• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمی ہاگا نامی جاپانی طالبہ نے ’ایورداشی‘ نامی ایک جاپابی ننجا تکنیک استعمال کرکے مضمون لکھا جسے دیکھ کر اُس کے استاد دنگ رہ گئے اور ایمی ہاگا کو اے گریڈ دے دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جاپانی طالبہ کو اُس کے استاد کی جانب سے ایک مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر نمبر دیں گے، یہ بات ایمی ہاگا نے اپنے دماغ میں بٹھا لی اور اُس نے سوچا کہ وہ اِس مضمون میں کچھ الگ اور منفرد کرے گی۔

ایمی ہاگا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو اپنی ننجا تکنیک کے بارے میں بتایا کہ ’اُس نے ’ایورداشی‘ نامی ننجا تکنیک بچپن میں ایک کتاب سے سیکھی تھی اور اُس کی خواہش تھی کہ اُس سے پہلے یہ تکنیک کوئی استعمال نہ کرے۔

جاپانی طالبہ نے بتایا کہ ’اُس نے مٹر کے دانوں کو رات میں پانی میں بھگویا اور پھر اُن کو پیس کر ایک کپڑے میں ڈال دیا، پھر اُن کو نچوڑ کر اُن کا پانی نکالا اور پھر اُس کی مخصوص مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے دو گھنٹے صرف کیے۔

اِس مرحلے کے بعد ایمی ہاگا نے ’وشی‘ نامی کاغذ پر باریک برش کی مدد سے اپنی تحریر لکھی، جب اُس کی لکھی ہوئی تحریر سُوکھ گئی تو وہ نظر آنا بند ہوگئی۔

طالبہ نے بتایا کہ اُس کو ڈر تھا کہ کہیں اُس کے استاد اُس کے مضمون کو ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر کچرے میں نہ پھینک دیں، جس کے بعد ایمی ہاگا نے عقلمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کاغذ پر عام روشنائی سے لکھا کہ ’کاغذ کو گرم کریں۔‘

ایمی ہاگا کے استاد پروفیسر یوجی یمادا نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب اُنہوں نے یہ مضمون دیکھا تو وہ حیران رہ گئے تھے، اُن کو لگا کہ یہ ایک مذاق ہے لیکن جب اُنہوں نے اپنے گھر کے چولہے پر کاغذ گرم کیا تو مضمون کا ایک ایک لفظ صاف اور بلکل درست سامنے آگیا۔

پروفیسر یوجی یماد کا کہنا تھا کہ ایمی ہاگا کا مضمون خاصا اچھا نہیں تھا لیکن اُس کی ننجا تکنیک دیکھ کر میں نے اُس کو اے گریڈ دینے میں ذرا بھی نہ سوچا۔

دوسری جانب ایمی ہاگا کا کہنا تھا کہ اُس کو یقین تھا کہ اُس کے استاد اُس کی کوششوں کو قبول کریں گے اور اُس کو اچھے نمبر دیں گے۔

تازہ ترین