• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملک کے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کی حالیہ ملاقات کے بارے میں ہر جگہ اور ہر حلقے میں تبصرے ہو رہے ہیں۔ ملاقات میں موجود لوگ اگر اس ملاقات کی ساری کہانی خود بیان کر دیں تو بھی تبصروں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ فوری طور پر ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی لوگوں کا تجسس کم ہوگا کیونکہ اس حوالے سے بھی اہم واقعہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی حمایت میں آگے بڑھ کر کام کرنے والے زیادہ تر بزنس ٹائیکونز نے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی اور اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اس اہم واقعہ پر لوگوں میں اس لئے تجسس پیدا ہوا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بزنس ٹائیکونز سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات کوئی غیر معمولی یا خلافِ معمول نہیں ہے۔ پاک فوج کے سربراہان مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں۔ سپہ سالار کو ملکی حالات سے واقفیت ہونا چاہئے اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ ملک کے داخلی، سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا براہ راست تعلق ملک کی سیکورٹی سے ہے۔ آرمی چیف سے بزنس ٹائیکونز سے ملاقات کو پاکستان کے معاشی حالات کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے اس وقت ملکی معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہے، جو ملک کے سیاسی اور داخلی استحکام کے لئے بھی خطرناک ہے۔ اس صورتحال میں کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر جو حالات پیدا ہوئے ہیں، اُنہوں نے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے سپہ سالار کو ان حالات سے آگاہ کریں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے حکمراں اور ان کی معاشی ٹیم سے انہیں کوئی مثبت ردعمل نہیں ملا ہوگا اور نہ ہی ان میں صلاحیت ہے۔ یہ حلقہ لازمی طور پر تحریکِ انصاف کی حکومت کا مخالف ہوگا جبکہ ایک دوسرے حلقے کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو درست کرنے اور اسے ٹریک پر لانے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت جو اقدامات کر رہی ہے، اُن کا اس حلقے کے مطابق آرمی چیف نے دفاع کیا ہے۔ اِس حلقے کی طرف سے سوشل میڈیا پر فرضی کہانیاں بھی وائرل کی جا رہی ہیں۔ یہ حلقہ یقینی طور پر حکومت کا حامی ہوگا۔

اصل حقیقت کیا ہے؟ آرمی چیف سے ملاقات میں شامل کچھ دوستوں سے آگاہی ملی لیکن اس ملاقات کے بعد کیا ہوا، اسے ہی لوگ ملاقات کا نتیجہ قرار دینگے۔ بزنس ٹائیکونز سے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے ان سے ملاقات کی۔ وزیراعظم سے ملاقات کا نتیجہ ایک کمیٹی کی تشکیل کی صورت میں نکلا، جو تاجروں اور صنعت کاروں پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی طے کرے گی کہ تاجروں اور صنعتکاروں کیخلاف قومی احتساب بیورو کون سا کیس دائر کرے گی اور کون سا کیس دائر نہیں کرے گی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کمیونٹی یا طبقے کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بارے میں مقدمات اور الزامات پر خود فیصلہ کرے کہ آگے اسکے خلاف یا اسکے کسی رکن کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہے یا نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نیب مقدمات کے حوالے سے سرمایہ داروں کی جو کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے آرمی چیف سے ملاقات کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

جمہوریت کی مختلف دانشوروں نے مختلف تعریفیں کی ہیں لیکن تاریخ نے قومی سرمایہ داروں کی تعریف کو درست قرار دیا ہے، جس کے مطابق جمہوریت اس معاشرے میں قائم ہو سکتی ہے جہاں سرمایہ داروں کی سیاسی بالادستی قائم ہو جاتی ہے، جس سماج میں سرمایہ داروں کی سیاسی بالادستی نہیں ہوتی وہاں آمریت معیشت پر قابض ہوتی ہے اور وہاں اس کی حکمرانی ہوتی ہے۔ قومی سرمایہ داروں نے ہمیشہ آمریت کے بجائے جمہوریت کی حمایت کی ہے۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ اگر سرمایہ دار قوم پرست یعنی قومی سرمایہ دار ہو تو اس کی حمایت کرنا چاہئے۔ قومی سرمایہ دار ان کے نزدیک وہ ہوتا ہے جو بیرونی سرمایہ داروں کی اپنے ملک میں مداخلت برداشت نہیں کرتا اور نہ صرف اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرتا ہے بلکہ دوسرے ملکوں کی منڈیاں بھی تلاش کرتا ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ اپنے ملک میں لگاتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں قومی سرمایہ داروں کو ہر طرح کا تحفظ دیا جاتا ہے، چاہے وہ کچھ بھی کریں لیکن یہ سب کچھ وہیں ہوتا ہے، جہاں قومی سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ قوم پرست سیاسی حکمراں ہوتے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام سرمایہ دار جمہوری ممالک میں اسی اصول پر چل رہا ہے۔

دنیا میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کثیرالقومی کمپنیوں کا مرہون منت ہے، جس میں ہر سامراجی اور سرمایہ دار ملک کی پالیسیاں یہی کمپنیاں بناتی ہیں اور وہ اپنے ملک سمیت دنیا میں جو بھی کریں، اس میں ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں جن سرمایہ داروں کو نیب کے مقدمات کے حوالے سے خصوصی رعایت دی گئی ہے وہ قومی سرمایہ دار کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہے۔ انہیں قومی سرمایہ دار بنانے کے لئے قوم پرست جمہوری سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ دنیائے عرب کی معیشتوں کی تباہی دیکھنے کے بعد پاکستان کی معیشت کو بھی بچانا ضروری ہے، جو اب تک قومی معیشت نہیں ہے۔ معیشت کو قومی بنانے اور اس کے تحفظ کیلئے قوم پرست سیاست کو بچانا ضروری ہے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی قوتیں کیا سوچ رہی ہیں، اس کے بارے میں غلط اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین