• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم ہمارا اجتماعی شعور مردہ ہوچکا ہے۔ہم میں سے ہر فرد اجتماعی ذمے داریوں کے شعور سے بے بہرہ ہوچکا ہے اور اسے یہ پتا ہی نہیں کہ اس کا کون سا عمل ملک وقوم اور خود اس کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔اس بے حسی کی بہت سی مثالیں روزانہ ہمارے سامتے آتی رہتی ہیں۔

چند ہفتے قبل سماجی رابطوں کی سائٹس پر کراچی کی ایک خاتون کی وڈیو بہت پھیلی تھی۔اس میں دکھایا گیا تھا کہ متموّل لوگوں کے ایک علاقے میں خاتون اپنی گاڑی سے اُترتی ہیں اور سڑک کے کنارے لگا ایک پودا جڑ سے اکھاڑ کر اسے اپنے ساتھ گاڑی میں لے جاتی ہیں۔

اسی طرح جہاں گاڑی کھڑی نہ کرنے کا بورڈ لگا ہو عین اس کے پاس گاڑی کھڑی کردی جاتی ہے۔جہاں تھوکنےپر پابندی کا بو رڈ نصب ہوتا ہے عین اس کے نیچے اور ارد گرد پان کی پیک کے بڑے بڑے نشانات نظر آتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب مناظر اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ قوم کے زیادہ تر افراد میں شہری شعور (سِوک سینس)نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ ہر جانب اُبلتے ہوئے گٹر اور بکھرا ہوا کچرا،بے ہنگم ٹریفک،تجاوزات کی بھرمار،پانی کا زیاں،بلا سوچے ،سمجھے درختوں کی کٹائی وغیرہ کے مظاہر دراصل ہم سے مثبت کاوش کا مطالبہ کررہے ہیں۔

گھسے پٹے اقدامات

حکومت سندھ نے گزشتہ دنوں کراچی کو صاف ستھرا بنانےکے لیے نوّے روزکے لیے دفعہ ایک سو چوّالیس کے تحت کچرا سڑکوں اور گلیوں میں پھینکنے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم نامہ جاری کیاتو یہ خبر سُن کر بہت افسوس ہوا۔

اگرچہ یہ قدم اچھا ہے،لیکن یہ دکھ ہوا کہ اب ہم اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ اس کام سے روکنے کے لیے بھی قانون کو حرکت میں لانا پڑرہاہے اور وہ بھی اس دین کے ماننے والوں کے لیے جس کی تعلیم یہ ہے کہ صفائی نصفِ ایمان ہے۔پھر یہ خیال بھی آیا کہ کیا ایسے اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟اس پر عقل نے جواب دیا کہ جب قوموں کا اجتماعی مزاج بگاڑ کی جانب چلا جاتا ہے تواسے سدھارنے کے لیے بہت موثر،ٹھوس اور طویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اقدام کراچی کے لیے کوئی نیا نہیں ہے۔اس سے قبل جولائی 2018 میں پہلی مرتبہ بلدیہ وسطی میں کچرا پھیلانے والے افراد کو باقاعدہ ایف آئی آر درج کراکے گرفتار کرایا گیا تھا۔عوام میں شہری شعور بے دار کرنے کے لیے بلدیہ وسطی نےفیصلہ کیا تھاکہ مختلف علاقوں میں رضاکار تعینات کیے جائیں گے ۔

اس ضمن میں دو جولائی2018کو بلدیہ وسطی، کراچی میں جاری صفائی مہم کو بہتر سے بہتر اور مزیدپر اثربنانے کے لیے لا ئحہ کو حتمی شکل دینے کے لیے چیئرمین بلدیہ وسطی، ریحان ہاشمی نے اپنے دفتر میں ضلع وسطی سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی افسران کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا جس میں صفائی مہم کو بہتر بنانے کے طریقوں پر غور وخوض کیا گیا تھا۔اجلاس میں افرادی قوت کےباقاعدہ نظام کے تحت اور چوبیس گھنٹے استعمال پر زیر دیا گیا تھا۔

اس موقعے اجلاس کے شرکا نے اس بات کوسب سے زیادہ اہمیت دی تھی کہ عوام کو معاشرے میں رہنے سہنے ، عوام کے عوام سے اور حکومت و عوام کے درمیان تعاون اور بہتر تعلقات کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور کوڑا کرکٹ پھینکنے سے روکنےکے لیے باقاعدہ بلدیاتی رضاکار تعینات کیے جائیں تاکہ وہ عوام کو صحیح جگہ پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کی تلقین کریں اور سمجھائیں کہ کوڑاکرکٹ صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے میں اْن ہی کافائدہ ہے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ سڑک پر کوڑاکرکٹ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس اجلاس میں کوڑا کرکٹ پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر زور دیا گیا تھا ۔ اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ کوڑا غلط جگہ پر پھینکنے کے الزام میں ذکریا اسکول، بلاک ایف،کوثر نیازی کالونی، شمالی ناظم آباد کے رہائشی دولت خان ولد دنیا خان اور رحمت ولد جنت گل کے خلاف حیدری مارکیٹ تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی جاچکی ہے اور ملزمان گرفتارکیےجاچکے ہیں۔

لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوا؟یہ جاننے کے لیے ضلع وسطی کے کسی بھی علاقے کا دورہ کرکے صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تمدّنی اور شہری ذمّے داریاں

ہم بہ حیثیت سماج اپنے ہر مسئلے کا ذمے دار ریاست اور اس کے اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ درست ہوسکتا ہے کہ جب نظام میں خرابی ہو تو اقدار اور تمدنی تقاضوں کا پاس ہر جگہ نہیں رکھا جاسکتا، لیکن اس کے ساتھ کیا یہ بات بھی سچ نہیں ہےکہ ہم تمدنی اور شہری ذمے داریوں سے مکمل طور پہ دست بردار ہوتے جا رہےہیں۔ 

اس بارے خود سوچنا ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ قانون سے بچ نکلنے اور زیادہ سے فائدہ اٹھالینے کو جرم کے بجائے چالاکی اور ذہانت سے تعبیر کرتے ہیں اوراسی فکر کے ساتھ بچوں کی بھی تربیت کرتے ہیں۔ 

ہم سب اکثر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا کریں نظام ہی ایسا ہے، ایسا کرنا پڑتا ہے ، وغیرہ،وغیرہ۔ یہ ذہنیت ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

شہری ذمّے داریاں اور صحت مند معاشرہ

صحت مند اورمثالی معاشرہ تمدنی شعور اور شہری ذمے داریوں کی ادائیگی سے جنم لیتا ہے۔ ہمارے ملک میں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور تعلیمی اداروں میںسوک ایجوکیشن نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے خلا قیدا ہوگئے ہیں۔ 

ملک کے بیش ترشہری اپنی شہری ذمے داریوں سے آگاہ نہیں ہیں اور ان میں یہ شعور بھی سرے سے موجود نہیں ہےکہ ترقی اور بہبود، جس کی ہم خواہش اور مطالبہ کرتے اس کا راستہ یہ ہی ہے۔ اپنی ذات پرقابو رکھنا اور اپنے رویوں کو اقدار کا پابند بناکر اصولوں کے ماتحت کرلینا سب سے بڑا جہاد ہے۔ 

اس سے ہم انسانوں کی اور ملک کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتے ہیں۔ اس کے ثمرات کی بارآوری میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں۔ ساری مہذب دنیا اسی راستے پر چل کر مثالی اور صحت معاشرے تشکیل دینے میں کام یاب ہوئی ہے۔

احساسِ زیاں جاتا رہا

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں مجموعی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ احساس تو درکنار، خوف بھی باقی نہیں رہا۔ قانون کو روند ڈالا تو کیا ہوا، دوسرے انسانوں کو مشکل میں ڈال دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔عام آدمی کو تو چھوڑیں یہاں تو اہم سرکاری شخصیات بھی قانون کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہیں۔ 

کچھ عرصہ قبل صوبہ بلوچستان کے ایک وزیر بے مہار گاڑی چلاتے ہوئے ٹریفک پولیس کے اہل کار کو بے دردی سے کچلتے ہوتے گزر گئے تھے۔لیکن کوئی زلزلہ نہیں آیا۔انسانیت سے محبت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ہم میں سے بہت سے افراد نے سوشل میڈیا پر اس کی مذمت کی، لیکن اس وزیر کو کیا سزا ملنی تھی۔ اگر اسے اس کا ذرہ برابر بھی خوف ہوتا تو وہ کبھی ایسی جرأت نہ کرتا۔ احساس تو اس سماج سے جیسے اُٹھ گیا ہے۔ 

مذمت کرنا بھی معمول کا کام ہوگیا ہے۔ لوگ اکتانے لگے ہیں۔ پھر یہ ایک فن کی شکل بھی اختیار کرگیا ہے جس میں آہنگ تو نظر آئے گا، لیکن احساس نہیں۔ ہم لاقانونیت اور ناہم واریت کے بھی عادی ہوگئے ہیں اور مذمت کرنے کے بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم زندگی اور اس کی خوب صورتی سے نا آشنا قوم ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم دوبارہ کیسے حیات پائیں گے ؟جواب یہ ہے کہ تمدنی شعور اور شہری ذمے داریوں کے احساس سے۔

عجیب و غریب رویّے

ہماری قوم بہت عجیب ہے ۔اس کے انفرادی رویّے ٹھیک ہیں اور نہ ہی اجتماعی رویّے درست سمت میں ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے لوگ اپنی ذات ، اپنے بچوں، کنبے اور گھر کے علاوہ سوچتے ہی نہیں ہیں۔ خال خال ہی ایسے لوگ ملتےہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول ، شہر اور ملک کی بہتری اور تعمیر و ترقی کا سوچتے ہیں۔ مہذب ، شائستہ اور تعلیم یافتہ قوموں میں سوک سینس بہ درجہ اتم موجود ہے۔ 

حالاں کہ ان میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ۔تاہم ہمارے لوگ بلند بانگ دعوؤں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ مثلاً صفائی نصف ایمان ہے ۔۔۔ دھرتی بھی ماں کی طرح ہوتی ہے۔۔۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے ۔۔۔حرام کھانا گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ فضول خرچی سے پر ہیز کرنا چاہیے۔۔۔ پانی اور بجلی کا زیاں گناہ ہے۔۔۔ اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔۔۔ انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے چاہییں۔ ۔۔ اپنے ارد گرد اور شہر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے ۔۔ ۔ اپنی مدد آپ کا جذبہ اجاگر کرنا چاہیے۔۔۔ہمیں محب وطن ہونا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ ان کھوکھلے نعروں کا عملی اظہار کہیں نظر نہیں آتا ۔ 

ہماری قوم خود غرضی ، نفسا نفسی اور مادیّت پرستی کی دلدل میں بری طرح دھنس چکی ہے ۔ انفرادی مفاد کے علاوہ ہمارے لوگوں کو کچھ نہیں سوجھتا ۔ بلکہ اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم تو اجتماعی مفادکا تصور ہی بھول چکے ہیں۔سوک سینس(Civic Sense)کی بات کریں تو بہت سے افراداس کے مفہوم سے ہی نا آشنا ہیں۔جو تھوڑے بہت افرادواقف ہیں وہ اس شعور کو عملی شکل دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں ۔

شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ بلدیہ اوراین جی اوز کی جانب سے لگائے جانے والے گاربیج ڈرمزتک چُرا لیتےہیں یا ان کے ساتھ انتہائی غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔ شہر میں لگائے جانے والےواٹر پیوری فیکیشن پلانٹس کا حشر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

ہم شہر کے فٹ پاتھس، سڑکوں، نالوں، واٹر چینلز،پائپ لا ئنز،باغات،مطالعہ گاہوں،اسٹریٹ لائٹس،گاربیج ڈرمز ، بجلی کے نظام ، پیڑ ،پودوں،اور دیگر اشیاءو املاک کو حکومتی املاک سمجھ کر ان کا بالکل خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے شہر کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور کراچی ترقی کرنے کے بجائے تنزّلی کا شکار ہے۔

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ مہذب قومیں شہر کی تمام املاک اور اشیاکو اپنے گھرکی اشیا اور املاک کی طرح سمجھتی ہیں اور سوفی صد ان کا خیال رکھتی ہیں۔ یعنی وہ ان تمام کواپنا سمجھتی ہیں جیسے کہ گھروں کی چیزوں کو ہم own کرتے ہیں۔جب ہی تو ان قوموں کے ہاں شہر اور قصبے نہایت صاف ستھرے، صحت مند،ماحول دوست، ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں، مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ 

اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے جب ہمارے لوگ زبانی کلامی بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہم وطن کے لیے جان دینےکو بھی تیار ہیں، مگر صد افسوس کہ وطن کی اشیا اور املاک کی ان کو بالکل پروا نہیں۔جس گروہ کو جب غصہ آجائے وہ اپنی راہ میں آنے والی ہر سرکاری اور غیر سرکاری اشیا اور املاک کو روند ڈالتا ہے۔ لہذا صرف دعووں سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

راہ بر راہ نمائی نہیں کرتے

ہمارے راہ بر ٹریفک کے قوانین، نظم وضبط کی پابندی، رہن سہن اور ایک دوسرے کی معاونت کرنے، پانی ضایع نہ کرنے ،راہ چلتے ہوئے دیگر افرادکا خیال رکھنے، کھانا ضایع نہ کرنے، قطار میں لگنے،لوگوں کے حقوق کا اور فرایض کا خیال رکھنےاورایسے چھوٹے بڑے دیگر امور پر گفتگو ہی نہیں کرتے۔

ذرایع ابلاغ پر بھی کوئی پروگرام ان معاملات پر نہیں ہوتا۔ ان امور پر بات چیت کوبہت سی قدآور شخصیات اپنی تحقیر سمجھتی ہیں۔حالاں کہ ان ہی باتوں کی رعایت رکھنے سے مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

ہم بھی کچھ کم نہیں

آپ گھر سے باہر نکلیں اور چلتے ہوئے نوٹ کرتے جائیں کہ کتنے لوگ کچرا کوڑے دان میں پھینکتے ہیں۔ گھر کے اندر اور اسکول میں جب بچے کچرے کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکتے تو پھر سڑک پر بھی ایسا نہیں کریں گے۔ 

کسی جامعہ کی مطالعہ گاہ میں بیٹھیں، آپ کو کئی طلبا بات چیت کرتے ہوئے نظر آئیںگے، اس بے نیازی کے ساتھ کہ کوئی اور اس سے ڈسٹرب ہو رہاہے یا نہیں۔ بس میں ساتھ والی سِیٹ پر بار بار کھانسنے والا اپنے منہ کو دوسری طرف پھیرے گا اورنہ منہ پررومال رکھے گا۔ گھروں میں، عوامی مقامات پر یا کسی اور مذہبی یا سماجی مجلس میں رات کو بھی بلند آواز کے ساتھ لاؤڈ اسپیکرکا استعمال جاری رہتا ہے۔

یہ نہیں سوچا جاتا کہ قریب ہی کوئی بیمارشخص ہو سکتا یا کسی کا آرام متأثر ہوسکتا ہے۔ منہ دھوتے وقت، برش کرتے ہوئے اور گھروں کا کار پورچ صاف کرتے ہوئے پانی کا نل مسلسل کھلا رہتا ہے۔

اجتماعی ذمّے داری

قطار بنائیں، اپنی لین میں رہیں، ٹریفک قوانین کی پابندی کریں، کوڑا کچرے دان میں ڈالیں اور اسی طرح کی بہت سی ہدایات روز ہماری نظر سے گزرتی ہیں ،لیکن ان پر عمل ہوتا کم ہی نظر آتا ہے۔

دراصل کسی بھی معاشرے کے لوگوں کے رویّے ان چھوٹی مگر ضروری عادات سے جانچنے میں مدد ملتی ہے جنہیں عرف عام میں سوک سینس اور عمومی رویہ کہا جاتا ہے۔یہ بہت ہی بنیادی چیزیں ہیں جو کسی کے اخلاق اور اس کے رویے کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور اس کا عملی مظاہرہ کسی بھی معاشرے کے مستقبل یعنی اس کے بچوں کو ذمے دار اور اچھا شہری بننے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ماہرینِ سماجیات کے مطابق تمدنی شعور اور شہری ذمے داریوں کا احساس پیدا کرنے کےضمن میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، والدین،اساتذہ ،طلبا تنظیموں، ڈاکٹرز، مذہبی طبقے اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ذرایع سے شعور و آگہی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ 

معاشرے میں اساتذہ، طلبا، بالخصوص طلبا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں پہ سب سے زیادہ ذمے داری اس لیے ہے کہ وہ مسلسل سماج، سیاست اور شعور و آگہی کے عمل سے وابستہ رہتے ہیں اور ہر وقت شہریوں اور سماج کے ساتھ رابطے کے سبب ان کے مسائل سے سب سے زیادہ آگاہ رہنے والے اور اثرانداز ہونے والے لوگ ہوتے ہیں۔ 

لیکن اب تو زیادہ تر طلبا تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں صرف سیاست پر بات کرتی ہیں اور اپنی اپنی جماعتوں کے لیے رائے عامہ ہم وار کرنے تک محدود ہیں۔ حالاں کہ شہریوں میں تمدنی شعور پیدا کرنا بھی ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

سوک سینس کے فقدان کے قصور وار ہم سب ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ ذمے دار والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، بلدیہ کے اہل کار اور اراکین ،سرکاری اہل کار اور این جی اوز ہیں جو اپنے فرایض خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے ر ہیں۔ ان تمام کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے زیرِاثر لوگوں میں زیادہ سے زیادہ سوِک سینس پیدا کریں کریں اور خود بھی عملی طور پر کردار ادا کریں۔

ٹیکس کی ادائیگی بھی ہماری معاشرتی ذمے داریوں میں شامل ہے۔لیکن پاکستان میں ٹیکس دینے کے نام پر لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔حالاں کہ ہمارے لوگ حقوق کے ضمن میں جن مہذب قوموں کی بات کرتے ہیں ان کا یہ بھی شیوا ہے کہ وہ اپنے ملک اور علاقے کی بہتری کےلیے ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ان تمام اقدامات ہی سے صاف ستھرے ،صحت مند، ماحول دوست ،ترقی یافتہ اور خوش حال شہر کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

تعلیم اور تعلیمی اداروں کا کردار

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقا کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد اپنے معاشرتی فرایض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں، کیونکہ وہ افعال اور ذمے داریاں صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کا ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کسی قوم میں تعلیم و ہنراور ظاہری عبادات کا اہتمام بہ درجۂ اتم موجود ہو، لیکن اس کے افراد کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ 

تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو اور بہ حیثیت شہری ہمیں اجتماعی زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ہی معلوم نہ ہوں تو ہم اس تعلیم کے باوجود بد تہذیب اور غیر متمدن کہلائیں گے۔ جس قوم کے لوگوں میں جس قدر معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں وہ قوم اسی قدر مہذب اور ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے کی حالت ایسی ہے کہ تاریخ باآسانی ہم پر غیر متمدن ہونے کا فتویٰ صادر کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نصابی تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز ، مدارس اور جامعات قائم کردی جاتی ہیں، لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے تعمیر ِشخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا۔

لہذا جب یہ نوجوان معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلافِ تہذیب ہوتا ہے۔ چناں چہ اب یہ حالت ہے کہ ہمارے شہریوں میں اس بات کا احساس ناپید ہوچکا ہے کہ انہیں معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے اور ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟

اس ضمن میں مئی 2017میں یہ خوش کن خبر آئی تھی کہ پنجاب حکومت نے طلبا میں سوک سینس، امن ،تحمل اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے ایک کورس تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہےجسے کالجز اور جامعات کے نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔

اس وقت پتا چلا تھا کہ اس ضمن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن ،پنجاب نےاس پر کام شروع کردیا ہے اورکورس کی تیاری کےلیے جن اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ان میں ڈاکٹر حسن عسکری ،ڈاکٹر شفقت سعید اور جامعہ زکریا کے ڈاکٹر مقرب اکبر شامل ہیں ۔لیکن پھر کیا ہوا،یہ کسی کو معلوم نہیں۔

شہری شعور بہت سے مسائل کا حل

بعض ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ ہماری قوم میں شہری شعور نہیں ہے۔ ہمارے کیا حقوق ہیں، کیا فرائض ہیں اور کن باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ان باتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب کا تو خیر سے کیا رونا رویئے، بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی جاہل ہی نظر آتے ہیں۔ 

ہمارے پچہترفی صد سے زیادہ مسائل کا حل شہری شعوربے دار ہونے میں ہے۔یہ مسائل صرف سیاسی نہیں، بلکہ سماجی اور معاشرتی بھی ہیں۔ ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ ہو یا منہگائی کا، حکومت کے مظالم ہوں یا مافیا کے کارنامے، کچھ بھی ہو، اگر شہری شعور بے دار ہوجائے تو سمجھ لیں کہ ہم نے آگے بڑھنا شروع کردیاہے۔ لیکن یہ بات کہنے میں بہت آسان اور مختصر ہے، عملی زندگی میں بہت مشکل،لیکن ناممکن نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ شعور بے دار کیسے ہوگا؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ اس ضمن میں بعض ماہرین کی تجویز ہے کہ مختصر اور جامع تحاریر لکھی جائیں اور انہیں عوام میں تقسیم کیا جائے، سیمینارز وغیرہ کا اہتمام کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سارا کام باقاعدہ طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ فی الوقت ہم قوم کی بے حسی پر جس طرح رو رہے ہیں، خدانخواستہ اگر مستقبل میں کوئی بڑی افتاد آن پڑی، تب بھی ہماری حالت اس سے زیادہ مختلف نہ ہوگی(بلکہ شاید بدترہی ہوجائے)۔

تازہ ترین