• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یو این جی اے کا ہنگامہ خیز اجلاس اور پاکستان کا بیانیہ

یو این جی اے کا ہنگامہ خیز اجلاس اور پاکستان کا بیانیہ
وزیرِاعظم پاکستان ، عمران خان اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے

اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کا 74واں اجلاس اس اعتبار سے خاصا ہنگامہ خیز رہا کہ اس میں مسئلہ کشمیر، سعودی عرب، ایران کشیدگی، مسئلہ افغانستان، چین، امریکا تجارتی جنگ، شامی بُحران، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی، غُربت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو پُر زور انداز میں پیش کیا گیا، جب کہ پاکستان کے لیے اقوامِ عالم کے رہنمائوں کی یہ بیٹھک اس لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ اس موقعے پر وزیرِ اعظم، عمران خان نے نہ صرف کشمیر کا مقدّمہ پیش کیا، بلکہ مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیے کی جانب بھی دُنیا کی توجّہ مبذول کروائی۔ 

اس موقعے پر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب، ایران کشیدگی پر کُھل کر اظہارِ خیال کیا، جب کہ اُن کے ایرانی ہم منصب، حَسن روحانی نے نہ صرف ردِ عمل ظاہر کیا، بلکہ کشیدگی کےخاتمے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ علاوہ ازیں، عالمی اقتصادیات میں ہل چل مچانے والی امریکا، چین تجارتی جنگ پر امریکی و چینی رہنمائوں نے 193ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ 

تاہم، ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اقوامِ متّحدہ فوری طور پر یہ مسائل حل نہیں کر سکتی۔ البتہ انتہائی ہنگامی صورتِ حال میں اس کا ذیلی ادارہ، سلامتی کائونسل اپنے ارکان کی صوابدید پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کے علاوہ جنگ کا حکم دے سکتا ہے۔ 

لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کسی تنازعے کی جانب متوجّہ کروانے کے لیے تو ایک بہترین فورم ہے، لیکن اس کے حل کے لیے فریقین کا آمادہ ہونا لازمی ہے۔ تاہم، عالمی رہنما جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز میٹنگز کو سفارت کاری کے ایک اہم ٹُول کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور عموماً یہ ملاقاتیں کسی اہم پیش رفت پر منتج ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سائیڈ لائنز میٹنگز کی افادیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح اس بین الاقوامی فورم کو مختلف ممالک کے رہنما اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

یو این جی اے کا ہنگامہ خیز اجلاس اور پاکستان کا بیانیہ
ہیوسٹن میں مودی ٹرمپ کے ساتھ جلسہ گاہ کا چکر لگارہے ہیں

بہر کیف، یو این جی اے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک روانہ ہونے سے قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس فورم کو کشمیر کا مقدّمہ لڑنے کے لیے استعمال کریں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وزیرِ اعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی سے خطاب، ٹرمپ سمیت دوسرے عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں، کاؤنسل آف فارن ریلیشنز جیسے معتبر ادارے سے خطاب اور امریکی میڈیا سے بات چیت میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کیا۔ 

نیو یارک میں قیام کے دوران وہ اپنے پُر زور دلائل کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کو متواتر اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرتے رہے۔ عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب کا دورانیہ 50منٹ سے زاید تھا اور اپنی اس پُر جوش تقریر میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور دُنیا بَھر میں مسلمانوں پر جاری مظالم کو اجاگر کرنے کے علاوہ بھارت اور نریندر مودی کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔ 

یو این جی اے کا ہنگامہ خیز اجلاس اور پاکستان کا بیانیہ
نیویارک میں امریکی صدر سے عمران خان کی ملاقات کا ایک منظر

انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ دُنیا اور اقوامِ متّحدہ بھارت کو اپنی کشمیر پالیسی بدلنے پر مجبور کرے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ وارننگ بھی دی کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ ہوئی، تو پاکستان آخری حد تک جائے گا اور ایٹمی جنگ کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متّحدہ نے کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا اور اب یہ عہد پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ قبل ازیں، ٹرمپ سے ملاقات میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’آپ دُنیا کے سب سے طاقت وَر مُلک کے صدر ہیں۔ آپ کشمیر میں کرفیو ختم کروائیں۔ یہ آپ کا فرض بھی ہے۔‘‘

عمران خان اور اُن کے رفقا کی کوششوں کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ افغانستان کے علاوہ کشمیر بھی جنوبی ایشیا کا ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور ان دونوں ہی سے پاکستان کا گہرا تعلق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈائون کی وجہ سے کشمیری مسلمان اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کاروبارِ زندگی ٹھپ پڑا ہے۔ کشمیری رہنما قید و بند کی صعوبتیں جَھیل رہے ہیں۔ 

نیز، آزادیٔ اظہار پر پابندی عاید ہے اور پاکستان اس بُحران سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے خود اس بُحران کو دعوت دی۔ گرچہ پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا، لیکن اس کے نتیجے میں کشمیری رہنمائوں کو ملنے والی آزادیٔ اظہار اور کشمیری باشندوں سے روابط کی وجہ سے اسے برداشت کر رہا تھا۔ تاہم، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے اور وہاں کرفیو کے نفاذ کے بعد پاکستان کو اپنا ردِ عمل ظاہر کرنا پڑا۔ 

اسی لیے عمران خان نے کہا کہ ’’کرفیو اٹھا کر دیکھ لیا جائے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔‘‘ مزید برآں، انہوں نے امریکی صدر سے بھی کرفیو اٹھانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالنے کی درخواست کی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ متعدد مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں، لیکن وہ اسے فریقین کی رضامندی سے مشروط کرتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عمران خان اور مودی اُن کے اچھے دوست ہیں اور ان دونوں کو مل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ نیز، وہ علاقے میں تنائو کم کرنا چاہتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ پاکستان میں ٹرمپ پر جتنی سخت تنقید کی گئی، شاید ہی کسی دوسرے امریکی صدر پر کی گئی ہو۔ البتہ عمران خان کہتے ہیں کہ ٹرمپ ہی وہ واحد فرد ہیں کہ جو مسئلہ کشمیر حل کروا سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے تمام اختلافات ختم کروانے میں مدد کی پیش کش کی ہے اور یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ غالباً وہ دُنیا کے واحد لیڈر ہیں، جنہوں نے پاک، بھارت تنازعات کے حل کے لیے ذاتی دِل چسپی کا اظہار کیا ۔ تاہم، بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات ٹرمپ کی انتخابی مُہم کا حصّہ بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان، مودی سے بات نہیں کرنا چاہتے اور مودی ثالثی پر آمادہ نہیں، تو یہ معاملہ کیسے آگے بڑھے گا؟

یو این جی اے اجلاس میں کچھ ایسے واقعات بھی رُونما ہوئے کہ جنہوں نے سفارت کاروں کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر دیے۔ اس موقعے پر مودی اور ٹرمپ نے ہیوسٹن میں بھارتی تارکینِ وطن سے خطاب کیا۔ خطاب کے دوران ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز رہنمائوں کے علاوہ 25سے زاید امریکی ریاستوں کے گورنرز بھی موجود تھے۔ اس دوران میئر ہیوسٹن نے مودی کو شہر کی چابی پیش کی اور مودی نے بھارت، امریکا قربت کا ذکر کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جلسہ گاہ کا چکر بھی لگایا۔ 

بھارتی تارکینِ وطن سے اپنے خطاب میں مودی نے حسبِ معمول دہشت گردی اور شدّت پسندی پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں مودی سے متعلق غیر معمولی تعریفی کلمات ادا کرنے کے علاوہ ’’اسلامی شدّت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں شرکت کا اظہار بھی کیا۔ تاہم، ون ٹو ون ملاقات کے بعد کشمیر کے بارے میں کیے گئے سوال کا جواب دینے کی بہ جائے ٹرمپ نے کہا کہ ’’مودی اس کو ہینڈل کرلیں گے۔‘‘ اس جلسے سے اُن پاکستانیوں کو بے حد مایوسی ہوئے کہ جو ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں اور وہ مختلف ممالک کے رہنمائوں کو خوش اور ناراض کرنے کے لیے بھی غیر متوقع بیانات دیتے رہتے ہیں۔ در حقیقت، وہ ایک تاجر ہیں ، جو کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ ہیوسٹن جلسے سے جہاں مودی کو امریکا اور عالمی سیاست میں بھارتی اثر و رسوخ کے اظہار کا موقع ملا، وہیں ٹرمپ کو آیندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے کچھ مواقع بھی میسّرآئے۔ 

ہمیں مایوس ہونے سے قبل یہ جان لینا چاہیے کہ امریکا میں مقیم بھارتیوں کی تعداد کم و بیش 50لاکھ ہے، جب کہ پاکستانی صرف6لاکھ ہیں۔ پھر ان بھارتی باشندوں کے معاشی حالات بھی پاکستانیوں کی نسبت خاصے بہتر ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس، تعلیمی اداروں اور تحقیق میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ 

واضح رہے کہ امریکا کی کم از کم 10بڑی کمپنیز کے سربراہ بھارتی ہیں، جن میں مائیکرو سافٹ اور ماسٹر کارڈ جیسے منافع بخش ادارے شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے امریکا اور دوسرے ممالک میں اپنا اثر و نفوذ کیسے بڑھایا۔ تاہم، یہ مودی حکومت کا کارنامہ نہیں، بلکہ بھارتی پالیسی کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا، ہمیں سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم امریکا کا قریب ترین حلیف ہونے کے باوجود یہ مقام حاصل کیوں نہیں کر پائے۔ 

دراصل، پاکستانی تارکینِ وطن صرف معمولی ملازمت ہی کو معراج و منزل سمجھتے رہے۔ اس وقت برطانیہ میں کم و بیش 10لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، لیکن انہیں پس ماندہ ترین کمیونٹی سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ہم تارکینِ وطن کے معاملے میں بھی استعداد پر تعداد کو فوقیت دیتے رہے۔ اگر بھارتی باشندوں کی طرح پاکستانی بھی امریکا میں اہم عُہدوں پر فائز ہوتے، تو ہم بھی ہیوسٹن جیسا جلسہ منعقد کر سکتے تھے۔ 

بد قسمتی سے ہم اپنی پس ماندگی کا ذمّے دار سازشوں کو ٹھہراتے ہیں اور یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں کہ عزّت و وقار کا پیمانہ مضبوطی اقتصادی روابط اور مستحکم معیشت ہے۔سو، ہمیں اپنے رویّوں کو بدلنا ہو گا۔

ہیوسٹن جلسے کے علاوہ اقوامِ متّحدہ کے ذیلی ادارے، ہیومن رائٹس کائونسل اور جنرل اسمبلی سے مودی کے خطاب میں بھی پاکستان پر شدّت پسندی اوردہشت گردی کے الزامات عاید کیے گئے۔ بد قسمتی سے دُنیا ان الزامات کو دُرست سمجھتی ہے۔ گرچہ اس ضمن میں عمران خان نے فارن افیئرز کائونسل میں خاصی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُن کی تیاری مکمل نہیں تھی۔ 

اس موقعے پر انہوں نے القاعدہ کو تربیت فراہم کرنے کے بارے میں جو بات کی، وہ نہ صرف غلط تھی، بلکہ ایک الزام کی تصدیق کے مترادف بھی تھی۔ اس پر اندرونِ مُلک بہت زیادہ تنقید ہوئی اور عمران خان کے رفقا وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ علاوہ ازیں، ہم ہیومن رائٹس کائونسل میں قرار داد پیش کرنے کے لیے 16ووٹ بھی حاصل نہیں کر پائے اور یہ معاملہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کے رسمی بیانات، ملاقاتوں اور وضاحتوں تک محدود رہا۔

اگر یہ قرار داد پیش ہو جاتی یا 47رُکنی کائونسل کے ایجنڈے ہی پر آ جاتی، تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوتی۔ ہم ابھی تک دہشت گردی اور شدّت پسندی کے جواب میں اپنا مؤثر بیانیہ پیش نہیں کر سکے۔ اس سلسلے میں بعض اسکالرز نے کام کیا ہے اور ہمیں اس سے استفادے کی ضرورت ہے۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کو فراموش کر چکی ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان کی ’’سولو فلائٹ‘‘ اتنی مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی، جتنی کہ مربوط قومی کاوش۔ 

اس ضمن میں اندرونِ مُلک مفاہمت ایک اہم ترین جُزو ہے، لیکن خان صاحب اس پہ آمادہ نہیں۔ ناقدین یہ سوال پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ اندرونِ مُلک اہم اپوزیشن لیڈرز جیل میں ہیں، حالاں کہ ان پر ابھی کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہوا، تو ایسے میں دوسروں سے آزادیٔ اظہار کا مطالبہ کیسے جائز ہے۔ اس مقصد کے لیے عمران خان کو ذاتیات سے بلند ہونا پڑے گا اور یہ ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔

سفارتی ماہرین کا ماننا ہے کہ دو نکات کی بنیاد ہی پر کشمیر کے مقدّمے کو مضبوط اور قبولِ عام بنایا جا سکتا ہے۔ پہلا نکتہ یہ اٹھانا پڑے گا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق خطرے میں ہیں اور ایک کمیونٹی کو اس کے حقِ زندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آزادیٔ کشمیر کشمیریوں کی آواز ہے اور کشمیریوں کی حقیقی قیادت کو اس تحریک کی قیادت سنبھالنی ہو گی، جب کہ ہم اُن کی معاونت کر سکتے ہیں۔ یہ متفقہ کشمیری قیادت ہی اقوامِ عالم سے معاملات طے کرے۔ 

اس سلسلے میں فلسطین میں یاسر عرفات، ویت نام میں ہوچی منہ اور جنوبی افریقا میں نیلسن منڈیلا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر ان نکات پر عمل نہ کیا گیا، تو مسئلہ کشمیر تلخ بیانات اور جنگ کی دھمکیوں کی نذر ہو جائے گا اور دُنیا کا طاقت وَر ترین صدر بھی کچھ نہ کر سکے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیریوں کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے تسلسل سے کوششیں کی جائیں اور اسے سیاسی جدوجہد کا حصّہ بنا کر اس پر قومی اتفاقِ رائے قائم کیا جائے۔ 

واضح رہے کہ ایک تسلیم شدہ کشمیری قیادت کے لیے دُنیا کو مطمئن کرنا اور بھارت پر دبائو ڈالنا بہت آسان ہو گا۔ یہ پاکستان کا سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ماہرین اور ناقدین اس اَمر کی جانب بھی توجّہ دلاتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی، پاکستان کی اقتصادی مضبوطی سے مشروط ہے، جب کہ اس وقت ملکی معیشت جس نازک دَورسے گزر رہی ہے، وہ کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ ہمیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ 

برآمدات ریکارڈ سطح پر پہنچانی ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور اس مقصد کے لیے امن کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، کیا یہ مناسب ہو گا کہ ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اعلیٰ سطح کے عالمی رہنمائوں کے سامنے بار بار ایٹمی جنگ کا ذکر چھیڑا جائے۔ کیا اس کے سبب بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں کھڑی نہیں ہوں گی، جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

ان چیلنجز پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں توازن لانا ہو گا، کیوں کہ ملک کی معاشی ترقّی اور اپنے شہریوں کے بہتر معیارِ زندگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں دُنیا کو یہ باور کروانا ہو گا کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ مُلک ہے اور اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

دوسری جانب دُنیا کی سب سے بڑی سعودی آئل کمپنی، آرامکو کی تنصیبات پر حملے کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم، ایک دوسرے کے خلاف تُند و تیز بیانات کے باوجود امریکا اور ایران نے کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا ۔ 

ٹرمپ اور روحانی نے اپنا مقدمّہ اقوامِ متّحدہ کے پلیٹ فارم کے ذریعے دُنیا کے سامنے رکھا۔ قبل ازیں، برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن، جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل اور فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں نے مشترکہ طور پر ایران ہی کو حملے کا ذمّے دار ٹھہراتے ہوئے امریکی مؤقف کی تائید کی تھی، جب کہ ایران اس واقعے کا ذمّے دار حوثی باغیوں کو قرار دیتا ہے۔ 

ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر مشرقِ وسطیٰ میں افراتفری اور عدم استحکام کا سبب ایران اور اُس کی پراکسیز کو قرار دیا۔ اس ضمن میں انہوں نے آرامکو پر حملے کے علاوہ شام، یمن اور اُن دوسرے خطّوں کا ذکر کیا، جہاں اُن کے بہ قول ایران نے مداخلت کی۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عاید کی ہیں اور ایران کے رویّے کے پیشِ نظر یہ برقرار رہیں گی۔ ایرانی صدر، حسن روحانی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ان الزامات کا تفصیلی جواب دیا۔ اس موقعے پر انہوں نے امریکا پر شدید تنقید کی، جب کہ عرب ممالک کو امن کی پیش کش کی۔ 

اسے ایرانی رویّے میں مثبت تبدیلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا ماننا ہے کہ اگر نیوکلیئر ڈِیل کے وقت ہی عربوں کو اعتماد میں لے لیا جاتا، تو نتائج مختلف ہوتے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطی کی افراتفری میں امریکا کا کردار نمایاں ہے اور غیر ملکی افواج خطّے کے مسائل کے حل اور سلامتی کی ضامن نہیں ہو سکتیں۔ 

اپنے خلیجی پڑوسی ممالک کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پڑوسی تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔واضح رہے کہ حسن روحانی عالمی سطح کے سفارت کار ہیں اور اُن کے کریڈٹ پر نیوکلیئر ڈِیل جیسا عالمی معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے خطّے میں ایران کی اہمیت منوائی۔ تاہم، ایران کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس کا غیر معمولی فعال کردار مشرقِ وسطیٰ پر کیا اثرات مرتّب کر رہا ہے۔ 

ایران نے صدام حسین کی شکست کے بعد عراق میں امریکی ایما پر بننے والی مالکی حکومت کی حمایت کی اور تمام تر نا اہلی کے باوجود کم و بیش 10برس تک اُسے سپورٹ کرتا رہا۔ نتیجتاً، کُردستان کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا اور عراق کے بکھرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ اُس زمانے میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز بغداد کی سڑکوں پر کُھلے عام اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتیں۔ اگر امریکا، عراقی حکومت کو فوجی طور پر سہارا نہ دیتا، تو وہ داعش کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی۔ 

دل چسپ اَمر یہ ہے کہ اُس وقت ایران نے امریکی فوجی امداد پر کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اسے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی کام یابی قرار دیا۔ گو کہ اس دوران ہزاروں بے گناہ شہری جاں بہ حق ہوئے۔ اسی طرح 2011ء کے بعد ایران نے کُھل کر شام میں بشار الاسد کی حمایت کی اور شامی خانہ جنگی کے دوران انہیں بھرپور مالی و فوجی معاونت فراہم کی۔ لہٰذا، اگر ایران، امریکا کو غیر علاقائی طاقت قرار دیتا ہے، تو پھر رُوس کی شام میں فوجی مداخلت اور شامی مسلمانوں پر مستقل بم باری کس زمرے میں آئے گی۔ 

اس وقت شام کی آبادی میں بشار الاسد کے سپورٹرز کی تعداد فقط8فی صد ہے، لیکن انہوں نے فوجی طاقت کے بل پر اپنے 92فی صد مخالفین کو کچل کر رکھ دیا، جب کہ ایران اور رُوس اس عمل کی نہ صرف کُھل کر حمایت کرتے ہیں، بلکہ اسے جائز قرار دینے کے لیے مختلف جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ شام کی خانہ جنگی کی وجہ ہی سے آگ کی لپیٹ میں ہے، جب کہ ایران اور رُوس اسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ قرار دے کر اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایرانی صدر اپنے پڑوسیوں کو خبر دار کر رہے ہیں۔

امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا سلسلہ معطّل ہونے کے بعد افغانستان میں دوبارہ خوں ریزی شروع ہو چکی ہے۔ ان مذاکرات کو کام یاب بنانے کے لیے پاکستان نے بھرپور کوششیں کی تھیں اور عمران خان نے ٹرمپ کو بتایا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ یاد رہے کہ ٹرمپ طالبان کے ساتھ معاہدے کو اپنی صدارتی مُہم میں ایک اہم کارڈ کے طور پر پیش کرنے کے خواہش مند ہیں اور طالبان بھی تھک چکے ہیں۔ 

اگر وہ افغانستان میں اپنی پُر تشدّد کارروائیاں بڑھاتے ہیں، تو امریکی افواج کے حملوں میں بھی شدّت آ جاتی ہے۔ اس موقعے پر افغان صدر، اشرف غنی کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں برتری حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں اور طالبان ان کے جونیئر پارٹنر کے طور پر اقتدار میں شریک ہوں۔ تاہم، ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ گرچہ افغان عوام کُشت و خوں سے بے زار ہو چکے ہیں اور شدید پریشانی کا شکار ہیں، لیکن خوں ریزی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ 

اس خوں ریزی کو مذاکرات اور سیاسی عمل ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے خطاب میں چین سے تجارتی تعلقات پر خاصا وقت صَرف کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے اپنی روایتی پالیسی دُہراتے ہوئے کہا کہ چوں کہ دو طرفہ تجارت سے امریکا کو بہت گھاٹا ہوا، چناں چہ انہوں نے چینی درآمدات پر 500 ارب ڈالرز کے ٹیکسز عاید کیے، جب کہ چین نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ اب محبِ وطن لیڈرز کا دَور ہے، جو اپنے ملک کو اوّلیت دیتے ہیں اور دوسرے ممالک سے تعاون چاہتے ہیں۔

تازہ ترین