گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کا عائلی قوانین کی وضاحت کے حوالے سے ایک فیصلہ آیا تھا کہ مرد کو دوسری شادی کے لئے اپنی پہلی بیوی ہی کی نہیں مصالحتی کونسل کی اجازت بھی ضروری ہے۔ اس کے فوری بعد نظریاتی کونسل کے چیئرمین صاحب کا بیان سامنے آیا کہ مرد کو دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی یا مصالحتی کونسل سمیت کسی سے بھی اجازت نامہ لینے کی ضرورت نہیں ہے، جس سے ایک عجیب طرح کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ہمارے لئے جس طرح اعلیٰ عدالتیں قابلِ احترام ہیں اسی طرح نظریاتی کونسل بھی ایک آئینی مشاورتی ادارے کی حیثیت سے قابل قدرو منزلت ہے۔ محترم شامی صاحب کا فون آیا کہ ہم آپ کا اور قبلہ ایاز صاحب کا نقطہ نظر ایک ساتھ لیں گے مگر پھر کچھ اور معاملات بیچ میں آگئے خیال تھا کہ کوئی صاحبِ نظر اس پر لب کشائی یا خامہ فرسائی فرمائیں گے مگر تاحال کسی طرف سے اس سلسلے میں اظہارِ خیال نہیں ہوا۔ ناچیز نے قبلہ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب سے بھی اس کا تقاضا کیا مگر انہوں نے اپنی وضاحت کے ساتھ خود ہی یہ فرض ادا کرنے کا حکم دے دیا چونکہ درویش کی زندگی کا بیشتر حصہ مصالحتی عدالتوں کے چیئرمین کی حیثیت سے مختلف النوع پیش آمدہ خانگی مسائل سلجھانے میں گزرا ہے جس کا نچوڑ یا لبِ لباب یہ ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں عورت کی حیثیت مرد کے مقابلے میں کمتر کی ہے۔ہمارا قانون دان طبقہ اس باریک نکتے کو بخوبی سمجھتا ہے کہ کسی بھی مہذب سماج میں قانون کا مدعا کمزور طبقے کو توانائی بخشتے ہوئے اُسے برابر کی سطح پر لانا ہوتا ہے یعنی قانون نسبتاً کمزور طبقے کا سہارا بنتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری روایتی سوچ اس کے برعکس رہی ہے۔ مثال کے طور پر نکاح اور طلاق کے مسئلہ کو ہی لے لیتے ہیں۔ نکاح ایک سماجی بندھن یا معاہدہ ہے جو عورت اور مرد کی باہمی خوشی و رضا مندی سے سرانجام پاتا ہے۔ اب اگر باامرِ مجبوری نوبت اس معاہدے کو توڑنے تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو ختم کرنے کا اختیار بھی فریقین کو ایک جیسا ہونا چاہئے بلکہ اگر دنیا بھر کے قوانین کی روح کو دیکھا اور سمجھا جائے تو اس میں قانون کا جھکاؤ کمزور پارٹنر کی کسی نہ کسی حد تک معاونت میں ہے لیکن ہماری سوچ اور عمل ہر دو صورتوں میں عورت کے بجائے مرد کی معاونت کرتا ہے۔ مرد جب چاہے تین حروف عورت کے منہ پر مارے اور وہ نصیبوں جلی سوائے رونے پیٹنے کے اور کر ہی کیا سکتی ہے اس لئے کہ ہمارا قانون سوائے اشک شوئی اور لفاظی کے بنیادی طور پر مرد کی حمایت میں ہے۔ سماج اور خداوندانِ سماج بھی مرد کی حمایت میں بڑے بڑے حوالہ جات لئے کھڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جوڑے جو شادی کے بعد امریکہ و یورپ میں آباد ہو جاتے ہیں ناچاقی کی صورت میں ہمارے پاس مصالحتی کونسلوں میں جتنے بھی کیسز آتے ہیں، مردوں کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے تنازع یا طلاق کا مسئلہ یہاں وطنِ عزیز میں حل ہو جبکہ ایسی ہر خاتون اور اس کے وارثان کی تمنا و التجا ہوتی ہے کہ ہم اپنا فیصلہ وہیں مغربی قوانین کی مطابقت میں کروانا چاہتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ مرد کے دوسری شادی کیلئے اجازت نامے پر آتے ہیں۔ہمارے روایتی معاشرے میں 1961کے عائلی قوانین اگرچہ معیاری یا آئیڈیل نہیں ہیں مگر اس سماجی گھٹن میں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں ان کی رو سے فاضل عدالت کا فیصلہ، شاید اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیے جانے کے قابل ہو۔ ہماری پہلے سے جو پریکٹس چلی آرہی ہے اس میں مرد کی دوسری شادی کے لئے عورت کا اجازت نامہ چیئرمین مصالحتی کونسل کے سرٹیفکیٹ ہی کے تابع ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مصالحتی کونسل ایسے کسی اجازت نامے کی پابند ہے یا اس کے برعکس بھی فیصلہ دے سکتی ہے؟ چیئرمین مصالحتی کونسل ایسا کوئی اجازت نامہ آنے اور فریقین کو سننے کے باوجود اگر یہ سمجھتا ہے کہ عورت یہ اجازت بلا رضا و رغبت یا کسی نوع کے دباؤ سے دے رہی ہے تو وجوہ تحریر کرتے ہوئے وہ اجازت نامہ روک سکتا ہے جس کے خلاف اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے تحفظ میں بنائے گئے قوانین کے عملی انطباق کی صورتحال خود ان کمزور قوانین سے بھی زیادہ دگرگوں ہے۔ یہاں خواتین کو پیش کیے بغیر ان کے جعلی اجازت ناموں پر سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں درویش یہ تحریر کرنے پر مجبور ہے کہ معاشرے کا مجموعی چلن یا پلڑا مرد کے حق میں ہی رہے گا۔ مثال کے طور پر وہ عورت اگر اُسے دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتی تو مرد کو طلاق دینے سے پاکستان کا کوئی قانون، کوئی عدالت کوئی، ادارہ کسی بھی روک سکتے ہیں نہ پراپرٹی کے حوالے سے کوئی قدغن لگا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مطلقہ عورت کو جو معاشی و سماجی مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ ایک الگ کالم کا تقاضا کر رہے ہیں جبکہ مرد تو نہایا گھوڑا ہے۔ ایسے تمام تر مسائل تب تک مسلط رہیں گے جب تک ہم اپنے عائلی قوانین میں جوہری نوعیت کی تبدیلیاں کرتے ہوئے کمزور طبقات کے لئے ٹھوس تحفظات نہیں لاتے ہیں۔