• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھل دار درخت پر سجی ہر ٹہنی پر لگا سارا پھل کبھی ایک جیسا بے داغ نہیں ہوتا لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ پوری کی پوری ٹہنی ہی کاٹ دی جائے۔

ایسے ہی اسکول کی ہر جماعت میں بیٹھے تمام بچے یکساں ذہین نہیں ہوتے، کچھ شرارتی تو کچھ نالائق لیکن یہ بھی مناسب نہیں کہ چند شرارتی بچوں کو سزا دینے کے بجائے پوری کلاس کے ہی کان پکڑوا دیئے جائیں یا پھر چند شرارتی بچوں کی مسلسل حوصلہ شکنی کے بجائے بار بار پوری جماعت کو یہ احساس دلایا جائے کہ فلاں بچہ کتنا باتونی ہے اور ساری کلاس کو اسی نظر سے دیکھا جائے۔

جی نہیں، بالکل بھی نہیں۔ ہمیں پھل کے چند خراب دانوں کو الگ سے رکھنا ہوگا اور صاف پھل کی حفاظت کرنا ہوگی۔ اسی طرح کلاس روم کے ذہین اور نالائق بچوں میں تفریق کرکے اصلاح کا موقع دینا ہوگا۔

دور ِعمرانی میں اس بات کے امکانات زیادہ بڑھتے جارہے ہیں کہ کچھ شرارتی بچے اپنی منفی صلاحیتوں کے باعث پورے نظام کو تبدیلی کے نام پرتلپٹ کردیں اور اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر احتساب کی آڑ میں مذموم ارادوں میں کامیاب ہو جائیں۔ احتساب کی آڑ میں کچھ لوگوں کے ہاتھ ماچس کی ایسی تیلی لگی ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں کسی بھی وقت آگ لگا سکتے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات سچ ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات میں کاروباری شخصیات نے جس خوف اور تحفظات کا اظہار کیا اسی کا نتیجہ ہے کہ چیئرمین نیب کو ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بےیقینی کی صورتحال ختم کرنے کے لئے تاجروں کے خلاف تمام ٹیکس ریفرنس واپس بھیجنا پڑے اور دلاسہ دینا پڑا کہ نیب کاروباری شخصیات کے معاملات کی آئندہ چھان بین نہیں کرے گا۔

یہ ایک طرف سرکار کی ناتجربہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے تو آئندہ کے لئے ایک پیغام بھی۔ یہی صورتحال بیورو کریسی میں خوف کا باعث بھی بن رہی ہے۔

آج ہر کوئی تبدیلی، انقلاب، احتساب کے جذبے سے سرشار اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر تلا ہے اور کلاس روم کے شرارتی بچوں کی طرح احتساب کے کاغذی جہاز ہوا میں اُڑا رہا ہے۔

نالائق بچے ہمیشہ اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے سازشی تھیوری کے تحت پوری کلاس کو ہی گندا کرنے کی خاطر سوشل میڈیا پر کسی بھی شخص، ادارے کی پگڑی اچھالنے سے باز نہیں آرہے۔

کوئی بھی حکمران کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی راہ میں آئے دن روڑے اٹکائے جائیں اور وہ جو نظریہ، سوچ یا منشور لے کر آگے بڑھ رہا ہے اسے کوئی روکنے کی کوشش کرے مگر موجودہ دور میں ہم ایک نئے تجربے سے گزر رہے ہیں۔

جیسے ہی کوئی بہتری کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو کوئی نہ کوئی سازشی کردار آگے بڑھ کر ایسا شب خون مارتا ہے کہ ہرطرف بےیقینی پھیل جاتی ہے۔

ایسی ہی کچھ صورتحال سے آج کل میڈیا انڈسٹری بھی دو چار نظر آتی ہے۔ بجائے اس کے کہ بدترین حالات میں بحران سے نکلنے کی کوئی تدبیر نکالی جائے، بھوکے کو بھوکا مار رہا ہے اور کچھ لوگ صرف اس انتظار میں ہیں کہ کون پہلے مرتا ہے اور یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک ادارے کے مرنے کے بعد دوسرا ادارہ بچ جائے گا۔

یہ ناگہانی صورتحال وفاقی حکومت سے لے کر صوبوں تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیورو کریسی کی یہ وہ قسم ہے جو ہر دور میں حکومت اور ریاست پاکستان کی دنیا بھر میں ساکھ کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہتی ہے مگر آج ان کی صلاحیتوں کو کاغذی جہازوں کے پیرا شوٹر ہاتھ پائوں باندھ کر ضائع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پنجاب حکومت کی میڈیا ٹیم نے عثمان بزدار حکومت کی ساکھ بحال کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔

سید صمصام بخاری نے بطور وزیر اطلاعات وثقافت پنجاب، بہت کم وقت میں میڈیا انڈسٹری کے مسائل حل کئے مگر صد افسوس سازشی عناصر اپنا کام دکھا گئے اور چند سادہ کاغذوں پر لکھی درخواستیں افسران کو خوف زدہ کر گئیں اور میڈیا انڈسٹری ایک بار پھر دھڑام سے زمین پر آگری۔

آج یہی سازشیں اسلام آباد میں بھی جاری ہیں خصوصاً پرنٹ میڈیا اس کا اہم ترین ٹارگٹ ہے اور یہ بات سرکار اور درخواست بازی کو سچ سمجھنے والے ادارے بھی سمجھنے کو تیار نہیں کہ میرٹ اور میڈیا اداروں کی تاریخ، کردار اور معیار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

آج اگر ہم تحمل سے اس بات پر غور کریں تو انتشار اور بحرانی صورتحال میں صرف اخبارات ہی ہیں جو دیانت داری سے خبر کو سیاق و سباق کے عین مطابق ریٹنگ، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر حقائق کی جانچ پرکھ کے بعد شائع کرتے ہیں اور نامساعد حالات میں بھی اپنی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ان اخبارات میں بھی علاقائی اخبار کا کردار قومی اخبارات ہی کی طرح مسلمہ اور حقیقی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے کبھی بھی علاقائی اخبارات کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ دنیا بھر میں کائونٹی نیوز پیپرز کی اہمیت آج بھی تمام سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان کا باوا آدم ہمیشہ سے ہی نرالا رہا ہے۔

حکومت، مقتدر ادارے، انفارمیشن گروپ اور علاقائی اخبارات کی اہمیت کو تسلیم کریں تو یقیناً بہت سے بحرانوں سے دیانت داری کے ساتھ نمٹا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے بغض، شک، پسندو ناپسند کی سوچ سے آگے بڑھ کر کھلے دل سے سوچنا ہوگا اور کوئی ایسا میکنزم تیار کرنا ہوگا کہ محض کاغذی درخواستوں کی شرارتوں کی بنیاد پر پورا نظام تباہ وبرباد نہ کیا جا سکے۔

بڑی سے بڑی جنگیں، معاشی معرکے، سیاسی دنگل آپ کے منتظر ہیں، تن تنہا آپ کچھ نہیں۔

میڈیا ٹربیونلز کے قیام کی لٹکتی تلوار سرکاری اشتہارات کے بجٹ میں آئے دن غیر معمولی کٹوتی اور بقایا جات کی عدم ادائیگی کے باعث آج پاکستان کی اخباری صنعت آخری سانسیں لے رہی ہے۔

اس ضمن میں اگر حکومتی سطح پر کوئی ایمرجنسی ریلیف نہ دیا گیا تو ریاست کا یہ چوتھا ستون کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائے گا۔ جو ماضی کے المیوں سے بڑا ایک المیہ ثابت ہو سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین