• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد ثقلین علی نقوی

 8اکتوبر2005 ء کا دن پاکستان ہی نہیں، دنیا کی تاریخ کا بھی ایک اَلم ناک دن تھا۔ اُس روز ایک ایسا قیامت خیز زلزلہ آیا، جس نے اپنے پیچھے دُکھ، تباہی اور بربادی کے ایسے رستے زخم چھوڑے، جو آج بھی تازہ ہیں۔سات اعشاریہ چھے درجے کے اُس زلزلے نے پاکستان کے ایک بڑے حصّے کو ہلا ڈالا۔صبح آٹھ بج کر 52 منٹ پر آنے والی اس قیامتِ صغریٰ نے پُررونق بستیاں اور دیہات تہس نہس کر کے رکھ دئیے۔ 

پَل بھر میں ہزاروں افراد، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے، جب کہ زخمیوں کے تو درست اعداد وشمار آج تک سامنے نہ آسکے۔ چند سیکنڈز میں آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور مُلک کے دیگر بالائی علاقوں پر گویا اِک قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے95 کلو میٹر دُور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا، جس سے15 تحصیلیں تو صفحۂ ہستی سے مِٹ گئیں۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک لاکھ افراد زلزلے کی نذر ہوئے۔ چھے ماہ سے زائد عرصہ عمارتوں کے نیچے دبی لاشیں نکالنے میں لگا۔ 

دوسری طرف، دُکھ کی اس گھڑی میں پوری قوم متاثرین کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے امدادی سامان سے بَھرے ٹرک زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے متاثرہ علاقوں کے طرف چل پڑے۔پاک فوج کے جوان بھی مشکل کی اس گھڑی میں صفِ اوّل میں نظر آئے۔ جوانوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر خچروں اور بوٹس کے ذریعے دریائے نیلم پار کرکے دُور دراز سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں پہنچ کر متاثرین تک خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچائیں۔

ایک سروے کے مطابق زلزلے میں چھے لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے، جب کہ چھے ہزار تین سو تعلیمی اداروں، آٹھ سو مراکزِ صحت اور چھے ہزار چھوٹی بڑی سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ صدرِ مملکت، جنرل پرویز مشرف نے عالمی ڈونرز کانفرنس طلب کی، جس سے پاکستان کو متاثرینِ زلزلہ کے لیے اربوں ڈالرز کی امداد ملی۔ 

اندرونِ مُلک سے بھی پوری قوم نے متحد ہوکر زلزلہ متاثرین کی مدد میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ مگر افسوس، امدادی رقوم کے استعمال کے لیے مناسب منصوبہ بندی کے فقدان اور حکم ران طبقے کی غلط پالیسیز کی وجہ سے متاثرین کی اُس طرح داد رَسی نہ ہوسکی، جس کی اُمید کی جا رہی تھی۔ 

ان رقوم سے تباہ حال بستیوں کی جگہ کئی نئے شہر تعمیر کیے جاسکتے تھے، مگر آج بھی متعدّد متاثرین کُھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ وہ صحت کی بنیادی سہولتوں، تعلیم، پانی اور انفرااسٹرکچر کی عدم تعمیر پر سراپا احتجاج ہیں۔ اُس وقت کی حکومت نے تباہ ہونے والے مکانات کے عوض فی کس ایک لاکھ، 75 ہزار روپے اور جاں بہ حق ہونے والوں کے ورثا کو فی کس ایک، ایک لاکھ روپے دیئے۔

اس امدادی رقم سے مکانات کی تعمیرِ نو ناممکن تھی،لہٰذا متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت محنت مزدوری کر کے مکان بنائے۔ تاہم اس کے باوجود کئی جگہوں پر آج بھی لوگ خیموں اور شیلٹرز میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اُس وقت تو ہر کام ہنگامی بنیادوں پر ہو رہا تھا، مگر جب صُورتِ حال ذرا سنبھلی، تو پھر وہی ہوا، جو عموماً ایسے سانحوں، المیوں کے بعد ہوتا ہے۔سب کچھ بُھلا دیا گیا اور اب کوئی بحالی کے ان منصوبوں کے بارے میں سوچنے پر بھی تیار نہیں۔

زلزلے کے بعد بالا کوٹ میں پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ موجودہ شہر سے 23کلومیٹر دُور ’’بکریال‘‘ کے مقام پر’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر کیا جائے گا، جہاں متاثرین کو بسایا جائے گا۔ جولائی 2007 ء میں اُس نئے شہر کا وزیرِ اعظم، شوکت عزیز نے افتتاح کیا، کام بھی شروع ہوا، لیکن 12سال گزر گئے’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ تعمیر ہونا تو دُور کی بات، اُس کی طرف جانے والی سڑک بھی نہ بن سکی اور اب اس منصوبے پر کام مکمل طور پر بند ہوچُکا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے پر تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہو چُکی ہے۔ 2018ء میں مانسہرہ کے ایک شہری کی درخواست پر چیف جسٹس، میاں ثاقب نثار نے حکومتی اداروں کی غیر تسلّی بخش کارکردگی، اربوں روپے کی مبیّنہ کرپشن، منصوبوں میں تاخیر اور عدم تکمیل کا نوٹس لیتے ہوئے ضلع مانسہرہ اور تحصیل بالاکوٹ کا ہنگامی دورہ کیا۔ اس موقعے پر متاثرین نے بتایا کہ 13سال بعد بھی اُن کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ 

ثاقب نثار نے زلزلہ زدگان کے نام پر دنیا بھر سے آنے والی امداد کی تفصیلات مانگیں، تو سیکرٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ بیرونِ ممالک سے 2.89 ارب ڈالرز امداد ملی، جب کہ اندرونِ مُلک سے ملنے والی امداد کا حساب موجود نہیں، ممکن ہے اس حوالے سے’’ ایرا‘‘ کے پاس معلومات ہوں۔ ’’ ایرا‘‘ کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت نے ایک ارب 90 کروڑ اور ڈونرز نے 100 ارب روپے دیئے، 10 ہزار 563 منصوبے زیرِ تعمیر ہیں، منصوبوں کے لیے مزید37 ارب روپے درکار ہیں۔ 2006 ء سے اب تک انتظامی امور پر5 ارب 36 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا’’ پانچ ارب روپے معمولی رقم ہے؟ کیا ایرا میں چاچے مامے بھرتی کیے گئے ہیں۔‘‘

اگر وہاں کے تباہ حال تعلیمی اداروں کی بات کی جائے، تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لاسکی۔ ہزارہ کے متاثرہ اسکولز کی ادھوری تعمیر کی وجہ سے بچّے گرمی، سردی میں کُھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔واضح رہے،ان علاقوں میں گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی اور سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے۔ 

تعمیرِ نو کے منتظر اسکولز کے بچّوں نے زلزلے کی ہر برسی پر احتجاجی مظاہرے کرکے حکم رانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔2010 ء میں ہزاروں بچّے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ڈی چوک پر بھی احتجاجی مظاہرہ کرچُکے ہیں۔ پی پی پی حکومت کے وزیر، قمر زمان کائرہ نے6 ماہ کے اندر اندر زلزلہ متاثرین کے مسائل کے حل کے لیے فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اُس کے بعد وفاق میں نون لیگ کی حکومت بنی، مگر وہ بھی وعدوں، دعوؤں تک محدود رہی۔ 

زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے قائم کیے جانے والے حکومتی اداروں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ان اداروں کے لیے پوش علاقوں میں لاکھوں روپے کرائے پر عمارتیں لی گئی ہیں اور عملہ کروڑوں روپے تن خواہوں کی مَد میں وصول کر رہا ہے، مگر کام میں کوئی دِل چسپی نہیں لیتا۔

بالاکوٹ شہر کے عین وسط میں قائم گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول بھی، جو اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں زلزلے میں شہید ہونے والے 130بچّوں کی اجتماعی قبریں ہیں، عارضی شیلٹر میں چل رہا ہے، حالاں کہ وزیرِ اعظم، شوکت عزیز نے اس اسکول کا دَورہ بھی کیا تھا۔ اجتماعی قبروں کی وجہ سے اس اسکول کا میڈیا میں خاصا چرچا رہا اور ہر سال8 اکتوبر کو بڑی تقریب کا انعقاد بھی اسی اسکول میں کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسکول آج تک تعمیر نہ ہو سکا۔ نیز، زلزلے سے زمین بوس ہونے والا تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال بھی تعمیر نہ ہو سکا۔

یہ اسپتال آج بھی چند کمروں پر مشتمل کرائے کے گھر میں چل رہا ہے، جس میں صحت کی بنیادی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زلزلے میں متعدّد سرکاری عمارتیں بھی ملبے کا ڈھیر ہوئیں، جو دوبارہ تعمیر نہ کی جا سکیں۔ ان میں پولیس اسٹیشن بالاکوٹ، پوسٹ آفس، نادرا آفس اور عدالتوں کی اہم عمارتیں شامل ہیں۔ منتخب نمائندے، وزیر، مشیر ہر سال آتے ہیں، وعدے کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، جب کہ متاثرین سال بھر ان وعدوں کے حقیقت میں بدلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ پورے 14 برس سے یہ کھیل جاری ہے…!! 

اسکول میں سیکڑوں بچّوں کی اجتماعی قبریں

ماؤں نے بچّوں کو نہلایا، بڑی چاہت سے سنوارا سجایا، اپنے ہاتھوں سے ناشتا کروایا اور پھر روز کی طرح اپنے جگر گوشوں کو اسکول روانہ کردیا۔ کئی مائیں دروازے کی اوٹ سے دُور تک جاتے بچّوں کو دیکھتی رہیں، مگر اُنھیں کیا خبر تھی کہ یہ اُن کی آخری دید، آخری ملاقات ہے، کیوں کہ کچھ ہی لمحوں بعد زمین تھرتھرائی اور اسکول کی دیواریں، چھتیں بچّوں پر آ گریں۔ 

بالاکوٹ کا یہ سرکاری اسکول قبرستان بن گیا۔ بچّوں کو وہاں اجتماعی طور پر دفن کردیا گیا، جب کہ باہر سے بھی میّتیں لا لا کر وہاں کھودی گئی اجتماعی قبروں میں دفن کی جاتی رہیں۔ کئی ایک کے تو والدین اور پورے خاندان بھی زلزلے کی نذر ہوگئے تھے، اس لیے اُن کے آخری دیدار کے لیے بھی کوئی موجود نہیں تھا۔

تازہ ترین