کراچی میں مچھیروں کی تاریخی آبادی، ابراہیم حیدری، کی مچھیروں کی گودی میں لہروں میں لڑکھراتی اپنی کشتی کولنگر اندازکر کے جال اتارتے اور پلاسٹک کی ٹوکریاں خالی کرتے ہیں۔آخر میں چھوٹی مچھلیوں پر مشتمل اپنے شکارکو جمع کرتے ہیں۔تین دن کی محنت ہر ایک مچھیرے کو تین ہزار پاکستانی روپے (تیس امریکی ڈالر) دلائے گی، کیوں کہ ان کے شکار کو مچھلیوں کی خوراک بنانے والی فیکٹریاں ہی خریدیں گی اور وہ بھی بازار کی قیمت سے کم دام میں ۔ساحلوں کے قریب مچھیروں کو مچھلیاں نہیں ملتیں اور اسی لیے،انہیں شکار کی تلاش میں کھلے سمندر میں جانا پڑتا ہے۔
مچھیروں کےاس قدیم ترین گاؤں کے باسیوں کی قسمت ان کا ساتھ چھوڑ رہی ہے، کیوں کہ انھیں پاکستان کے سب سے بڑے شہرکی ہردم بڑھتی آلودگی کا سامنا ہے، انھیں کھلے سمندر میں جانے اور مچھلی کی تلاش میں کئی دن گزارنے کے لیے طاقت ور موٹر بوٹس، پہلے سے بڑے جالوں اورزائد افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔کوڑاکرکٹ اور غلاظت سمندر میں ڈالنے سے مچھلیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
مچھیروں کی گودی سے چند ہی گز دور کوڑے کے ڈھیر ساحل پر ڈال دیے گئے ہیں۔گاؤں کے بالکل پاس ایک بڑا گندا نالا ہے۔اس سے سفید جھاگ کے نیچے دھواں دار سیاہ پانی سمندر میں گرتا ہے۔ یہ زہریلا سیال شہر کی پیداوار ہے۔کراچی کے چھ صنعتی علاقوں میں دس ہزارصنعتی یونٹ ہیں جو ٹیکسٹائل سے لے کر کیمیکلز اور پینٹس تک سب کچھ بناتے ہیں۔ کیمیکل فضلہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ آلودگی کا باعث چمڑا رنگنے کے کارخانے ہیں۔
حکومتی تخمینہ کے مطابق کراچی تقریباً پانچ سو ملین گیلن روزانہ کے حساب سے گندا پانی پیدا کرتا ہے۔ تقریباً پانچواں حصہ ان صنعتوں سے جب کہ باقی گھریلو یا بلدیاتی نکاس سے۔”تقریباً تمام ترگھریلو یا بلدیاتی اور صنعتی گندا پانی سمندر کا حصہ بننے سے پہلے صاف نہیں ہوتا اور یہ آفت کا باعث ہے کیوں کہ اس سے مچھلی کا شکار ختم ہورہا ہے اور سمندری حیات بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
قانون کے مطابق صنعتی اداروں کے مالکان صنعتی فضلہ کی صفائی اور گندے پانی کو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر ٹھکانے لگانے کے ذمہ دار ہیں، مگر فیکٹری مالکان کا خیال ان سے مختلف ہے۔”زیادہ تر صنعتیں پانچ یا چھ دہائیاں پہلے قائم ہوئی تھیں اور اب فیکٹریوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کی جگہ نہیں ہے ۔
حکومت کےپاس صنعتی گندے پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ تو ہے، مگر اس پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔”کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ایک بڑا ٹریٹمنٹ پلانٹ شروع کیا گیا تھا ،مگر اب وہ کام نہیں کررہا۔
کراچی میں کوڑے کرکٹ کے لیے جگہیں متعین نہیں ، اس وجہ سے کوڑا کرکٹ یا ٹھوس فضلہ، جس میں پلاسٹک بھی شامل ہوتا ہے، سمندر میں براہ راست یا بارشی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے جومون سون کے سیلاب کے بعد بالآخر سمندر میں جا گرتے ہیں۔
تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے سندھ اینوارنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے اعدادوشمار کے مطابق بہت سا فضلہ مویشیوں کی بہت بڑی مقامی کالونی سے بھی آتا ہے، جس میں دس لاکھ کے قریب جانور ہیں جن میں گائے اور بھینسیں شامل ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والا فضلہ بھی سمندر ہی میں ڈالا جاتا ہے۔
ان ہی ساحلوں پر قائم پاکستان کے دوچلتی بندرگاہیں، کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ، بھی آلودگی میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ارباب اختیار کا کہنا ہے کہ سمندر کو صاف رکھنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں، مگر پاکستان گیم فش ایسوسی ایشن کے مطابق یہ بندرگاہ “شاید دنیا بھر میں آلودہ ترین ہے”۔قرب وجوار میں جہازوں سے تیل بہنے کے واقعات عام ہیں اور 2003 کا تسمان سپرٹ کا تیل بہنے کا واقعہ تو دنیا بھر میں بد ترین واقعات میں شمار ہوتا ہے۔
کراچی پورٹ کے قریب تسمان سپرٹ نامی یونانی جہاز پھنس جانے اور جہاز سے ہزاروں ٹن خام تیل بہنے سے ساحل آلودہ ہوگیا اورعلاقے میں ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں اور پرندے جان سے گئے۔ اس حادثہ کے اثرات ابھی تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
جانداروں اور ان کے ماحول سے متعلق ماہرین کو بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے تشویش لاحق ہے۔انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ریسورسز(آئی یو سی این) پاکستان سے وابستہ معروف ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ آلودگی نے مچھلی کے شکار اورسمندری حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔”مقامی افراد کو بعض اوقات سبز کچھوے اورفیل ماہی (سمندری میمل) ایسے جانور بھی مردہ حالت میں ساحل کے ساتھ ساتھ ملتے ہیں، جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔
ان کی موت آلودگی کے باعث ہوتی ہے، خاص طور پر پلاسٹک کے فضلہ کے سمندر میں پھینکنے سے، صنعتی فضلے کے سمندر میں گرنے سے مچھلیوں کی بہت سی اقسام اب بحیرہ عرب میں نایاب ہو چکیں ہیں۔