• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ میں موسمیات سے متعلق انگلش چینل دیکھ رہا تھا۔ مختلف ممالک کے مختلف موسموں کا ذکر تھا بیشتر ممالک جن میں پورا یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، ایشیا اور خلیجی ریاستیں شامل تھیں، بتایا گیا کہ ان ممالک میں صرف 2موسم ہوتے ہیں، سردی یا گرمی، اس مناسبت سے ان ممالک میں پھل، سبزیاں، جانور، پرندے اور درختوں کی نشو و نما ہوتی ہے جبکہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے، جس میں 2نہیں 4قدرتی موسم پائے جاتے ہیں۔ 

جو ہر قسم کے پھل سبزیاں، اجناس چرند پرند، درختوں کی نشو ونما کے لئے موزوں ترین ملک ہے اور ان موسموں کی وجہ سے اس میں قحط نہیں پڑ سکتا۔ اس کی وجہ جو پھل ایک موسم میں پیدا ہوتا ہے تو دوسرا پھل ابتدائی تیاریوں میں ہوتا ہے۔

گرمی میں الگ قسم کی سبزیاں، اجناس پیدا ہوتا ہے تو سردیوں میں اس سے مختلف اور موسم بہار ایک الگ کیفیت رکھتا ہے اور موسم خزاں بھی مکمل خراب نہیں ہوتا۔ 

پھر اس ملک کے الگ الگ علاقوں میں بھی مختلف موسم ہوتے ہیں۔ اس ملک میں اگر ایک طرف پہاڑوں کا سلسلہ ہے تو دوسری طرف زرخیر زمینیں بھی ہیں، پھر ایک ایک حصے میں معدنیات بھری پڑی ہیں۔ دوسری طرف دریائوں کا سلسلہ، پھر قدرت نے 2سمندر بھی عطا کر رکھے ہیں مگر قوم کی بدقسمتی ہمارے حکمران، ارباب اختیار اور سیاست دان ان قدرتی نعمتوں کو قوم کے مفادات میں استعمال کرنے کے بجائےخود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اب تو ایک ایک کر کے ہر طبقہ شامل ہو کر ذاتی مفادات حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔

 لفظ پاکستان اب صرف نام کا رہ گیا۔ سیاستدان معیشت سنبھالنے میں کوئی کردار ادا کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ صرف سیاسی بازار گرم رکھنے کے لئے قوم کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ کھویا ہوا ان کا سیاسی مقام واپس مل جائے۔ 

معیشت کی بحالی کے لئے وزیراعظم عمران خان اور ان کے معاشی مشیروں کو مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ آپ صرف Textileپر انحصار نہ کریں، اب دنیا آئی ٹی کی طرف جا چکی ہے، صرف بھارت ہر سال آئی ٹی سے 180ارب ڈالرز کا زرمبادلہ گھر بیٹھے کما رہا ہے۔ 

اور ہم ایک ارب ڈالر بھی پورے نہیں کر پا رہے ہیں، نہ ہماری کسی حکومت نے آئی ٹی کی طرف توجہ دی اور نہ کوئی کامیاب ادارہ بنایا، نہ اس پر کوئی سبسڈی دی، اسی طرح ایک کاروبار دنیا میں بہت فروغ پا رہا ہے، وہ پرندوں اور جانوروں کو پال کر ایکسپورٹ کرنا ہے۔ اس سے بھی معیشت اور ملک ترقی کر رہے ہیں۔

ہم نے اس کے برعکس پرندوں کی ایکسپورٹ پر مختلف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ حال ہی میں ایک کنونشن میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا انعقاد کراچی میں ایک پاکستانی ادارے نے کیا تھا۔

 کنونشن میں دنیا بھر سے ایکسپرٹ شریک تھے، جن میں خصوصاً امریکہ، آسٹریلیا، اسپین، ہنگری، سنگاپور، یوکے، سائوتھ افریقہ، اردن، یو اے ای اور پاکستانی شامل تھے۔ یہ دو روزہ کنونشن تھا جس میں پاکستان کے مختلف اداروں اور پرندوں کے بزنس سے تعلق رکھنے والوں کی بھرپور شرکت تھی، یہ اس ادارے نے کیا جو پاکستان کے علاوہ یو اے ای اور سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر ان پرندوں کی افزائش کرتا ہے۔

 ان میں مکائو، پہاڑی طوطے ہر قسم کے چھوٹے بڑے دیگر پرندے شامل ہوتے ہیں اور جن کی پوری دنیا میں بڑی مانگ ہے۔ ایک ایک نایاب پرندہ ہزار ڈالر سے لیکر ایک ملین ڈالر تک فروخت ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں ان نایاب پرندوں کی ایکسپورٹ پر بھی غیر ضروری پابندی عائد ہے۔

دنیا میں ہر ملک نے اپنی پیداوار کے لحاظ سے کوٹہ سسٹم رکھا ہے، مکمل پابندیاں کسی نے بھی نہیں لگائیں۔ یہ عالمی ادارہ CITESکنونشن جنیوا میں قائم ہے اور پاکستان اس کا ممبر ہے مگر بدقسمتی سے آج تک سرکاری نمائندے اس میں شرکت نہیں کرتے، نہ اس کاروبار کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ 

سائوتھ افریقہ کی کل ایکسپورٹ کی 45فیصد آمدنی انہی پرندوں کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ تائیوان، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، سنگاپور اس تجارت سے اپنی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہیں، ہماری حکومت اس پر توجہ دے تو کم ازکم 10سے 15ارب ڈالر تک ہم ان پرندوں کو باہر سے منگوا کر کما سکتے ہیں، یہ افزائش اور ری ایکسپورٹ کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے پاکستانی شرکت کرنے والوں نے بتایا کہ وہ یہ کاروبار پاکستان کی پالیسی کی وجہ سے اب دبئی اور سعودی عرب میں لے جا چکے ہیں۔ 

اگر یہ پابندیاں ہماری حکومت ختم کر دے تو پاکستان ان پرندوں کی افزائش کے لئے سب سے موزوں ترین ملک ہے لیکن نہ حکومت سرپرستی کرتی ہے نہ پابندیاں ختم کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہرے طوطے پوری دنیا میں مشہور ہیں، ان کی طلب بھی زبردست ہے۔

ہم فالکن کی نسل بڑھا کر ایکسپورٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ حکومت اس کی غذا پر سے ٹیکس ختم کر دے۔ پرندوں کی افزائش کے لیے سستی زمین دے۔ 

کراچی میں ایمپریس مارکیٹ جو پرندوں کی خرید و فروخت کے لئے تھی، وہ بھی توڑ دی اور کوئی متبادل جگہ بھی نہیں دی۔ پہلے پرندوں کی خرید و فروخت کے لئے مختلف علاقوں میں بازار لگتے تھے۔ جس سے ہزاروں افراد کو روزگار ملتا تھا وہ بھی ختم کر دیئے گئے۔

اب یہ بازار پولیس اور مقامی اداروں کو بھتہ دیکر لگائے جا رہے ہیں، الغرض پرندوں کی امپورٹ میں بھی رشوت کا بازار گرم ہے۔ بغیر رشوت دیئے ایک کنسائنمنٹ بھی کلیئر نہیں ہو سکتی۔ 

یہ تمام مشکلات راقم کو ذاتی طور پر ان پاکستانی پرندوں کی خرید و فروخت اور افزائش کرنے والوں نے بتائیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ حکومت اس کاروبار پر توجہ دے اور ان پرندوں کی افزائش، امپورٹ اور ری ایکسپورٹ پر سے پابندیاں ختم کرے۔ 

خصوصاً ٹیکسٹائل کی طرز پر اگر ڈیوٹیاں وصول کرے تو پھر ریفنڈ کا طریقہ اپنائے تاکہ ہزاروں لوگوں کو نیا روزگار مل سکے۔

تازہ ترین