
وفات پا گئیں جبکہ 1999ء میں یہ شرح 450 تھی۔ صحت کے عالمی معیار کو سامنے رکھا جائے تو اس معاملے میں پاکستان بہت پیچھے دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں کبھی یہ توقع کی جاتی تھی کہ ایک ماں چھ بچے پیدا کر سکتی ہے مگر اب اس معاملے میں ماؤں کی استعداد نف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ مذاکرے میں آغا خاں یونیورسٹی کے بچوں کی صحت کے شعبے کی ڈاکٹر انیقا زیدی اور ڈاکٹر زیبا ساتھر جیسے ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ ایک طویل عرصہ تک صحت مند ماؤں کی صحت مند اولاد کے نظریئے کی تقلید کرنے والوں نے جب بچے دو ہی اچھے جیسے سلوگن استعمال کرنے شروع کئے تو تحفظ آبادی کے پروگرام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور پھر مذہبی بنیاد پرستی کے رجحانات نے بھی تحفظ آبادی کے عالمی اصولوں کے خلاف خطرناک محاذ قائم کرنے کی کامیاب کوششیں کیں جس سے اس شعبے کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کی موجود آبادی کے بارے میں مختلف قسم کی رپورٹیں منظر عام پر لائی جاتی ہیں کچھ لوگوں کے خیال میں پاکستان کی آبادی سولہ کروڑ ہے۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ سترہ کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور علامہ طاہر القادری جیسے نابغے اپنی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کرنے کے لئے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کے دعویدار بنتے ہیں۔ اصل فیصلہ مردم شماری کے ذریعے ہو گا لیکن مذکورہ بالا مذاکرے میں بیان کئے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ 37 سالوں کے بعد پاکستان کی آبادی 29 کروڑ کو عبور کر کے 30 کروڑ تک بڑھنے کی کوشش میں مصروف ہو گی اور 37 سال بعد کے خادم پاکستان ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنے شہروں کی موجودہ سڑکوں کے اوپر تعمیر کی گئی سڑکوں کے اوپر سڑکوں کی تیسری منزل تعمیر کرنے کا سوچ رہے ہوں گے۔ سڑکوں کے اوپر سڑکیں تعمیر کرنے کی جدت ہم نے اپنے دوست ملک ترکی سے حاصل کی ہے مگر ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر لدھیانے میں سڑکوں کے اوپر سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں مگر انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ صرف گیارہ مہینوں کا ریکارڈ قائم کرنے کے لئے نہیں تعمیر کی گئیں انہیں تعمیر کرنے میں نصف صدی خرچ ہوئی ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی چاہئے کہ 37 سال بعد کی ٹریفک کو پیش نظر رکھتے ہوئے 29 کروڑ بیس لاکھ شہریوں کی سفری سہولتوں کے بارے میں ابھی سے سوچنا شروع کر دیں۔