ایک عرصے تک انسانی جسم کو توجّہ اور تحقیق کا موضوع بنایا گیا اور کہا گیا کہ جسم ہی انسانی شخصیت کا مرکز ہے، جس پر سب سے زیادہ توجّہ دینی چاہیے، لیکن اب،جب کہ اس نظریے پر بہت سی تحقیقات سامنے آچُکی ہیں اور ایسی جدید مشینریز بھی دستیاب ہیں، جن کی مدد سے کسی بھی فرد کی دماغی کیفیت دیکھی اور جانی جا سکتی ہے، توماہرینِ امراضِ صحت پورے استدلال کے ساتھ کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت کا مرکز و محور، اُس کی سوچ اور دماغ ہے۔
یعنی اگر کسی کی دماغی اور ذہنی صحت ٹھیک نہیں ،تو اس کے اثرات پوری شخصیت اور زندگی پر مرتّب ہوتے ہیں۔ اب کلیہ یہ بنا کہ اگرشخصیت کو انرجیٹک بنانا ہے، تو دماغ اور ذہن پر توجّہ دینا ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ دُنیا بَھر میں دماغی اور ذہنی صحت پر بہت زیادہ توجّہ دی جارہی ہے۔
اگر ذہنی صحت کے حوالے سے پاکستان کا جائزہ لیا جائے ،تو حالت خاصی ناگفتہ بہ نظر آتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو عمومی اور جسمانی صحت ہی کی طرف توجّہ نہیں دی جاتی، تو ذہنی صحت بحال رکھنے کا تو تصوّر ہی محال ہے۔ پھر بدقسمتی سے یہاں پس ماندہ آبادیوں، گاؤں دیہات میں کئی غیر حقیقی تصوّرات بھی عام ہیں،جن کے سبب ذہنی امراض کو،عموماً مرض ہی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ زیادہ تر کیسز کو جن بھوت یا کسی مافوق الفطرت شے کا سایاتصوّر کرکے علاج معالجے کے لیے اتائیوں، پیروں، فقیروں سے رجوع کرلیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے،جسمانی صحت، ذہنی صحت کے بغیر نامکمل ہے اوراگر ذہنی و دماغی صحت معمولی سی بھی متاثر ہوجائے،تو اُس کے اثرات جسمانی صحت پر خاصے گہرے مرتّب ہوتے ہیں۔ ماہرینِ صحت ذہنی دباؤ کو جسمانی صحت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیتے ہیں کہ یہ اعصاب، عضلات، دِل اور انہضام کے نظام پر مضراثرات مرتّب کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی بھی جسمانی عارضہ لاحق ہوسکتا ہے۔
ذہنی دباؤ کےاعصاب پر اثرات: اعصابی نظام دماغ، ریڑھ کی ہڈی، رگوں اور نیورونز (Neurones)نامی خاص قسم کے خلیات سے مل کر بنتا ہے،تو کسی بھی فرد کی پریشان دماغی کے اثرات اس کے اعصابی نظام پر براہِ راست مرتّب ہوتے ہیں۔
اصل میں جب کوئی شدیدذہنی دباؤکا شکار ہو،تواسٹریس ہارمونز(Stress Hormones) خارج ہونے لگتےہیں، جس کے نتیجے میں دِل کی دھڑکن اورسانس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ نیز، خون میں شکر کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور بازوئوں ،ٹانگوں کی جانب خون کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔ اگر یہ کیفیت زیادہ عرصہ برقرار رہے، تو رگوں اور شریانوں سمیت عضلات اور خاص طور پر دِل کےحجم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
جسمانی عضلات : عام طور پر جب ہم کسی پریشانی سے دوچارہوں، تو کندھوں اور گردن کے عضلات میں تناؤ محسوس ہوتا ہے،جودردِ شقیقہ یا جھنجھلاہٹ کا باعث بن سکتاہے۔ ایسی صُورت میںمساج یا اعصاب کو سکون فراہم کرنے والی ورزشیں فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔نیز، یوگا اور مائنڈ فُل نیس میڈی ٹیشن(Mind Fulness Meditation)سمیت گہری سانسیں لینے سےبھی بہتری آ سکتی ہے۔
نظامِ ِتنفس پر اثرات: ماہرین کے مطابق بہت زیادہ پریشان ہونے سے سانس لینے کی نارمل رفتار متاثر ہوجاتی ہے،جس کا زیادہ تر افراد کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب آپ کسی وجہ سے زیادہ پریشان ہوں، تو صرف ایک منٹ کے لیے سانس کی آمدورفت پر توجّہ دیں،توعام اور پریشانی کی حالت میں سانس کے انداز اور رفتار میں باآسانی فرق محسوس کرسکتے ہیں۔ بہرکیف، اگر آپ کو پہلے سے سانس کی کوئی تکلیف ہے، مثلاً دَمہ، پھیپھڑوں کی بیماری وغیرہ، تو ذہنی دباؤ اس تکلیف میں کئی گنا اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
دِل کی صحت: ذہنی صحت، دِل پر بہت گہرے اثرات مرتّب کرتی ہے۔حتیٰ کہ اگر آپ کسی معمولی سی وجہ سے کچھ عرصے سے پریشان ہیں، تو دِل پر اس کے بہت گہرےمضر اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے،جس کے نتیجے میں آپ بُلند فشارِ خون کے عارضے میں مبتلا ہوسکتے ہیں، تو ہارٹ اٹیک یا پھر فالج کا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اینزائٹی یا ذہنی دباؤ کی کیفیت میں جب اسٹریس ہارمونز خارج ہوتے ہیں، تو دِل کی دھڑکن بھی تیز ہوجاتی ہےاور اگر ایسا بار بارہو تو رگیں متوّرم اور شریانیں سخت ہوجاتی ہیں، ان میںکولیسٹرول جمع ہونے لگتا ہے، جو انتہائی خطرناک بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
خون میں شکر کی سطح: بار بار پریشان ہونے سے اسٹریس ہارمونز، خون میںشکر کی مقدار میں بھی اضافے کاسبب بنتے ہیں۔اگر کوئی فرد مسلسل تشویش اور پریشانی میں مبتلا رہے،تو خون میں بتدریج شکرجمع ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی مقدار بڑھتے بڑھتے عوارضِ قلب، فالج یا گُردے فیل ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔
مدافعتی نظام: اسٹریس اور اینزائٹی جسم کے مدافعتی نظام کو اس حد تک کم زور کردیتے ہیں کہ وہ مختلف اقسام کےبیکٹریا اور وائرسز سے نمٹنے کے قابل نہیں رہتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جسم ہلکے اور معمولی نوعیت کے جراثیم کی زَد میں فوری آ جاتا ہے۔
نظامِ انہضام: اگر آپ پریشان ہوں، تو پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہوتی ہے،حتیٰ کہ پریشانی کی شدّت بڑھ جائے ،تو متلی یا بعض اوقات قے بھی ہوسکتی ہے۔ بھوک اُڑ جاتی ہے اور کچھ کھانے کو بھی جی نہیں کرتا۔
اگر کوئی فردمسلسل پریشانی کی کیفیت کا شکار رہے، تو معدے میں درد رہنے لگتا ہے اور وہ متوّرم بھی ہو جاتا ہے، جوعام طور پر السر کا سبب بنتا ہے۔ اصل میں معدہ چکنائی، تیز مسالے اور زیادہ میٹھی اشیاء ہضم نہیں کرپاتا، جس کی وجہ سے مزید تیزابیت پیدا ہوتی ہے اور ڈکاریں بھی آتی ہیں۔
آنتوں پر اثرات: مسلسل تشویش اور کرب سے آنتیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ چناں چہ ایسے افراد کو عموماً اسہال کی شکایت رہتی ہے یا پھر قبض کی۔
اس صورت میں ہاضمے کی دوا یا پھکّی لینے سے عارضی افاقہ ہوتا ہے، لیکن مؤثر حل تو یہی ہے کہ بے وجہ پریشان رہنے کی عادت سے خود کو بچایا جائے۔
مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر افرادجسمانی امراض کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جب کہ بیش تر معالجین بھی جسمانی عارضے کی تشخیص کے لیے بیرونی محرّکات ہی کی جانب توجّہ دیتے ہیں۔
حالاں کہ ذہنی اور دماغی صحت پر بھی توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ جسمانی صحت، توانائی اور خوشی کا براہِ راست تعلق ذہنی صحت ہی سے ہے۔
(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)