• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھوک فرماتی ہے پھیلا ہاتھ لنگر کیلئے

پیاس کا اصرار چل ان آستانوں سے پرے

آئیے طے کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کو بھوک زیادہ لگتی ہے یا پیاس۔

ہمارے امراء اور رئوسا اقتدار کے بھوکے رہتے ہیں اور ہماری اکثریت زندگی کی آسانیوں کے لئے پیاسی۔ علم کی پیاس بجھانے کے لئے دینی مدارس بھی کھلتے ہیں، یونیورسٹیاں بھی قریہ قریہ وجود میں آرہی ہیں۔ تاریخ سرگوشی کررہی ہے کہ جن قوموں کی علم کی پیاس بجھانے کے سامان کیے جاتے ہیں وہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوتی رہیں۔ اپنے وسائل سے فائدہ اٹھا کر زندگی کے سامان بہم پہنچاتی رہیں۔ سب اپنے دستِ بازو آزماتے تھے، تیشہ اٹھاتے تھے، نہریں نکالتے تھے۔ خود بھی فیض یاب ہوتے تھے اور خلقتِ شہر کی بھوک پیاس مٹانے کا اہتمام بھی ہو جاتا تھا۔ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کو کسی قوم نے بھی اچھا نہیں جانا۔

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

پرواز قوموں کی اصل ضرورت ہے۔ پرواز علم کی، دانش کی، تخیل کی، تحقیق کی۔ تحقیق سے ہی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ تحقیق ہی تخلیق کو تحریک دیتی ہے۔ تحقیق نے ہی صنعتی ادوار کو جنم دیا۔ تحقیق سے ہی انسان نے فضائوں اور سمندروں کو مسخر کیا۔ تحقیق لنگر خانوں میں پروان نہیں چڑھ سکتی۔ وہاں تو یہ امید ہوتی ہے کہ قطار میں کھڑے ہونے سے روٹی مل جائے گی۔ ہاتھ پھیلانے والی قطاروں نے اپنے حوصلے، ہمت اور خود داری کو ہمیشہ آخری سلام کہا ہے۔ لنگر کے ذریعے معتقدین، معذوروں اور مستحقین کو کھانا کھلانا آستانوں کی روایت ہے، اکیسویں صدی کی نہیں۔ اطلاعات اور معیشت کی یہ صدیاں تو اپنے دماغ اور بازوئوں کو بروئے کار لاکر حصولِ رزق کے راستے ایجاد کررہی ہیں۔ لنگر جیلوں میں لگتے ہیں۔ بڑے کھانے لشکروں میں۔ زراعت پیشہ قوموں کی روٹی تو گھروں سے پک کر آتی ہے۔ وفادار بیویاں بڑے پیار اور خلوص سے لذیذ کھانا تیار کرکے، توے پر روٹی اچھی طرح سینک کر، رنگین چنگیر میں خوبصورت رومالوں میں لپیٹ کر اپنے سر پر جماکر کھیتوں میں سے ہوتی اور ہاں چنگیر پر لسی کا مٹکا بھی رکھ کر کھیتوں میں پہنچتی ہیں۔ جہاں پسینے میں شرابور مگر بہت مطمئن اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں اور اجرک سے حمائل کیے کسان کھانے کا کم بیوی کا زیادہ انتظار کررہا ہوتا ہے۔ اس کھانے کے بعد اسے پھر کیاریاں اور پگڈنڈیاں بلالیتی ہیں۔ وہ کسی لنگر کے کھانے کے انتظار میں نہیں بیٹھا رہتا۔

یہ ہمارے حکمران بھی کیا کریں۔ انہیں بھی لنگروں اور بڑے کھانوں کی عادتیں ڈال دی گئی ہیں۔ جدید دور کے یہ لنگر واشنگٹن میں کھلے ہیں۔ تیسری دنیا کیا آزاد دنیا کی بہت سی قومیں بھی ان لنگروں کے کھلنے کے انتظار میں رہتی ہیں۔ یو این ایڈ کے لنگر ہیں۔ آئی ایم ایف کے لنگر ہیں۔ عالمی بینک کے دستر خوان۔ پینٹا گون کے بڑے کھانے۔ چھوٹی قوموں کی قطاریں بندھی ہیں۔ ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر سال ستمبر میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا لنگر کھلتا ہے۔ افریقہ، ایشیا، یورپ، کالے، گورے، گندمی، سانولے سب لائن میں لگے ہوتے ہیں۔ مسلم امہ کے لئے لنگر ریاض میں لگائے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی میں لندن کو ان لنگروں کی توفیق زیادہ تھی جب سلطنتِ برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب تو خود وہ بریگزٹ کے لنگر میں الجھے ہوئے ہیں۔ اب ادھر مشرق بعید میں بیجنگ میں دستر خوان سجائے جاتے ہیں۔ بھوکے پیاسے کشاں کشاں وہاں پہنچتے ہیں۔ بار بار جاتے ہیں۔ سمجھتے تو یہ ہیں کہ مال مفت۔ اس لئے دل بے رحم ہوتا ہے۔ لنگر واشنگٹن کا ہو لندن کا یا ریاض کا، بیجنگ یا منیلا کا۔ یہ راشن ہمارے اپنے وسائل کی کشید ہے۔ ہماری فصلیں رہن رکھی ہوئی ہیں۔ ہمارے اثاثے گروی ہیں۔ سامراجی طاقتیں ہمارے ملکوں کی قیمتی چیزیں اڑا لے گئیں۔ ہمارا سونا لے گئیں۔ اب ہمارے دماغ لے جارہی ہیں۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ان کے کارخانے کمپنیاں چلارہے ہیں۔ ان کی تحقیق میں نئے منصوبے دے رہے ہیں۔ یہ ممالک ہمارے مال پر قبضہ کرکے اسے اپنی سخاوت قرار دے رہے ہیں۔ ہم اپنی خودی سے بیگانہ، اپنے وسائل کی قدر و قیمت سے بے خبر نئے دَور کے بظاہر حاتم طائیوں لیکن دراصل سلطانا ڈاکوئوں کے لنگروں کو انسانیت کی خدمت سمجھ رہے ہیں۔

بین الاقوامی لنگر خانے قوموں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کررہے ہیں۔ کئی کئی ہزار سال سے تہذیب و تمدن کی وارث قوموں کو اپنی تخلیقی اور علمی صلاحیتیں استعمال کرنے سے روک رہے ہیں۔ اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ چھوٹی قوموں کے حکمران منتخب، غیر منتخب، حکام، عمال جن کی پلیٹوں میں زیادہ بوٹیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ وہ اپنے اپنے ملکوں میں اپنی قوم کی ذہنی، جسمانی، طبعی، تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال روکنے کے لئے ایسے ہی لنگر کھولتے ہیں تاکہ قوم کی ہاتھ پھیلانے کی عادت اور مستحکم ہو جائے۔ وہ اپنی غربت، مفلسی، بےبسی کو اپنا مقدر سمجھ کر سڑک کنارے بیٹھ جائیں، لنگر کھلنے کا انتظار کریں۔ زندہ قومیں کارخانے لگاتی ہیں۔ زرعی زمینوں کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہیں۔ اپنے ایک ایک ہاتھ بازو اور افرادی طاقت کو ملت کی طاقت بڑھانے کا وسیلہ بناتی ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ کسی کو پیاس نہیں ستاتی۔ اپنی محنت کی کمائی سے اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے والا خودداری، خود کفالت اور خود اعتمادی کا پیکر ہوتا ہے۔ یہ جو کچھ لنگروں میں حکومت ان داتا بن کر دے رہی ہے۔ یہ مال یہ راشن آپ کے اپنے وسائل ہیں۔ آپ کے دیے گئے ٹیکس ہیں، آپ کے عطیات ہیں، حکمران اپنے خزانوں سے نہیں دے رہے۔ آپ اپنا مال ہی بھکاریوں کی طرح کیوں لیتے ہیں۔ احسان دانش یاد آتے ہیں:

میں تو ہر زندہ مردے سے کہتا ہوں یہ

چھین کر پیٹ بھرلے بھکاری نہ بن

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین