہوپاتی کہ کوئی چٹھی، آپ کی چٹھی سے کسی طور بہتر بھی نہ ہو اور اُسے محض اس لیے مسند عطا کردی جائے کہ ’’پَرجا‘‘ کو ’’راجا‘‘ کی مسلسل حکمرانی پر اعتراض ہے۔ ویسے بھی ہم تو اکثریت کی رائے کے قائل ہی نہیں کہ اگر ایک طرف کم عقلوں، نالائقوں کی فوج ظفر موج اور دوسری جانب چند ایک نابغہ ہوں، تو ہم یقیناً موخر الذکر کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے۔

گوشہ برقی خُطوط
  • مَیں بھی آپ کے میگزین کی مستقل قاریہ ہوں، مگر میری ای میلز اُس طرح شایع نہیں کی جاتیں، جیسے خادم ملک کے خط شایع ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی کچھ اہمیت دے دیا کریں۔ (رمشہ الیاس راجپوت، لاہور)

ج: آپ کو خادم ملک جیسی اہمیت چاہیے، تو وہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ عزت افزائی تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

  • ہر دل عزیز ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ سے چڑیا کی تصویر ہٹا کر آپ نے آخر خادم ملک کی بات مان ہی لی۔ ہا ہا ہا…بہت خُوب۔ (امیر خان)

ج: امیر خاناں!!اس قدر خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا پیج میکر/ لے آئوٹ ڈیزائنر تبدیل ہوا ہے اور صفحے کے لے آئوٹ میں تبدیلی اُسی کی مرہونِ مِنّت ہے۔ اگر ہم خادم ملک کی باتوں کو اتنی اہمیت دیتے، تو نہ جانے کب سے ایڈیٹر شپ ہی چھوڑ چُکے ہوتے۔

  • سنڈے میگزین بے حد ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ میرا پسندیدہ ترین صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ ہے۔ اُس کی تو بات ہی الگ ہے۔ (ثاقب احمد، کراچی)
  • مَیں آپ کے میگزین کے لیے لکھنا چاہتی ہوں اس حوالے سے کچھ گائیڈ کردیں۔ (ماہا ہارون)

ج: جس صفحے کے لیے اور جس موضوع پر بھی لکھنا چاہتی ہیں۔ ایک مختصر، جامع تحریر لکھ کر یاتو ہمارے پوسٹل ایڈریس پر بھیج دیں یا اردو اِن پیج فارمیٹ میں کمپوزڈ فائل ای میل کردیں۔ تحریر قابلِ اشاعت ہوگی،تو باری آنے پر شایع ہوجائے گی۔

  • اگر مَیں کوئی ناول، افسانہ یا مختصر کہانی اشاعت کے لیے بھیجوں تو کیا میری حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ (سماں چوہدری)

ج: یہ تو آپ کی تحریر پر منحصر ہے۔ ناول تو فی الحال رہنے دیں۔ پہلے مختصر کہانی یا افسانہ بھیجیں، قابلِ اشاعت ہوا تو ضرور شایع ہوجائے گا۔

  • ’’چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو‘‘ والوں کا تفصیلی تعارف تو شایع کردیں۔ (عائشہ طارق)

ج: جی اچھا۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین