• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدلتے وقت کے سانچے میں ڈھل گئی دنیا
میں پیچھے رہ گیا، آگے نکل گئی دنیا
تجھی کو آتا ہے پتھر کو موم کر دینا
تری نگاہ پڑے اور پگھل گئی دنیا
آج کے اخبارات میں آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کی خبریں پڑھ کر نہ جانے کیوں میرے ذہن میں احمد وصی کے مندرجہ بالا رومانی اشعار خود بخود امڈ آئے۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سمجھ تو نہیں آیا لیکن خیال یوں ہے کہ جب امریکا نے افغانستان سے نیٹو فوجوں کو 2014ء میں واپس لے جانے کی تیاری کا عمل شروع کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ زور، دھمکی ، اسلحہ، ڈرون تو استعمال کر کے دیکھ لیا کچھ افاقہ نہیں ہوا تو انہوں نے پرانے اور مایوس مریضوں کی طرح ہومیو پیتھک کے سستے اور سست علاج کا ایک تیر یوں پھینکا کہ طالبان سے مذاکرات کر کے دوستی کا عمل شروع کیا جائے اور جو جنگ وہ میدان میں ہار گئے یا ہار رہے ہیں اسے مذاکرات کی میز پر جیت لیا جائے۔ میری معلومات صرف اخباری خبروں تک ہی محدود ہیں اس لئے ہو سکتا کہ میرے تجزیئے میں کچھ تشنگی رہ جائے کیونکہ اندر کی بات تو مجھے معلوم ہی نہیں اور اندر کی بات کوئی بتاتا بھی نہیں۔
مگر جو بات سمجھ میں آر ہی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب امریکہ اور لندن میں طالبان سے مذاکرات کے ذریعے امن کی باتیں چلیں اور کچھ میٹنگیں اور کچھ کانفرنسیں ہوئیں تو ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں کو بھی بیداری آئی یا بیدار کیا گیا اور 24جماعتوں نے مل کر کانفرنس کی اورمشترکہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان 24پارٹیوں میں جماعت اسلامی ، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام نظریاتی نے شرکت نہیں کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہی مذاکرات گیارہ سال پہلے بھی ہو سکتے تھے۔کتنی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتیں ،کتنے لوگ تباہی کا منظر نہ دیکھتے۔ اس وقت ہماری24سپاسی پارٹیوں کو خیال نہیں آیا کہ وہ کوئی اس طرح کی کانفرنس کر کے یہی مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیں جو آج کیا ہے ۔میرے جیسے عام آدمی کے ذہن میں تو اسکی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے کہ اس وقت امریکہ بہادر کی پالیسی یہ نہیں تھی بلکہ مارنے اور فنا کرنے کی پالیسی تھی لہٰذا ہماری پارٹیوں کے پاس کہیں سے کوئی اشارہ امن کانفرنس کے انعقاد کا نہیں تھا لہٰذا گیارہ یا بارہ سال تک24پارٹیاں محو خواب خرگوش رہیں۔ کچھ تو اقتدار کے مزے بھی لوٹتی رہیں ۔ اب جب اقتدار کی مدت پوری ہو رہی ہے تو آنے والوں کو بھی پابند کر رہے ہیں کہ اگر کوئی منحرف ہوا تو گریبان پکڑیں گے ایک اور خوبصورت ڈائیلاگ بھی اخبار میں شائع ہوا ہے ” خون آلود دامن خون سے نہیں دھل سکتا ۔مسئلے کا حل آئینی حدود میں ہونا چاہئے ۔“ مجھے اس سارے واقعے پر اشرف شاد کے یہ اشعار یاد آئے قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
ہاتھوں کو کاٹ کر کبھی دستار بیچ کر
دیکھا ہے میں نے خود کو کئی بار بیچ کر
سودا عجیب کرنے لگا ہے امیر شہر
سونا خرید لایا ہے تلوار بیچ کر
دارو رسن کی راہ دکھاتے تھے شاد جو
پہنچے ہیں منزلوں پر وہ دستار بیچ کر
یہ تو ایک تجزیہ تھا جو میں نے لکھ دیا لیکن حقیقت میں تو رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بھی ہو بہتر ہو، غریب نہتے لوگوں کا خون بہنا بند ہو ،امن اور انصاف کا دور دورہ ہو۔اور عام آدمی کو روزی روٹی میسر ہو۔ اس کے بچوں کی تعلیم اور صحت کا بندوبست ہو ہمارا خطہ امن کا گہوارہ بنے۔ نوجوان بندوق اٹھانے کی بجائے کتاب اور بیلچہ اٹھائیں۔ کسان کھیتوں سے اپنے اور اپنی اولاد کے لئے گندم ،فروٹ، چاول اور خدا کی وہ تمام نعمتیں جو اس نے انسانوں اور حیوانوں کو عطا کی ہیں وہ اگائیں اور مل بانٹ کر کھائیں۔ خدا ہمارئے قائدین کو بھی یہ جرات اور حوصلہ دے کہ وہ فیصلے وقت پر کیا کریں۔ اشارہ ملنے پر نہ کیا کریں۔ کیونکہ اشارہ ملتے ملتے بہت دیر ہو جاتی ہے اور جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے اسکا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔خاص طور پر جانی نقصان، مالی نقصان تو کسی نہ کسی طرح کبھی نہ کبھی پورا ہی ہو جاتا ہے۔ مگر جو شخص اس دنیا سے بے گناہ اندھی گولی کے ہاتھوں رخصت ہو گیا وہ دوبارہ واپس نہیں آ سکتا۔ امن بھی آ جائے گا ۔کانفرنسیں اور مشترکہ اعلامیئے بھی جاری ہوتے رہیں گے مگر جو شخص بے گناہ اس جہان فانی سے نامعلوم دشمن کے ہاتھوں نہ معلوم وجہ پر چلا گیا اس کا نقصان کون پورا کرے گا ۔ آخر میں ناصر کاظمی کے ان اشعار پر کالم ختم کرتا ہوں۔
او میرے معروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
سورج سر پہ آن پہنچا
گرمی ہے یا روز جزا
گوادر بندرگاہ، چین و بھارت
تازہ ترین