• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں گفتار کے غازی بھی ہوتے ہیں اور کردار کے بھی۔ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت اور انفرادیت ہے۔ گفتار کے ذریعے ہم لوگوں تک اپنے خیالات اور افکار پہنچاتے ہیں جبکہ کردار کے ذریعے ذہنوں کو مسخر کرتے ہیں۔

ان دونوں کے مابین ایک ارتقائی تعلق بھی ہے کہ اگر خیال کا بیج صحت مند ہو، تو اس سے اچھے اعمال کی کونپلیں پھوٹتی اور شاخیں پھیلتی ہیں۔ پھر ایک مہکتا ہوا درخت وجود میں آتا ہے۔

ضرب المثل ہے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ ہم نے اس عظیم الشان حقیقت کا منظرنامہ جمعۃ المبارک کو رات اُس وقت دیکھا جب پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان نے کشمیر کے سفیر کی حیثیت سے اقوامِ عالم کے اعلیٰ ترین ادارے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ تقریر کیا تھی، ایک سحر تھا اور ایک برقِ تپاں تھی۔

مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تمام قابلِ ذکر دارالحکومتوں میں بڑی توجہ اور غیرمعمولی انہماک سے سنی اور محسوس کی گئی۔ دنیا کے معروف روزناموں اور ہفت روزوں نے اسے تاریخ کا اہم ترین خطاب قرار دیا۔ بھارت پر سکتہ طاری ہوگیا جبکہ اہلِ کشمیر اور اہلِ پاکستان کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔

مشاہد حسین سید جیسے دانشور اور زیرک سیاستدان کی زبان سے بےاختیار نکلا کہ واہ، بہت شاندار تقریر تھی۔ بلاول بھٹو نے بھی اسے اچھا قرار دیا ہے۔ ایک عالم اس حقیقت کا معترف ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی وکالت کا حق ادا کر دیا ہے۔

بعض حلقے نکتہ چیں ہیں کہ پوری تقریر مظلوم کشمیریوں کی دکھ بھری بپتا اور حقِ خودارادیت کے موضوع پر مبنی ہونا چاہئے تھی۔ اقوامِ متحدہ کو پوری قوت کے ساتھ احساس دلایا جاتا کہ سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کو یہ ضمانت دی تھی کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصواب رائے سے کرسکیں گے اور انہیں پاکستان یا بھارت میں سے کسی مملکت میں شامل ہونے کی آزادی ہوگی۔

بہتّر برسوں میں اس حق خوداِرادیت کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور ہوئیں مگر بھارت بڑی ڈھٹائی سے ان پر عمل کرنے سے انکار کرتا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا۔ اب اس نے تمام آئینی تقاضے، عالمی نظائر اور دوطرفہ معاہدے پامال کرتے ہوئے دفعات 370اور 35A منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنی حدود میں شامل کرلیا ہے اور وہ نسل کشی کے ذریعے مسلم کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اس بنیاد پر جناب عمران خان کو اپنی تقریر میں سیکورٹی کونسل سے یہ دوٹوک مطالبہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ باب سات کے تحت بھارت کے خلاف طاقت استعمال کرے، محصور کشمیریوں کو تمام پابندیوں سے رہائی دلائے اور اسے فوری طور پر 5؍اگست سے پہلے کی حیثیت بحال کرنے پر مجبور کیا جائے۔

جناب وزیرِاعظم نے اقوام متحدہ کو اس کی غفلت اور ناکامی پر حرف تنقید بنایا ہے اور کمال تدبر سے کام لیتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کو اپنی تقریر کا چوتھا نکتہ بنایا، اگر وہ اسے پہلا نکتہ بنا لیتے اور اس پر اپنا زورِ بیان صرف کرتے، تو سننے والوں کے سینے پھٹ جاتے اور کائنات ہوش و حواس درہم برہم ہو جاتی۔

اُنہوں نے اپنی بات موسمی تغیرات سے شروع کی اور طاقتوروں کے استعماری ہتھکنڈے بےنقاب کرتے ہوئے تقریر کا نکتہ عروج مسئلۂ کشمیر کو ٹھہرایا اور تفصیل سے بتایا کہ اکیسویں صدی کا ہٹلر نریندر مودی عالمی امن اور انسانی تہذیب کے لئے کس قدر خطرناک ہے، اگر عالمی طاقتوں نے اس کا ہاتھ نہ روکا تو بہت سارے انسانی المیے وجود میں آسکتے ہیں اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم سے پورا عالمِ انسانیت متاثر ہوسکتا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری کو ان اقدامات سے پیشگی مطلع کر دیا ہے جو مودی سرکار اپنے خطرناک عزائم کے لئے بروئے کار لاسکتی ہے۔ ایک ’’دیدہ ور‘‘ سے آپ اس سے زیادہ اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ بلاشبہ تقریریں جنگ نہیں جیت سکتیں مگر وہ فتح یابی کی فضا تیار کرتی ہیں۔

حضرت غالب کا فلسفہ یہ ہے کہ لطافت بےکثافت جلوہ پیدا نہیں کر سکتی۔ جناب عمران خان کی تقریر کی جلوہ آرائی میں بعض ناگفتنی باتیں بھی آئی ہیں۔ ان کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ افغانستان کے معاملے میں امریکہ کا کردار منافقانہ رہا ہے۔

جب اسے سوویت یونین کی شکست و ریخت مقصود تھی، تو اس نے’’مجاہدین‘‘ کی بڑی آؤ بھگت کی، انہیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا اور جب کام نکل گیا تو وہ افغانستان کو بےیارو مددگار چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں بہت خون خرابہ ہوا۔

نائن الیون کے بعد اس نے اتحادی فوجوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کردی اور ’’مجاہدین‘‘ دہشت گرد قرار پائے جن کے ساتھ اٹھارہ سال سے جنگ جاری ہے جس میں پاکستان کے ستر ہزار سویلین اور فوجی شہید ہوئے اور اس کی معیشت کو 200؍ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ خان صاحب کی تقریر کا وہ حصہ حقیقت سے دور معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اداروں نے القاعدہ کی تشکیل، تربیت یا اسلحہ بندی میں حصہ لیا تھا۔

پاکستان تو ان سے برسرِپیکار اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پیش پیش رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے خطاب سے جو اچھے اثرات پیدا ہوئے ہیں، انہیں مودی سرکار کو راہ راست پر لانے کے لئے کس طرح مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے گا اور بھارت کے اسٹرٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگانا کیونکر ممکن ہوگا۔

جب تک سفارت کاری میں ضرب کلیمی سے کام نہیں لیا جائے گا، بھارتی استعمار کی حشر سامانیاں کم نہ ہوں گی۔ ضرب کلیمی کے لئے پاکستان میں داخلی استحکام، معاشی استقلال، سیاسی ہم آہنگی اور اچھی حکمرانی ازبس ضروری ہے۔

نریندر مودی کی فاش غلطی سے تنازع کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوتا جارہا ہے۔ عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کی انتہائی خراب صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

او آئی سی نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔چین، ترکی اور ملائیشیا نے دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔ امریکہ، یورپ اور برطانیہ میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے۔ پاکستانی قیادت اور عوام کو یہ موقع کمال دانائی سے اہلِ کشمیر کی آزادی کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔

تازہ ترین