• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طبیعت انتہائی بوجھل ہے، کل رات سے ناکامی کا احساس ہتھوڑا بن کر دل و دماغ پر برس رہا ہے۔ رات بستر پرکروٹیں بدلتے ہوئے کئی مرتبہ خود کو یہ تسلی دینے کی کوشش کی کہ کوئٹہ میں ایک اور خود کش حملے میں ہزارہ برادری کے 80 سے زائد افراد کی موت حکومت کی ناکامی ہے۔ میری نہیں لیکن دل کہہ رہا تھا کہ یہ صرف حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کی ناکامی ہے جسے کوئٹہ اور بلوچستان کے بارے میں کچھ سچائیوں کا عمل ہے لیکن وہ پورا سچ سامنے نہیں لاتا۔پورا سچ بولنے والوں کو ملک دشمن ،علیحدگی پسندوں کا ساتھی اور کرپٹ قرار دیا جاتا ہے پھر بھی کوئی سچ بولنے سے باز نہ آئے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، دھمکیاں کارگر ثابت نہ ہوں تو ہمارے خفیہ ادارے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر جھوٹے مقدمات کا سہارا لیتے ہیں، اغواء اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو گاڑی میں بم نصب کروا کر کسی نان اسٹیٹ ایکٹر سے کہا جاتا ہے کہ تم ذمہ داری قبول کرلو۔ ریاستی اداروں اور غیر ریاستی عناصر کی یہ کوارڈی نیشن عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ عام لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ غیر ریاستی عناصر ہمارے ریاستی اداروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کررہے ہوتے ہیں لیکن جب کوئی مجھ جیسا بے وقوف یہ پوچھ بیٹھے کہ ریاستی اداروں پر حملوں کے ذمہ دار کوئٹہ اور بنوں کی جیلوں سے کیسے بھاگ نکلتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مجھ جیسے صحافیوں کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے کر خاموش کرانے کی کوشش ان طاقتور شخصیات کی طرف سے ہوتی ہے جو امریکہ سے وار کورس کرتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان میں ڈرون حملے کراتے ہیں اور امریکیوں کے دباؤ پر اپنی مدت ملازمت میں توسیع بھی پاتے ہیں لیکن جب کوئی پاکستانی یہ پوچھ بیٹھے کہ تم لوگ سیاستدانوں اور صحافیوں کی نقل و حرکت پر تو نظر رکھتے ہو لیکن آئے دن پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو بم دھماکوں میں اڑانے والے انسانیت دشمن عناصر کا پتہ کیوں نہیں چلاتے؟جواب میں کہا جاتا ہے ہم تو دہشتگردوں کو پکڑ لیتے ہیں لیکن میڈیا اور عدلیہ ان دہشتگردوں کو لاپتہ افراد قرار دے کر ان کی مدد کرتی ہے۔ میڈیا اور عدلیہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ملکی قانون کے تحت گرفتار افراد کو عدالتوں میں پیش کرو لیکن خفیہ ادارے گرفتار افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ اکثر گرفتار افراد بے گناہ ہوتے ہیں۔اصلی دہشتگردوں کو یا تو جیلوں سے بھگا دیا جاتا ہے یا پھر وہ گرفتار ہی نہیں ہوتے۔ خفیہ اداروں میں سب لوگ برے نہیں ، اکثریت اچھے لوگوں کی ہوتی ہے لیکن یہ اچھے لوگ آگے نہیں جاتے کیونکہ انہیں سازش کرنا اور جھوٹ بولنا نہیں آتا۔ خفیہ اداروں کے طاقتور عہدوں تک عام طور پر وہ لوگ پہنچتے ہیں جو پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ دشمن کے ہاتھ میں کھیلنے کیلئے صرف اپنی وفاداری بیچنا ضروری نہیں ہوتا، نااہلی اور غفلت کا مظاہرہ بھی دشمن کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہے۔
دشمن بار بار کراچی سے کوئٹہ اور بنوں سے پشاور تک بم حملے کرے اور ہمارے خفیہ ادارے ذمہ داروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہیں۔ پولیس، رینجرز ،ایف سی اور فوج کو پتہ ہی نہ چلے کہ کب کوئی دہشتگرد ایک ہزار کلو بارودی مواد واٹر ٹینکر میں بھر کر کوئٹہ میں داخل ہوگیا تو کیا ان اداروں کے سربراہان سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہئے؟ کیا ان کے خلاف انکوائری نہیں ہونی چاہئے؟ ہمارے خفیہ اداروں نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا کے اکثر علاقوں کو میڈیا کیلئے نوگو ایریاز بنا رکھا ہے۔ میں نے گواردر اور تربت سے لے کر کوئٹہ تک خفیہ اداروں اور سیکورٹی اداروں کے ظلم و ستم کی ایسی ایسی کہانیاں سنی ہیں کہ اوسان خطا ہوگئے۔ اس ظلم و ستم کا تعلق لوٹ مار سے ہے۔ جرائم پیشہ افراد کیساتھ ملکر اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کی جاتی ہیں۔ کوئٹہ پولیس کے پاس طاقتور خفیہ اداروں کے کچھ افسران کیخلاف ایسے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جن کے مطابق بعض اوقات کسی سے مہنگی گاڑی چھیننے کیلئے اس کے مالک کو لاپتہ کردیا جاتا ہے۔چند ماہ قبل مجھے کوئٹہ میں ایک پولیس افسر نے خفیہ اداروں، ایف سی اور کچھ شدت پسند تنظیموں کے غیر اعلانیہ تعاون سے متعلق خوفناک حقائق بتائے۔ اس افسر نے مجھے بتایا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف حملوں کی اصل وجہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ کچھ سرکاری اہلکار شدت پسندوں کے ساتھ مل کر ہزارہ برادری سے ان کی جائیدادیں چھین رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ہزارہ برادری کے علاوہ ہندوؤں، پارسیوں اور پنجابیوں کے علاوہ بلوچوں سے بھی جائیدادیں چھینی جارہی ہیں اور بلوچ علاقوں میں پشتونوں سے جائیداد چھینی جاتی ہے۔ بلوچستان کی بدامنی کا اصل فائدہ لینڈ مافیا اور پراپرٹی مافیا اٹھا رہا ہے جس کی کوئی زبان، نسل، قومیت ا ور فرقہ نہیں۔ اس بہادر پولیس افسر نے مجھے کچھ ثبوت مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے دن مجھے اپنی ایک آئینی درخواست پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں حاضر ہونا تھا، جب میں عدالت کے احاطے میں داخل ہوا تو کچھ لوگوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔ موقع پر موجود وکلاء مجھے بچا کرعدالت میں لے گئے، عدالت میں وہ بہادر پولیس افسر موجود تھا۔ اس نے مجھے احتیاط کا مشورہ دیا لیکن میں نے اصرار کیا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات سے فائدہ اٹھا کر پچھلے چار سال میں سب سے زیادہ جائیدادیں خریدنے والوں کے متعلق ثبوت مجھے ضرور دئیے جائیں۔ بہادر پولیس افسر نے کہا کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔افسوس کہ میرے ساتھ ملاقات کے بعد چند دنوں کے اندر اندر اس افسر کو شہید کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اور خفیہ ادارے اگر چاہیں تو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف حملوں کو روک سکتے ہیں لیکن اگر حملے رک گئے تو ہزارہ برادری کے بھائی بہن کوئٹہ سے ہجرت چھوڑ دینگے اپنی جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت نہیں کرینگے۔ بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے 16فروری کے خود کش حملے میں80سے زائد افراد کی موت کے بعد خفیہ اداروں کی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے۔ مگسی صاحب پانچ سال سے صوبے کے گورنر ہیں انہیں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان کا گورنر بنایا تھا۔ مشرف چلا گیا لیکن مگسی نہیں گئے۔مگسی سب کچھ جانتے ہیں، صرف خفیہ اداروں کی ناکامی کا اعتراف کافی نہیں۔ مگسی بتائیں کہ خفیہ اداروں کی بار بار ناکامیوں کے باوجود ان اداروں کے ذمہ داران کے خلاف آج تک کیا کارروائی ہوئی؟ صرف مگسی نہیں بلکہ افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر صدر آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل کیانی بھی بتائیں کہ ایک ہزارہ کلو بارودی مواد کو واٹر ٹینکر میں بھر کر کوئٹہ شہر میں لانے والے کو روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟ نااہلی حد سے بڑھ جائے تو پھر نااہلی کی مذمت کافی نہیں ہوتی بلکہ نااہلوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ہزارہ برادری کو تحفظ دینے میں ناکامی پر حکومت کی شرمندگی کا مجھے پتہ نہیں لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں تو بہت شرمندہ ہوں۔ ہزارہ برادری پر حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ کیا کوئی مجھے بتائے گا کہ ہزارہ برادری کے لوگ مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں کوئی انہیں کافر قرار دے کر وہاں نماز ادا کرنے سے نہیں روکتا لیکن پاکستان کے خفیہ ادارے ہزارہ برادری پر کفر کے فتوے لگانے والوں کو کیوں نہیں روکتے؟ کہیں پراپرٹی مافیا اور ملک دشمن عناصر ملکر الیکشن کیخلاف آخری سازش کا آغاز تو نہیں کرچکے؟ الیکشن کے بعد خفیہ اداروں کو بلوچستان میں موج مستی اور لوٹ مار میں بہت مشکل ہوگی، نئی حکومت احتساب بھی کرسکتی ہے۔ خود ہی سوچئے اس آخری سازش کا مقصد کیا ہے؟
تازہ ترین