• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلاسٹک بیگز پرپابندی یقیناً ایک خوش آئند قدم ہےجوبڑی دیر میں اٹھایاگیا، خیر دیرآید درست آید۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تھرموپول کے استعمال پر بھی پابندی لگادینی چاہیئے کیونکہ تھرموپول میں گرم چیز ڈالنے سے اس کے صحت پرمنفی اثرات پڑتے ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے صحت کے مسائل بڑھیں۔

اس کے بھی استعمال پہ پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے علاوہ جو دوسرے نمبر پہ کچرے میں اضافہ کا سبب بنتا ہے وہ تھرموپول ہے۔

اسی لیے ضرورت ہے کہ ابھی سے اسے کنٹرول کیا جائے۔ کراچی میں کچھ مہینوں سے دوبارہ ڈکیتیوں، راہزنی کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

جس میں افراد کو قتل بھی کیا جارہا ہے۔ 2015 میں کسی طرح کارروائی اور سختی کرتے ہوئے کراچی کو اسلحہ بردار لوگوں سے نجات دلوائی گئی تھی۔ ڈکیتیوں، راہزنی اور مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ پہ قابو پالیا گیا تھا۔

لیکن اب ایسا کیا ہوگیا ہےکہ یہ سب پھر سے شروع ہوگیا ہے؟ اوربہت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ پھر کسی " مخصوص منصوبہ بندی" کا حصہ ہے؟ یا قانون نافذ کرنے والوں کا" صرف نظر" ؟ یعنی ان کی کوتاہی کی بدولت ہورہا ہے؟ ارباب اقتدار کو توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ورنہ مسلسل ملنے والی "شاباش "کو خاک میں ملنے سے کوئی روک نہ سکے گا اور نجی سیکورٹی ایجنسیوں کا بزنس عروج پر چلا جائے گا۔

ابھی سے اہم اقدامات اٹھالیجئے کیونکہ اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک اور خاص کر کراچی میں لاء اینڈآرڈر کی صورتحال خراب ہوتی ہے توبالواسطہ اور بلاواسطہ کس کو فائدہ پہنچتا ہے؟اور ایسے میں کون کون سے بزنسز فروغ پاتے ہیں؟ امن وامان قائم ہونے کہ بعد سے لوگ پھر کھلے گھروں میں رہنا پسند کرنے لگے تھے۔

فلیٹوں کی مانگ میں کمی آرہی تھی۔(چونکہ اس دور میں ان کی مانگ بہت زیادہ تھی) بند یا گھیری ہوئی کالونیوں میں بننے ہوئے گھروں سے زیادہ لوگ کھلی ہوئی سڑکوں والی جگہ پر رہنے کو فوقیت دے رہے تھے کہ اچانک گھروں میں مسلح افراد گھسنا شروع ہوگئے اور بندوق دکھاکر ہراساں کرکے تمام مال واسباب لوٹ کر لے جانے لگے ہیں۔ اور سڑکوں سے گزرتے ہوئے لوٹ مار میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ایسے میں لوگوں کے دلوں میں پھر خوف وہراس پیداہوگیا ہے۔

اور اپنی فیملی کی حفاظت کے لیے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اب گارڈزکوتعینات کیا جائےدروازے پر بھی اور اپنے ساتھ گاڑی میں بھی ۔ایسی جگہ جاکر رہاجائے جہاں حفاظتی اقدامات سخت ہوں یاجہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے آفس ہوں یا رہائشی آبادی ہوں وہاں عام شہری کی بھی حفاظت ہوجائے گی۔

اہل عقل کہتے ہیں کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس سب سے زبردست بزنس تھا۔ لیکن جب سے ان کی خریدوفروخت پر ٹیکس کا نفاذ سخت کیا جانے لگا ہے ان کی ہر TransactionکوDocument کیا جانے لگا ہے۔

اس کاروبار کے منافع کی شرح خاطرخواہ کم ہوگئی ہے " یعنی دھندامندا" ہوگیا ہے۔ اسی لیے اپنے کاروبار کے منافع کو برقرار رکھنے کے لیے عوام میں خوف وہراس پیدا کیا جارہا ہے تاکہ وہ زیادہ کرائم ریٹ والے علاقے سے نکل کر کم کرائم ریٹ والے علاقے یا محفوظ علاقوں کی طرف رہائش اختیار کریں ۔

پاکستان خاص طور پر کراچی میں اس قسم کی بہت منصوبہ بندی اور تراکیب پہلے بھی استعمال کی جاچکی ہیں۔اس لیے ماضی کو دیکھتے ہوئے اہل عقل لوگ اس بات کاتخمینہ لگارہےہیں ۔ لیکن بغیر حقیقت کے اندازے سے بات کرنا درست نہیں۔

مگرپچھلے 35 سالوںکے واقعات کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت سے انکار بھی نہیںکیاجاسکتا۔ حقیقت بہرحال آنے والے کل سے ہی واضح ہوگی۔لیکن اگر حکومت سنجیدگی سے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنالے توسارے مفروضے اورقیاس آرائیاں دم توڑ دیں گی۔

تازہ ترین