• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقامی اور بین الاقوامی پریس میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ناصرف عوامی توقعات پر پورا اترنے سے قاصر رہی بلکہ اصلاحات کے نفاذ میں بھی کلّی طور پر ناکام رہی جبکہ حکومت کی توجہ کا واحد مرکز اقتدار سے مضبوطی کے ساتھ چپکے رہنا رہا، تھامسن نے حکومت سے بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تاہم تھامسن کی سفارتی ضوابط سے روگردانی مجھ سمیت کئی معاشی ماہرین کی آراء سے مطابقت رکھتی ہے لیکن افسوس ہماری تنبیہات پر تو حکومت اور اس کی قابل اعتبار معاشی ٹیم نے کان نہ دھرے۔ عالمی ترقی کے حوالے سے قائم کمیٹی کے چیئرمین سر میلکم بروس نے کمیٹی کے سیکریٹری جسٹن گریننگ کی دانش پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو لاکھوں ڈالر کی امداد کا اجراء کیوں کیا گیا، پاکستانی سیاستدان ہمارے ٹیکس لے رہے اور اپنے ٹیکسز ادا نہیں کر رہے۔ تھامسن نے حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے 70فیصد ارکان پارلیمینٹ نے اپنے ٹیکس گوشوارے تک داخل نہیں کئے۔ یہ سب شرمناک ہے، پاکستانی سیاستدانوں کیلئے اور پاکستان کی عوام کے لئے بھی محض یہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔
پانچ سالہ بدترین طرز حکمرانی اور بدعنوانی نے ملک کی ساکھ کو اس قدر گرا دیا ہے کہ سفارت کاروں نے سفارتی آداب کو خیرباد کہہ کر میزبان ملک کی حکومت کو ہدف تنقید بنانا اور پارلیمینٹ اور سیاستدانوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا ہے، جو وطن عزیز کی بیرون ملک توقیر میں کمی کا باعث بنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی کسی قابل قدر سیاستدان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ برطانوی سفارت کار کی اس رائے کا جواب دے سکے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب تاریخی طور پر بیرونی امداد پر چلنے والے ملک میں اتنی سکت نہیں کہ اس قسم کے توہین آمیز الفاظ کا جواب دے سکیں۔ کس نے اس ملک کو محور تمسخر بنادیا؟ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکومت نے محض اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد اور فائدے کو ترجیح دی ہو۔ مغربی حکومتوں کے مالی امداد کرنے والے اداروں نے بھی ایسی حکومت کی کامیابی سے تبدیلی پر توجہ مرکوز کرلی ہے جسے ملک کے لاکھوں بدحال عوام کی نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ معیشت کی بحالی اور اصلاحات کا کوئی خیال۔
ایشیاء میں تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت کو تباہ ہونے میں محض پانچ سال کا عرصہ لگا۔ سرمایہ کاری کرنے والے ایک عالمی بینک نے ملکی معیشت کو اگلے گیارہ (نیکسٹ الیون ) ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے اور اس کی کرنسی میں سرمایہ کاری کو تیس سالہ رسک یعنی مالی اعتبار سے خطرہ قرار دیا ہے۔ ملک کی معیشت کی تباہی کی ذمہ داری سیاسی قیادت کی عدم توجہی اور اس کی غیر سنجیدہ اور بے ربط ٹیم پر عائد ہوتی ہے جو اپنی اعتمادیت کھو چکی ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے اور مئی میں نئی حکومت برسرِاقتدار ہوجائے گی، جسے بیش بہا مسائل کا سامنا ہوگا اور ان مسائل کے سدباب کے لئے معمولی نوعیت کے اقدامات کافی نہیں ہوں گے بلکہ ان کے حل کے لئے غیر معمولی اقدامات درکار ہوں گے، ایسے اقدامات جو بعض اوقات عوامی امنگوں کے برخلاف ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کو ابتری کا شکار مالی صورتحال، بیرونی ادائیگیوں کے بوجھ، بڑھتے ہوئے قرضوں کے حجم ، سست معاشی پیداوار، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، توانائی اور قومی اداروں PSE)) کی تباہی جیسے سنگین مسائل سمیت بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اور نجی شعبے کے معدوم ہوتے اعتماد جیسے مسائل بھی درپیش ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کو پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، پاکستان اسٹیل مل اور او جی ڈی سی جیسے تباہ حال ادارے بھی وراثت میں ملیں گے۔
نئی حکومت کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ معیشت کی بحالی کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں، اس مقصد کیلئے ہمہ گیر تذویر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ اداروں کی مضبوطی بھی عمل میں لائی جا سکے۔معاشی بحالی کی تذویر کے بنیادی عناصر میں سب سے پہلے صبر کے ساتھ مالی انضباط کو طویل عرصے تک چلانے کا عزم شامل ہے جس کے لئے ٹیکس کے نظام اور انتطامیہ میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ لاگتی تخمینے کا احاطہ کرنا بھی اہم ہوگا۔ زراعتی آمدن کو براہ راست ٹیکس کے دائرے میں لانا، ودہولڈنگ ٹیکس کے طریق کار کو بہتر بنانا، کئی خدمات پر ٹیکس لگانا ، صوبائی ٹیکسوں میں بہتری، این ایف سی ایوارڈ کے حل اور ٹیکس انتظامیہ کو مضبوطی جیسے اقدامات کی ترجیحی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ توانائی کی نگرانی کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، محض بجلی کے بلوں میں اضافہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس حوالے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں بجلی کی قیمتوں میں اضاضہ اس کی چوری میں بھی اضافے کا سبب بنا ہے لہٰذا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لئے ایک ہمہ گیر تذویر ناگزیر ہے۔ قومی اداروں کو سنبھالنا نئی حکومت کا اصل امتحان ہوگا۔کیا ہمیں پہلے ان ملکی اداروں کی بحالی کیلئے اچھے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کو ملازمت دیکر انہیں نیا ڈھانچہ فراہم کرکے نج کاری کی جانب گامزن ہونے کی ضرورت ہے یا پھر فوری طور پر نجکاری کی طرف جانا چاہئے، دونوں راستوں کے فوائد اور نقصانات ہیں۔
ملک میں انسانی انفرااسٹرکچر کو مضبوط کر کے پرائیوٹ سیکٹر کے اعتماد کو بحال کیا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر میں بینک کے قرضوں کے بھاوٴ کو یقینی بنا کر اور ان کا آپس میں ربط مضبوط کر کے معیشت کی بحالی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں تاکہ غریبوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکے اور غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی طرح مختلف قسم کے انکم سپورٹ پروگراموں کو بحال کر کے معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے تاہم اس ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور اس کے گورنرز کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت ایک بہتر زری پالیسی مرتب کرتی، اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کی معاشی غلطیوں کی حمایت کی گئی۔ نئی حکومت کو اس شعبے کو بھی مضبوط کرنا پڑے گا ۔یہ تمام چیلنج ایک مشکل مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے تاہم اگر حکومت کی جانب سے ان صحیح راستوں کا تعین کیا گیا جو ماضی کی حکومت نے نہیں اختیار کئے ہوں تو ہدف تک پہنچنا مشکل نہیں ۔ اگر ہم خود کو معاشی طور پر مضبوط کرلیں تو کوئی بھی شخص ملکی لیڈر شپ ، اس کے سیاستدانوں اور پارلیمینٹ کی توہین کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ، اگر ہم ٹیکس ادا کریں، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھیں اور ملکی مفادات کی خاطر مل جل کر کام کریں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک ایماندار، پُرعزم اور محب وطن لیڈ ر شپ عطا فرمائے۔
سخت سردی اور ستار کی محفل
کشور ناہید
ہرچند کہ فروری شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ابھی تک ٹھنڈی ہواؤں اور گہرے سیاہ بادلوں کی لذت کو محسوس کر رہا ہے۔ اس موسم میں برصغیر کے سب سے سینئر اور عالمی شہرت یافتہ ستار نواز پنڈت روی شنکر کے لئے تقریب ایک انوکھے انداز اور ایک نامعلوم سی جگہ پر منعقد کی جا رہی تھی مگر میں یہ کیوں کہہ رہی ہوں کہ نامعلوم سا مقام جب کہ سیکڑوں لوگ فرشی نشست پر سکڑ سکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے نامعلوم اس لئے کہا کہ کلچر کے حوالے سے اسلام آباد میں کئی سرکاری ادارے ہیں۔ لوک ورثہ، پی این سی اے جن کی عمارات تو بہت شاندار ہیں (سنا ہے آج کل دیمک لگی ہوئی ہے) ان سے پوچھا، دوسری ثقافتی انجمنوں سے پوچھا ”آپ تیار ہیں، روی شنکر کا ریفرنس کرنے کے لئے؟“ سرکاریوں نے تو کہا کہ وہ تو ہندوستان کے فنکار تھے، ہم نہیں کر سکتے۔ انہیں بتایا کہ وہ تو عالمی انعام یافتہ تھے، آپ انہیں محض ہندوستان کا کیوں کہہ رہے ہیں؟ بولے مان جائیے، آخر تو وہ ہندو تھے۔ پوچھا رانا بھگوان داس ہمارے اتنے بڑے جج ہیں، ان کی بھی کوئی تقریب اس لئے نہیں کرو گے کہ وہ ہندو ہیں۔ جواب ملا ”یہ ہماری پالیسی میں فٹ نہیں بیٹھتا کہ کسی ہندو فنکار کے لئے کوئی تقریب منعقد کریں“۔ پوچھا ”کیا آپ نے مہناز کے لئے کوئی فنکشن کیا تھا؟“ بولے ”سوچ رہے ہیں“۔ خیر سب جگہ سے مایوس ہو کر کچھ خاص گیلری میں گئے۔ انہوں نے کہا کر لیں مگر ہمارے پاس فنکاروں کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں، اب پھر سب سوچ میں پڑ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ ٹکٹ رکھ دو، جو پیسے آئیں ان کو دے دیئے جائیں۔ اندومٹھا نے یہ مشکل کام اپنے ذمہ لیا اور گھر گھر پھیرا لگایا۔ وہ خاتون 83سال کی عمر میں بھی اتنی پھرتی سے چلتی اور کام کرتی ہیں کہ رشک آتا ہے اور فنکشن والے دن تو یہ رشک، حسد میں بدل گیا۔ سیکڑوں غیر ملکی اور چند ایک پاکستانی وقت سے پہلے ہی ہال بھر چکے تھے جو بعد میں آئے کچھ زمین پر بیٹھے اور بہت سے کھڑے رہے۔
مشہور ستار نواز فرید نظامی کے دو بھتیجے اور ایک سینئر ستار نواز نے پہلے تو الگ الگ اپنے فن کا مظاہرہ کر کے روی شنکر کو تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا پھر تینوں نے مل کر انوکھا منظر پیش کیا۔ کھماج کے سروں کو تینوں ستار نوازوں نے مل کر اور پھر جگل بندی کر کے ایسا سماں باندھا کہ سامعین نے کھڑے ہو کر داد دی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر اتنے سارے غیر ملکی اپنے بچّوں سمیت کیوں آئے اور اتنے کم پاکستانیوں نے توجّہ کیوں کی۔ حضور والا! یہ جتنے غیرملکی ہیں وہ اپنے بچّوں کو پاکستان کی ثقافت سے روشناس کرانا چاہتے ہیں، وہ اس لئے چار، پانچ سال کے بچّوں کو لے کر بھی آئے تھے۔ چند پاکستانی موسیقی کے رسیا اور روی شنکر کے شیدائی تھے، اس لئے آئے تھے، باقی افسران کا تو یہ کہنا ہے کہ ہم نے کبھی کوئی ثقافتی تقریب پیسے دے کر نہیں دیکھی، نہ شامل ہوئے۔ ہماری بیگمات بچّوں کو لاڈ میں چینی کھانا کھلانے، برگر سے تواضع کرنے، نہیں تو چاکلیٹ کھلا دینے کو حقیقی محبت سمجھتی ہیں۔ کتاب خرید کر دینا یا کسی ثقافتی تقریب کی جانب توجّہ دینا وقت کا زیاں معلوم ہوتا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ دیگر ثقافتی ادارے بھی تو ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھا۔ جناب پوچھا تھا۔ ایک میں تو جب سے اشفاق سلیم مرزا گئے ہیں، جھاڑو ہی پھر گئی ہے نہ کوئی بندہ آتا ہے نہ جاتا ہے، سب چین لکھتے ہیں۔ ایک اور ادارہ ہے، وہ کہتا ہے تین ہزار روپے دیں اور تقریب کرنے سے پہلے مدعوئین کی فہرست جمع کرا دیں۔ وہ بھلا کیسے۔ ہم تو اخبار میں دے دیتے ہیں۔ لوگ تلاش کرتے ہیں کہ کہیں کوئی اچھی تقریب ہو تو چلے جائیں۔ کوئی ادارہ نظر ہی نہیں آتا۔ ارے وہ جو سرکاری اکیڈمیاں ہیں، ان کا احوال مت پوچھیں۔ وہ ادبی تقریبات کے لئے یوں تو مخصوص ہیں مگر وہ بھی کہاں کہ خاک اڑتی نظر آتی ہے، یہی حال لائبریریوں کا ہے۔ پہلے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر لائبریریز ہوتی تھیں۔ وہاں ہم لوگ شاعری پڑھنے، ڈرامہ ریڈنگ، میوزک اور ڈانس کی تقاریب بھی کرتے تھے، اب تو وہاں کلاشنکوف والے کھڑے نظر آتے ہیں، اندر سنّاٹا راج کرتا ہے۔
آخر کس دن ہم فنکاروں کو قومیتوں اور ذاتوں میں تقسیم کرنے سے باز آئیں گے۔ مارٹن لوتھر کنگ ہو کہ نیلسن منڈیلا ہم ان کی انسانیت پرستی کے لئے قدر کرتے ہیں۔ لتا منگیشکر ہو کہ نورجہاں ہم ان کے فن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ واں گوف ہو کہ شاکر علی ان کی مصوری کو قابل قدر سمجھتے ہیں۔ کیا سبب ہے کہ اگر پاکستانیوں نے جے پور فیسٹول میں حصّہ لینا ہو تو بی جے پی بول اٹھتی ہے اور اگر روی شنکر کو خراج عقیدت پیش کرنا ہو تو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ضیاء الحق بول اٹھتا ہے۔ یہی رویّہ تھا غالب اور میر کے ساتھ جب پاکستان قائم ہوا تھا۔ کہا گیا تھا کہ وہ تو ہندوستانی شاعر ہیں۔ حتیٰ کہ بھیرویں اور ایمن راگوں کے نام بدلنے اور امیر خسرو کی بندشوں میں پیوند لگا کر مسلمان کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی تھیں۔ ان لوگوں میں ہمارے زیڈ اے بخاری بھی شامل تھے۔ کچھ عقل مندوں نے ثقافت کو یوں تقسیم کرنے کے خلاف علم اٹھایا۔ یہ فاصلے ہرچند اب بھی قائم ہیں مگر بھلا ہو ملکہ سارا بائی، مہدی حسن، فیض صاحب اور احمد فراز کا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کو قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے علاوہ ہمارے نوجوان کہیں ”رنگ“ کے نام سے، کہیں بسنتی چولا کے نام سے اور کہیں کلاسیکی موسیقی کو بچانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو نے بھی ان فنون کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ ان کے خیال میں ان کو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کاش وہ اس محفل میں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ روی شنکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کتنے لوگ جمع تھے۔
تازہ ترین