• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کھوئی ہوئی میراث

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حجِ بیت اللہ کےموضوع پر ایک شان دار، منفرد اور ایمان افروز مضمون پڑھنے کو ملا۔ منفرد اس لیےکہ فاضل مصنّف نے مضمون کی ابتدا جس انداز سےکی، اُس سےحج کی تاریخ کےساتھ عوام النّاس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ حج، حضورﷺکے زمانے میں فرض نہیں ہوا، بلکہ ہر اُمت پر فرض تھا اور سب قومیں، بہ شمول مشرک و کافر اپنے اپنے انداز میں حج و طواف کرتے رہے۔ محمود میاں نجمی کی اِسی تحقیقی انفرادیت نے انہیں دوسروں سے ممتاز کیا ہے۔ بہرحال، اس شمارے کی سب سے خاص بات تمہاری بہت خُوب صُورت تحریر تھی۔ ’’کُھلیں گی مٹّھیاں تو دیکھیں گے… ہتھیلیوں پر حِنا سے لکھا ہوا ایک نام‘‘ اِسے پڑھ کر پھر رمشا خان کی بہت خُوب صُورت دل کی باتیں بھی پڑھیں تو کالج، یونی ورسٹی کا زمانہ یاد آگیا۔ وہ بھی کیا، دل میں کِھلےحسین و خُوش نما پھولوں کا زمانہ تھا کہ جب کیکر کےکانٹوں کے پہرے میں کِھلے پھول بھی دل کی رنگینی بڑھا دیتے تھے، لیکن اب عُمر کے اس آخری حصّے میں یہ حال ہے کہ ؎ پھولوں کی تمنّا کی تھی.....آنکھوں میں موتیا اُتر آیا۔ اس عالم ضعیفی کا حال کیا کہیے؎ کلی جو اُٹھائی، تو کلائی اُتر گئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی جگہ کے بارے میں تم جو چومکھی لڑ رہی ہو، وہ تمہارا ہی دل گردہ ہے۔ اور پھر اس پر چند نام نہاد پڑھے لکھے، خود ساختہ علّامائوں کے خطوں کے جواب دینا؟ میں تمہاری قوتِ برداشت کو سلام کرتا ہوں۔ رئوف ظفر نے معروف ریاضی دان، ڈاکٹر نور محمد اعوان کا فکر انگیز انٹرویو لیا۔ یہ وہی سب باتیں ہیں، جو میں پچھلے 65 ,60 سال سے دہرا رہا ہوں۔ سقوط ِ اسپین میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد بحری جہازوں میں بھر بھر کر یہ اَن مول کتابی ذخیرہ یورپ پہنچایا گیا۔ گوروں کی کسی بھی ایجاد کو اُٹھا کر دیکھ لو، تمہیں اس کے پیچھے کسی مسلمان کی تحقیق ہی نظر آئے گی۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں تحقیقی کتب ہماری ہی کھوئی میراث ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ تمہارے ’’قصص الانبیاء‘‘ سلسلے کے یہ بھولے بسرے قصّے بھی اِسی کھوئی میراث کا ایک حصّہ ہیں، جسے محمود میاں تلاش کرکےدوبارہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ منور راجپوت مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے خواتین کی رہایش کے ایک دیرینہ مسئلے کی نشان دہی کی، بہت شکریہ۔ بٹیا! ’’قصص الانبیاء‘‘ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پر ایک سلسلہ شروع کرو۔ میری دُعا ہے کہ دین کی اشاعت اور احکامات و واقعات کا یہ سبق آموز، ایمان افروز سلسلہ سب کے لیے دنیا میں باعث رحمت و برکت اور آخرت میں باعث نجات و مغفرت بنے۔ (پروفیسر سید منصور علی خان، کراچی)

ج: جی سر… ان شاء اللہ تعالیٰ۔

’’یوٹیوبرز‘‘ کے انٹرویوز

بارش شروع ہوئی، تو یونی ورسٹی سے چُھٹی کرلی۔ ابھی چائے لے کر بیٹھے ہی تھے کہ خیال آیا، کیوں نہ آپ کو خط لکھا جائے۔ ویسے تو خیالوں خیالوں میں نہ جانے آپ کو کتنے خطوط لکھ کر پوسٹ کرڈالے، مگر اب جو حقیقتاً قلم، کاغذ اٹھایا، تو الفاظ ندارد… رشک آتا ہے اُن لوگوں پر، جن کے آگے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور یہ کیا ناول…؟ سچ کہوں تو ناول نامی سلسلے پہ ’’اِنّاللہ‘‘ ہی پڑھ چُکی تھی۔ ویسے یہ ’’عبداللہ III‘‘ کی اقساط پڑھ کر تو مجھے سخت افسوس ہوا کہ میں نے ’’عبداللہ I اور II‘‘ کیوں نہ پڑھا؟ ’’فیچر‘‘ میں ’’خواتین کو چاہیے، اِک سائبان‘‘ بہت ہی عُمدگی سے قلم بند کیا گیا، جو کہ حقیقتاً بہت سی طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل میں سے ایک ہے کہ خود ہم کراچی میں ’’انٹرن شپ‘‘ کے لیے رہایش کے مسئلے کی وجہ سے اپلائی نہ کرسکے۔ توقع ہےآئندہ بھی اس طرح کے حسّاس موضوعات پہ فیچر کرواتی رہیں گی۔ جیساکہ مرد و عورت کی تن خواہ میں امتیاز، جو کہ کئی پرائیویٹ اداروں میں عام سی بات ہے۔ دونوں سے ایک سی محنت اور ایک جتنا وقت لینے کے باوجود معاوضے میں فرق، صنفی امتیاز ہی ہے، جس پر توجّہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ میں مجھےکوئی خاص دل چسپی تو نہیں، لیکن منہدی کے ڈیزائن جس قدر باریکی اور مہارت کا نمونہ تھے، تعریف نہ کرنا یقیناً زیادتی ہوگی۔ رمشا خان کی ’’کہی اَن کہی‘‘ اچھی تھی۔ ویسےآپ پاکستان کے مشہور یوٹیوبرز کے انٹرویو کیوں نہیں کرواتیں؟ اب تو نہ صرف یہ باقاعدہ پروفیشن بن چکا ہے، بلکہ اس سے وابستہ شخصیات بھی اتنی ہی معروف ہیں، جتنے شوبز سلیبریٹیز…! جیسا کہ عرفان جونیجو اور مورو وغیرہ۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ تو ہے ہی میگزین کی جان۔ ویسے یہ خادم ملک صاحب (انکل) کے خطوط پڑھ کے ہمارے ذہن میں شوبز سے وابستہ شخصیت، حمزہ علی عباسی آجاتے ہیں کہ وہ اپنی متنازع ’’ٹوئٹس‘‘ کی وجہ سے لائم لائٹ میں رہتے ہیں اور خادم ملک انکل اپنی بے سروپا باتوں کے سبب۔ خیر، آخر میں آپ سے ڈاکٹر عطا الرحمٰن کے انٹرویو کی فرمائش ہے۔ اگر یہ چٹھی قابل ِ اشاعت ٹھہرتی ہے، تو یہ ہمارا تیسرا خط ہوگا۔ دوسرا اور آخری خط چھے سال پہلے شایع ہوا تھا، بس… یوں ہی ذکر کردیا۔ (سمیہ اسلم قائم خانی،ٹنڈوا لہٰ یار )

ج: ارے … تم نے اتنا بریک کیوں لیا۔ تم تو اچھا خاصا لکھ لیتی ہو۔ لاکھوں سے نہ سہی، ہزاروں سے تو بہتر ہی لکھتی ہو۔ آتی جاتی رہا کرو بھئی۔ بے سروپا خطوط کو قابلِ اشاعت بناتے بناتے ہماری تو عُمریا بیتی جا رہی ہے۔ کیا اچھی تحریروں سےپر ہمارا کوئی حق نہیں؟ اور ہاں، پچھلے کسی خط کے جواب میں ہم نے لکھا تھا ’’جہاں سے آپ کی سوچ شروع ہوتی ہے، وہاں سے ہمارے عمل کا آغاز ہوتا ہے‘‘ تو ہمیں لگا، اِس جملے میں کسی قدر تکبّر کا اظہار ہے، اشاعت کے بعد افسوس سا ہوا، مگر اب پھردیکھو،تم نےیوٹیوبرزکےانٹرویوز کی فرمایش کی اور ہم گزشتہ شمارے سے یہ سلسلہ شروع کربھی چکے ہیں۔

زبردستی مُسکرانے کی کوشش

اس سے پہلے بھی ایک خط لکھا تھا، لیکن وہ قمیص کی جیب میں رہ گیا اور قمیص واشنگ مشین میں دُھل گئی۔اب دوبارہ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ جو لکھا تھا، ویسا تو اب نہیں لکھ سکتا۔ بہرحال اس بار آپ کی ماڈل زبردستی مُسکرانے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ ماڈل کو تو بہت فریش ہونا چاہیے۔ ناول کا سلسلہ شروع کر کے تو آپ نےکمال ہی کردیا۔ آپ لوگ کبھی کبھی پُرانی فلموں کی یادیں بھی تازہ کرواتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت اچھا ہے۔ پرانی یادیں تازہ کرتے رہنا چاہیے۔ (محمد نواز تھہیم، سرگودھا)

ج: کہیں آپ نے ہمیں وہ مشین کا دُھلا خط ہی تو ارسال نہیں کردیا کہ آپ کا ہینڈ رائٹنگ سمجھنے سے زیادہ آسان جوئے شِیر لانا تھا۔یہ جو چند جملے ہم نے آپ کی تحریر سےاخذ کیے ہیں، وہ بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ کیسے کیے ہیں۔ ماڈل کی زبردستی کی مُسکراہٹ پر اس قدر غور کرنے کے بجائے تحریر پر کچھ توجّہ دے لیتے، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

درخشاں و تاباں سلسلہ

محمود میاں نجمی نے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصص الانبیاء کا جو درخشاں و تاباں سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ گزشتہ شماروں میں حضرت یوشع بن نون ؑ اور حضرت حزقیل ؑ کے قصّے پڑھے۔ یقین جانو نرجس! مَیں آج تک اِن دونوں نبیوں کے ناموں سے بھی واقف نہ تھا، چہ جائیکہ اُن کا نبی ہونا معلوم ہوتا۔ یہ آگاہی دینے پر نجمی صاحب کا ممنون، شُکر گزار ہوں۔ اُن سے التماس ہے کہ اس سلسلے کے تمّت بالخیر ہونے پر ہابیل و قابیل، ہاروت و ماروت، طالوت و جالوت، یاجوج و ماجوج کے قصّے بھی قارئین کے گوش گزار کریں۔ شاید قارئین کی اکثریت نے ان کے نام بھی نہ سُنے ہوں۔ البتہ یوٹیوب کےمختلف چینلز پران کےبارے میں کافی مواد موجود ہے، مگرمآخذ اور دیگر حوالہ جات کا نہیں بتایا جاتا، لہٰذا مکمل یقین اور اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر نجمی صاحب انہیں قارئین کے لیے پیش کریں، تو یہ بڑی خدمت ہوگی۔ اِسی طرح دنیا کے سب سے لمبے قد کے مالک (30330گز) اور طویل العمر (3500سال) انسان عوج بن عنق کا قصّہ بھی بڑا حیران کُن ہے کہ یہ شخص حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت موسیٰ ؑکے دَور تک جیتا رہا۔ ایک مصرع ہے ’’نظر آخر نظر ہے، بے ارادہ اُٹھ گئی ہو گی‘‘ سو ایک اچٹتی سی نظر سرِورق سے اُٹھی اور نظرِ غائر سے اشاعتِ خصوصی میں شفق رفیع کےانداز اور منور راجپوت کے اسلوب کا احاطہ کر کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر جا ٹھہری۔ ڈاکٹر قمر عباس کی پُرانی فلموں، گانوں پر عمیق تحقیق زبردست تھی۔ ان میں سے90 فی صد فلمیں میں نے دیکھ رکھی ہیں۔ بقول شاعر (تحریف کےساتھ) یادِ ماضی ’’سواد‘‘ ہےیارب۔ پھر ایک سرسراتی نظر اُٹھی اور حریم فاروق کے انٹرویو پر جا جمی تاکہ خُوب فرحت و حظ اٹھا سکے۔ اُس کے بعد وہی نظر ہیلتھ اینڈ فٹنس سے پھسلتی ہوئی پیارا گھر کی رنگینیوں میں کھوئی اوردزدیدہ ہو کر ڈائجسٹ پر جا رُکی۔ جہاں سے پیاروں کے نام پیغامات پر جا ٹِکی اور پوتے کے نام اپنا پیغام ڈھونڈ کر ’’قراۃ العین‘‘ کا سبب بنی۔ بالآخر ’’نظرِبد‘‘ آپ کا صفحہ پر جا ساکت ہوئی، جو کہ مکمل طور پر ’’سندھ نامہ‘‘ تھا۔ بھئی خوب!! اس دفعہ صفحے کے سینٹر اسپریڈ پر ’’راجہ‘‘ نہ سہی تو ’’شہزادہ‘‘ آگیا۔ باقی رعایا (لکھاری) تو پیادے، غلام، وزیر ہیں، جن کی بس ایویں ای چند سطور چھاپ دی جاتی ہیں۔ (ڈاکٹر اطہر رانا، طارق آباد، فیصل آباد)

ج:آپ لوگوں کی بس ایسی ہی باتوں پر خون کھول کے رہ جاتا ہے۔ کم از کم آپ تو ایسی باتیں نہ کیا کریں کہ جن کا لگ بھگ ہر خط ہی سینٹر اسپریڈ پر نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری ایک کالم کی جگہ تو کھا ہی جاتا ہے۔

خُوب ملبوسات زیب تن کیے

تازہ سنڈے میگزین میں شروع ہی میں عالمی اُفق پر ہمارے منور مرزا چاند کی سیاست کے ساتھ موجود تھے۔ اچھا مضمون لکھا، پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ہمیشہ کی طرح محمود میاں نجمی موجود نظر آئے۔ صوبائی وزیر محب اللہ خان کا انٹرویو بھی اچھا رہا۔ سنڈے اسپیشل میں ارشد عزیز ملک نے علاقہ غیر پر اعلیٰ مضمون لکھا، تمام حالات سے متعلق بہترین قلم کشائی تھی۔ اور آپ کی سرِورق کی ماڈل نے بھی کیا خُوب ہی ملبوسات زیب ِ تن کیے۔ ناول (عبداللہ III) کا جواب نہیں۔ پیارا گھر میں ضیافت ِ خاص شان دار رہی۔ ڈائجسٹ میں اس مرتبہ دو کہانیاں پڑھنے کو مل گئیں، بہت شکریہ اور ناقابل ِ فراموش میں مدیحہ ممتاز کا قصّہ بھی پسند آیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)

ج: سرورق کی ماڈل کے خُوب ہی ملبوسات میں سے کیا کوئی بیگم کے لیے پسند آ گیا ہے؟؟

لرز، سہم جاتے ہیں

اس بار سرِورق کے رنگ موسمِ برسات کی وجہ سے دُھندلائے سے تھے، لیکن مواد ماشاءاللہ، تازہ دَم، کرارا تھا۔ منہدایا منہدایا (نم ہواسے کراری شے کا نرم پڑجانا) بالکل نہ تھا۔ حالاں کہ میگزین کے دو شمارے ایک ساتھ (4اگست اور 12اگست) ترتیب دینا مشکل کام تھا، کیوں کہ ٹیم کے ذہنوں میں بہ یک وقت دومختلف آہنگ تھے،پھر بھی عیدالاضحی اور عیدِ آزادیٔ وطن کے حوالے سے نہایت پائیدار اور جامع شمارہ منصہ شہود پرآیا۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع عیدِ قرباں اور عیدِ آزادی دونوں کےفلسفوں پر مشتمل ’’ٹو اِن ون‘‘ تحریر لائیں۔ قوم لفظ ’’ٹو اِن ون‘‘ عرفِ عام میں ’’مفتا‘‘ محسوس کرتے ہی جھوم اُٹھتی ہے، اس لیے بھی تحریر رنگ جماگئی۔ منور راجپوت نے یومِ آزادیٔ پاکستان کے حوالے سے’’ایک جھنڈا، ایک درخت‘‘ جیسی پُرفکر تحریر ہماری نذر کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں محمود میاں نجمی کے مضامین کی عادت سی ہوگئی ہے، تو اگر مفتی مسعود الرحمٰن کا مضمون ’’عیدالاضحیٰ جاں نثاری کا پیغام‘‘ اسلامی صفحے پرشایع کردیا جاتا، تو زیادہ مناسب ہوتا۔ خیر، قربانی کے فلسفے اور مسائل کے حل کے لحاظ سے اچھی تحریر تھی۔ ڈاکٹر قمر عباس عید کی مناسبت سےعوامی مزاج کا مضمون لائےاور شوبز کے حوالے سے ماضی کی فلموں، گیتوں کا جامع تذکرہ کیا، مگر واقعات میں تسلسل نہیں تھا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں حریم فاروق کی بے تکان،دلچسپ باتیں پڑھیں۔ مرکزی صفحات ایڈیٹر صاحبہ نےمہارت سےخود بُنے، نمکین عید سے متعلق فکر و فلسفہ اور اشعار بھی شاملِ تحریر کیے گئے۔ ڈاکٹر راشدہ علی کی تحریر طویل عرصے بعد نظروں سے گزری، تو بہت دل چسپی سے ’’بقرعید کی متوازن پلیٹ‘‘چکھی۔ احتیاطی تدابیرکے چارٹس نے بھی معیارِ صحت برقرار رکھنے میں مدد دی۔ ’’عبداللہ‘‘ کی کہانی کبھی مافوق الفطرت بیانیہ لیے ہوتی ہے، تو کبھی روحانی انوار سے منور نظر آتی ہے۔ پانچویں قسط پڑھ کر شدّت سے مرحوم ایم اے راحت یاد آئے۔ ’’پیارا گھر‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ آمنے سامنے طلوع ہوئے اور اپنی بہترین تحریروں سے لُطف دے گئے۔ اور تھا جس کا ’’انتظار‘‘ وہی ’’شاہ کار‘‘ چھا گیا، جی ہاں ’’آپ کا صفحہ‘‘۔ سب سےپہلے تو مدیرہ صاحبہ کے حوصلے کی بقا کو ستّر ہزار توپوں کی سلامی کہ برسوں سے نہ سُدھرنے اور نہ سِدھرنے والی قوم مبصراں سے شکوے فرمائے جاتی ہیں، لیکن ’’بےاثر‘‘ مراسلہ نگاروں کی دائمی ڈھٹائی کو بھی اکہتّر ہزار توپوں کی سلامی ہے کہ نہ تو محترمہ رُکنے، ٹھہرنے کا نام لیتی ہیں اور نہ ہی یہ ’’قوم فارغاں‘‘ روش بدلنے کو تیار ہے۔ لے دے کر ایک دو بزرگانِ محفل ہی ’’ہفتہ واری‘‘ غیظ و غضب سے لرز، سہم جاتے ہیں۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)

ج:بزرگانِ محفل لرز، سہم جاتے ہیں…؟؟اگر ہم نے صحیح معنوں میں ’’کان پر جوں نہ رینگنے‘‘ کی کوئی عملی تفسیر دیکھی ہے، تو بہ خدا وہ آپ ہیں۔ اس قدر سخت سرزنش، ترش لب و لہجے کے بعد بھی دائمی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ آج کا خط بھی گویا ایک نہ ختم ہونے والا قصّہ تھا، جسے بالآخر ہمیں انکھیں بند کرکے قلم زد کرنا پڑا۔

                                                                                               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ میرے خط کو اعزازی چِٹھی بنانے کا شُکریہ۔ رواں ہفتےکا شمارہ عیدِ قرباں اور عیدِ آزادی کا مکسچر ہے، تو شفق رفیع رقم طراز تھیں کہ دو مختلف تہوار بنیادی طورپر ایثار اور قربانی کی بے مثال یادگار ہیں۔ عیدِقرباں حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے پیارے بیٹے، حضرت اسماعیل ؑ کے لازوال جذبۂ قربانی کی یادگار ہے، تو قیامِ پاکستان بھی لاکھوں مسلمانوں کی قربانی کا ثمر۔ اس یومِ آزادی پر جہاں ہم نے خوشیاں منائیں، وہیں کشمیر کی حالتِ زار پر دل خون کے آنسو بھی روتا رہا۔ منور راجپوت نے کیا ہی عُمدگی و دل کشی سے ایک جھنڈا اور ایک درخت لگانے کی ترغیب دی کہ ایک ہماری پہچان اور دوسرا مُلک کی خوش حالی کا سامان ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس متاثرکُن موضوعات کا انتخاب کرکے دلوں کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ماضی کے فلمی گیتوں سے متعلق ادبی رنگ میں ڈوبی اس تحریر نے اَن گنت یادیں تازہ کردیں۔ بیش تر فلمیں دیکھی ہوئی اور گیت ازبر تھے۔ ذہن کے جھروکوں سے نام ور اداکاروں کے چہرے جھانکتے رہے۔ اُس دَور کی فلموں، گانوں میں بھی ادبی شائستگی و چاشنی کا کیا اعلیٰ معیار نظر آتا تھا۔ تفریح کے ساتھ ساتھ عوام النّاس کی بہترین تربیت بھی ہوتی تھی۔ کم ازکم یہ آج کل کی طرح بے ہودہ، لچر، آئٹم سونگز کا تو کوئی تصوّر نہیں تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘میں پروفیسر ڈاکٹر راشدہ علی گوشوارے کےذریعے گوشت اعتدال سے کھانے کی تلقین کررہی تھیں اورسچ یہ ہے کہ اعتدال ہی صحت کا راز ہے۔ ہاشم ندیم اپنی روایت کےمطابق ناول میں تجسّس اوردلچسپی کاساراسامان لیے’’سنڈے میگزین‘‘ میں براجمان ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیز انجم نے بالکل درست فرمایا کہ دسترخوان کے ساتھ دل میں بھی وسعت ہونی چاہیے۔ شبانہ خان گوشت کی مختلف تراکیب کے ساتھ آئیں اور خوب آئیں۔ شاہین فہد بھی سجنے سنورنے کے نسخے بتا رہی تھیں۔ مفتی مسعود الرحمٰن نے عُمدہ انداز سے قربانی اور جذبہ ایثار کو تفصیلاً بیان کیا۔ جب کہ ’’سینٹراسپریڈ‘‘میں ایڈیٹرصاحبہ کاعالمانہ، محقّقانہ رائٹ اپ پڑھ کر بے اختیار ہی دل میں آیا کہ ’’ہم تمہیں علاّمہ سمجھتے، جو نہ صنف نازک ہوتیں‘‘ بہرحال، ماڈلز کی ضیافتِ گوشت پر نظر ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ عالیہ کاشف عید مبارک کے پیغامات بھیجنے والوں کےساتھ حاضر تھیں۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں اختر علی اختر نے بولڈ اداکارہ حریم فاروق سے اُن کے دل کی باتیں بہ غور سُنیں۔ اور ہم بالآخر آپہنچے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر کہ جہاں ہمارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ’’چٹھی‘‘ بنا کر آپ نے ہمیں شرمندہ سا کردیا۔ تمام ہی اعزازی خطوط نگاروں کے خط اور آپ کے جوابات بہت پسند آئے۔ (شہزادہ بشیر محمد نقشبندی، میرپورخاص)

ج:باقی سب تو ٹھیک ہے، یہ آپ ہر صفحے کے ٹاپ پر اپنا اور اپنے شہر کا نام کیوں لکھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو تحریر کے آخر میں ایک ہی بار نام، پتا لکھنا بہت کافی ہوتا ہے۔ ایک تو آپ کا ہینڈرائٹنگ الاّ ماشاءاللہ، اُس پر نہ حاشیہ چھوڑتے ہیں نہ سطر۔ اعزازی چٹھی تو ہم طرزِ تحریر کی بنیاد پر بنا ہی دیتے ہیں، مگر جان جوکھم میں ڈال کر۔

گوشہ برقی خُطوط
  • میں نے حال ہی میں کیمسٹری میں ماسٹرز کیا ہے۔ مَیں سنڈے میگزین کے لیے کچھ لکھنا چاہتی ہوں، بھیجنے کا طریقۂ کار بتادیں۔ (ماہم نعیم)

ج:ہاتھ سے لکھی تحریر پوسٹ کرناچاہیں تو پوسٹ کردیں، وگرنہ ای میل بھی کرسکتی ہیں، مگر اردو اِن پیج میں، نہ کہ رومن میں۔ اور ہاں پلیز، ہاتھ کی لکھی تحریر اسکین کر کے مت بھیجیں۔

  • مَیں محمود میاں نجمی صاحب کی تحریروں کی بہت مدّاح ہوں اور آج یہ ای میل اِسی غرض سے کررہی ہوں کہ میری یہ نیک خواہشات او ر تعریف و توصیف اُن تک ضرور پہنچادیں۔ بلاشبہ وہ اس عُمر میں بہترین فریضہ ادا کررہے ہیں اور ہاں، میرے خیال میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی تحریر کہاں شایع ہوتی ہے۔ ہمیں تو اس سے صرف ہدایت و رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ (عائشہ بنتِ شکیل)

ج: آپ کے نیک خیالات ان تک پہنچادیئے گئے ہیں۔ اور ہم تک بھی پہنچ ہی گئے ہیں۔

  • مَیں لکھنے پڑھنے کی بے حد شوقین ہوں۔ جب سے سعودیہ سے واپس آئی ہوں، بہت بور ہوجاتی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو کیا آپ کے جریدے کے لیے کچھ لکھ کے بھیج سکتی ہوں۔ (سُمیّہ، فیصل آباد)

ج: اجازت ہے۔ ویسے سعودیہ میں بوریت دور کرنے کے لیے کیا کرتی تھی؟

  • میگزین بہترین ہے، شوق سے تمام صفحات پڑھتی ہوں۔ (سمانہ نقوی)
  • ایک عرصے بعد میگزین پڑھا اور پڑھ کر بےحد خوشی ہوئی کہ آج بھی جریدے نے اپنا نام و مقام برقرار رکھا ہوا ہے۔ سر چشمۂ ہدایت، انٹرویو، کہی ان کہی اور اب ناول… سب سلسلے لاجواب ہیں۔ (امان اللہ، لورالائی، بلوچستان)

ج: بہت شکریہ امان۔ اب میگزین باقاعدگی سے پڑھتے رہیے گا۔

  • ناول شروع کرکے تو آپ نے کمال ہی کردیا ہے۔ اب میگزین پڑھنے کا صحیح لُطف آرہا ہے۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور کینٹ)

ج: ویسے پہلے بھی آپ کچھ کم شوق سے میگزین نہیں پڑھتی تھیں۔

قارئین کرام

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین