• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مَیں اُتھے پراں رہنی آں۔میرے چھے بچّے نیں، شوہر فوت ہوگیا ہے، بڑی مشکل نال گزر اوقات ہو رہی سی۔ ایک دن شمائلہ تے اقراء میرے گھر آیاں۔ میرے مالی حالات پُچھے، تو بھائی، چُھپانا کی سی، سب کچھ اُنھانوں دَس دِتا۔ اُنھاں، مینوں سیلز ایجنٹ دے کام دا مشورہ دِتا۔ پہلاں مینوں شرم آئی کہ آس پڑوس کی کہے گا، فیر بچیاں دی طرف ویکھیا تے ہامی بَھر لئی‘‘( مَیں وہاں دُور رہتی ہوں۔ چھے بچّے ہیں، شوہر کا انتقال ہوگیا۔ بڑی مشکل سے گزر اوقات ہو رہی تھی۔ 

ایک دن شمائلہ اور اقراء نام کی لڑکیاں ہمارے گھر آئیں۔ اُنھوں نے ہمارے مالی حالات کے بارے میں پوچھا، تو بھائی چُھپانا کیا تھا، مَیں نے سب کچھ اُنھیں بتا دیا۔ اس پر اُنھوں نے مجھے سیلز ایجنٹ کے طور پر کام کا مشورہ دیا۔ پہلے تو مجھے شرم آئی کہ آس پڑوس کیا کہے گا، لیکن جب بچّوں کی طرف دیکھا، تو ہامی بَھر لی)۔ ’’ پھر کیا ہوا؟‘‘ 

ہمارے تجسّس سے پُر سوال پر وہ ایک لمحے کے لیے رکیں، دوپٹّے کے پلّو سے ماتھے پر ٹھہرے پسینے کے چند قطروں کو پونچھا، پھر بولیں’’ کرنا کی سی جی! بس اللہ دا ناں لے کے کم شروع کردِتا۔ نیسلے دی طرفوں دودھ دے ڈبّے، جوس تے پانی دی بوتلاں مِلیاں۔ او پنڈ دی آٹھ، دس دُکاناں تے بیچن لے گئی۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
پنڈی بھٹیاں کی ملحقہ بستی اور ایک گاؤں کی خواتین جو اپنی پرچون کی دکانیں کام یابی سے چلا رہی ہیں

اِس طرح روزی روٹی دی راہ نکل آئی۔ فیر چھوٹی جئی پرچون دی دُکان پالئی۔ آمدنی ہون لگی تے گھر دے حالات وی بدل گئے۔ ہُن صرف نیسلے پراڈکٹس توں ماہانہ چار پنج ہزار روپے کما لینی آں۔‘‘(کرنا کیا تھا جی! بس اللہ کا نام لے کر کام شروع کردیا۔ نیسلے کی جانب سے دودھ کے ڈبّے، جوسز اور پانی کی بوتلیں وغیرہ دی گئیں، جو مَیں گاؤں کی آٹھ، دس دُکانوں پر بیچنے کے لیے لے گئی۔ اِس طرح روزی روٹی کا ایک راستہ نکل آیا۔ 

پھر چھوٹی سی پرچون کی دُکان شروع کردی۔ یوں آمدنی ہونے لگی، تو گھر کے حالات بھی بدل گئے۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
زبیدہ بی بی

اب صرف نیسلے پراڈکٹس ہی سے ماہانہ چار پانچ ہزار روپے کما لیتی ہوں)۔ یہ پنڈی بھٹیاں کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی، زبیدہ بی بی کی معاشی تگ و دو کی داستان ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے صحافیوں پر مشتمل وفد نے وہاں کا دورہ کرکے ایسی ہی کئی پُرعزم خواتین کی معاشی کام یابیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، جو حیران کُن ہی نہیں، قابلِ تقلید بھی ہیں۔ 

ہم نے نیسلے پاکستان کی مینجر پبلک افئیرز، فاطمہ احمد اختر سے پوچھا’’ اس پراجیکٹ کی نوعیت کیا ہے؟ اور کون سے اداروں کا تعاون حاصل ہے؟‘‘تو اُنھوں نے بتایا’’ اِس پروگرام کا آغاز 2017ء میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی معاونت سے ہوا۔ 

اُن دنوں ماروی میمن صاحبہ بی آئی ایس پی کی سربراہ تھیں۔ اُنھوں نے اِس پراجیکٹ میں بہت زیادہ دِل چسپی لی۔ رینالہ(پنجاب) سے کام کا آغاز کیا گیا۔ 2018ء میں یہ پراجیکٹ ایک ضلعے سے10 اضلاع تک پھیل گیا اور387 خواتین بہ طور سیلز ایجنٹس اس سے منسلک ہو گئیں۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
فاطمہ احمد اختر

رواں برس مزید وسعت آئی اور اب 23 اضلاع کے 446 دیہات میں، جن میں سے30 سندھ اور باقی پنجاب کے ہیں، سرگرمیاں جاری ہیں، جب کہ اس پراجیکٹ سے اب 800 کے لگ بھگ خواتین مستفید ہو رہی ہیں۔‘‘’’ باقی صوبوں میں کام کی رفتار سُست کیوں ہے؟‘‘ اس سوال پر سیلز ایگزیکٹیو، شاہد عمران نے بتایا’’ چوں کہ پنجاب کے دیہات نسبتاً بڑے رقبے پر پھیلے ہوتے ہیں۔ وہاں کئی دُکانیں موجود ہوتی ہیں، تو اسی مناسبت سے مال کی کھپت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ 

لہٰذا ان دیہات میں خواتین ہمارے پراجیکٹ کے تحت آسانی سے کاروباری سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، سندھ کے گاؤں عام طور پر چند گھروں پر مشتمل ہیں، تو وہاں کی خواتین کو بہ طور سیلز ایجنٹ کام کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، اُنھیں مال کی فروخت کے لیے اپنے گاؤں کے علاوہ بھی بہت سے علاقوں میں جانا پڑتا ہے، جو خواتین کے لیے آسان کام نہیں۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
مقامی خواتین کو صحت و صفائی سے متعلق آگاہی دی جا رہی ہے

جب کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں مقامی رسم و رواج کے سبب خواتین کم ہی گھروں سے باہر نکلتی ہیں، تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود بھی ان علاقوں کی خواتین کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔‘‘

فاطمہ اختر نے بی آئی ایس پی کے کردار اور پراجیکٹ کے عملی پہلوؤں کے بارے میں بتایا’’ بی آئی ایس پی کا اِس پراجیکٹ میں صرف یہ رول ہے کہ اُس کی جانب سے ہمیں ضرورت مند خواتین کی تفصیلات مہیا کی جاتی ہیں، باقی سارا کام ہم خود کرتے ہیں۔ ہم نے ایک طرف تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے خواتین کا ڈیٹا لیا، مگر صرف اُسی پر انحصار نہیں کیا، ہماری خواتین پر مشتمل ٹیمز نے اس ڈیٹا کی روشنی میں خود بھی گاؤں گاؤں جا کر معلومات اکٹھی کیں۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
کلثوم بی بی

خواتین سے ملاقاتیں کر کے اُنھیں خود انحصاری پروگرام کی تفصیلات بتائیں، اُن کی ہمّت بڑھائی، حوصلہ دیا اور اُن کے گھر کے مَردوں کو قائل کیا۔ ہمارا ہدف یہ تھا کہ معاشی طور پر کم زور اور ضرورت مند خواتین کو سیلز ایجنٹ بنا کر اُنھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں۔گو کہ ضرورت مند خواتین کو مالی امداد دینا بھی کئی اعتبار سے مفید ہے کہ اس سے اُن کی کئی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں، مگر اصل کام یہی ہے کہ ایسی خواتین کو مستقل طور پر معاشی لحاظ سے مضبوط بنایا جائے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی نصف سے زاید آبادی خواتین پر مشتمل ہے، آپ اُنھیں نظر انداز کرکے ترقّی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ 

یہ خواتین جنھیں تین، تین ماہ بعد پانچ ہزار روپے امداد ملتی تھی، اب ہر ماہ پانچ ہزار، بلکہ کئی ایک تو دس ہزار کے قریب کما رہی ہیں۔ درحقیقت یہ وہ خواتین ہیں، جنھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے حالات خود بدلیں گی۔ شروع میں تو خواتین نے سیلز ایجنٹ کے طور پر کام میں کوئی خاص دِل چسپی نہیں لی، بلکہ وہ اس طرح کی باتوں پر حیرت کا اظہار کرتیں۔ 

مگر پھر ہم نے اپنی رورل سپورٹ ٹیمز میں خواتین ہائر کیں، جو اُن کی زبان بول سکتی تھیں اور اُن کے رسم ورواج سے بھی واقف تھیں، تو اُن ٹیموں کے کام سے بہت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے، کیوں کہ خواتین کو خواتین کے ذریعے بات سمجھانا زیادہ آسان اور مؤثر طریقہ ہے، خاص طور پر دیہات کے مخصوص ماحول میں۔ 

اب بہت سی خواتین اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، کئی علاقوں اور گھرانوں میں اب بھی خواتین کے سیلز ایجنٹ کے طور پر کام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔‘‘ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ سیلز ایجنٹ کے طور پر شہری خواتین بھی کام کر سکتی ہیں، مگر دیہات پر زیادہ فوکس کا سبب یہ ہے کہ وہاں کی خواتین کو معاشی میدان میں بہتری کے مواقع شہری خواتین کی نسبت کم حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ کانفرنس روم میں ہماری گفتگو جاری تھی کہ اسی پراجیکٹ سے منسلک چند خواتین وہاں آگئیں۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
بشریٰ بی بی

ہم نے اُن سے بھی پروگرام کے حوالے سے کچھ سوالات کیے۔ بشریٰ بی بی شہری آبادی سے دُور ایک گاؤں میں رہتی ہیں، اُنھوں نے اپنے بارے میں بتایا ’’میری پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ گھر کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ آمدنی کم، خرچے زیادہ۔ نیسلے والوں نے مجھ سے رابطہ کیا، تو اُن کی بات دل کو لگی اور مَیں سیلز ایجنٹ بننے پر آمادہ ہوگئی۔ شوہر سے مشورہ کیا، تو وہ بھی جیسے تیسے مان ہی گیا۔ مَیں دودھ، جوسز اور صاف پانی کی بوتلیں وغیرہ خرید کر گاؤں کی آٹھ، نو دُکانوں پر سپلائی کرتی ہوں۔ 

خواتین سیلز ایجنٹس
شاہد عمران

اچھا منافع ہو رہا ہے۔ اِنھوں نے ہمیں اس کام کی بنیادی تربیت فراہم کی اور’’ اخوّت‘‘ سے قرضۂ حسنہ بھی لے کر دیا، کیوں کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ مال خرید سکوں۔ اب میرا کام دیکھ کر دوسری عورتیں بھی مشورے کے لیے آتی ہیں اور مَیں خود بھی ضرورت مند خواتین کو اس کام کا مشورہ دیتی ہوں۔‘‘ ’’ تو کیا خواتین کو قرضہ بھی دیا جاتا ہے؟‘‘ ’’جی ہاں! ہم خواتین کو قرض کی بھی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ شاہد عمران نے ہمارے سوال کے جواب میں بتایا’’ دراصل، بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں، جن کے پاس کاروبار شروع کرنے کے لیے چند ہزار روپے بھی نہیں ہوتے۔ 

لہٰذا، اُن کی مالی مدد کے لیے ہمیں فلاحی ادارے’’ اخوّت‘‘ کی مدد حاصل ہے، جس کی جانب سے خواتین کو انتہائی آسان شرائط پر50 ہزار روپے تک بلاسود قرض دیا جاتا ہے۔‘‘ پراجیکٹ سے وابستہ کلثوم نامی خاتون نے بتایا، وہ بیوہ ہیں اور بڑی محنت سے اپنے بچّوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ ہمارے سوال پر بولیں’’ مَیں ڈیڑھ سال سے یہ کام کر رہی ہوں، شوہر وفات پا چُکے ہیں اور چھے بچّے ہیں۔ 

پہلے گھر میں سلائی کڑھائی کا کام کیا کرتی تھی، ایک دن اِن کی ٹیم گاؤں میں خواتین سے ملاقاتیں کر رہی تھی، مجھ سے بھی ملی، تو مَیں نے اُن کے تعاون سے سیلز ایجنٹ کے کام کا فیصلہ کرلیا۔ کاروبار کے لیے پیسوں کا انتظام بھی اِنھوں نے ہی کر کے دیا۔ شروع میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے، مال لے کر کسی دکان پر جاتی، تو اکثر اوقات مذاق کا نشانہ بنتی، مگر اب لوگوں کا رویّہ بدل رہا ہے اور وہ حوصلہ افزائی کرنے لگے ہیں۔‘‘

ہم نے دیکھا، ایک بڑے ہال میں ہیلتھ سے متعلق ورکشاپ ہو رہی تھی، جس میں دو درجن سے زاید مقامی خواتین شریک تھیں۔ خواتین کو چارٹس اور مختلف ویڈیو کلپس کی مدد سے صحت وصفائی کے حوالے سے ضروری آگاہی دی جا رہی تھی۔ سوال و جواب کے سیشن میں خواتین نے اپنی اور بچّوں کی صحت سے متعلق کئی سوالات کیے، جس سے اندازہ ہوا کہ اُنھیں اب حفظانِ صحت کے تحت زندگی گزارنے کی اہمیت کا ادراک ہوتا جا رہا ہے۔ ورکشاپ ہینڈل کرنے والی خاتون، وجیہہ وقاص تقریباً تمام شرکاء سے کم عُمر تھیں، مگر وہ جس مہارت سے سوالات کے جواب دے رہی تھیں، اُس سے اُن کی موضوع پر گرفت نظر آ رہی تھی۔ 

ہماری وجیہہ سے مختصر بات چیت ہوئی، جس میں اُن کا کہنا تھا’’ چوں کہ نیسلے بنیادی طور پر نیوٹریشن کمپنی ہے اور اِن دنوں مُلک کو غذائی مسائل کا سب سے زیادہ سامنا ہے، تو پراجیکٹ میں اِس پہلو کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ ہم عمومی صحت سے متعلق پروگرام بھی کر رہے ہیں، جس میں لمبے چوڑے لیکچرز کی بجائے خواتین کو غذاؤں اور حفظانِ صحت سے متعلق بنیادی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ جیسے صفائی ستھرائی کی کیا اہمیت ہے؟ صاف پانی کیوں ضروری ہے؟ بچّوں کو کس طرح کی خوراک دی جانی چاہیے؟ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

بریفنگ، پراجیکٹ سے متعلقہ افراد سے ملاقاتوں اور ورکشاپ میں شرکت کے بعد ہم ایسی دُکانیں دیکھنے نکلے، جنھیں اِس پراجیکٹ میں شامل خواتین چلاتی ہیں۔ ہماری پہلی منزل پنڈی بھٹیاں شہر کی ایک پس ماندہ کالونی تھی، جہاں ایک باہمّت خاتون بڑی کام یابی سے پرچون کی دُکان سنبھال رہی ہیں، جو گھر ہی کے ایک حصّے میں بنائی گئی ہے۔ وہاں سے کوئی گھنٹے بھر کی ڈرائیو کے بعد ایک گاؤں پہنچے، وہاں بھی ایک خاتون نے اپنے گھر میں دُکان بنا رکھی ہے۔ یہ دونوں دُکانیں دیہی ماحول کے اعتبار سے کافی بہتر تھیں اور اُن میں کافی سامان موجود تھا۔ 

وہ خواتین بے حد خوش نظر آئیں۔ اُنھوں نے اپنے معاشی خود کفالت کے سفر کی تفصیلات بھی بتائیں، جو اس بات کی عکّاس ہیں کہ ہماری خواتین معاملہ فہمی، صلاحیت اور محنت میں کسی سے کم نہیں۔ اگر کسی چیز کی کمی ہے، تو وہ اُن کی حوصلہ افزائی اور آگے بڑھنے کے مساوی مواقع کی ہے۔ دُکانوں کے دورے کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ’’ کمپنی کی جانب سے عام گاہکوں کو چار فی صد مارجن پر اشیاء دی جاتی ہیں، مگر اس پراجیکٹ سے منسلک خواتین کو بارہ فی صد منافع دیا جا رہا ہے۔ 

نیز، ان سیلز ایجنٹ خواتین کو خصوصی کارڈز بھی جاری کیے گئے ہیں، جن کی مدد سے وہ سہولت کے ساتھ خریداری کر سکتی ہیں۔‘‘دیہات کا یہ عام کلچر ہے کہ اگر وہاں کوئی نیا شخص جائے، تو لوگ اُسے غور سے اور مُڑ مُڑ کر دیکھتے ہیں۔ ہمارا قافلہ تو پانچ، چھے گاڑیوں پر مشتمل تھا، اس لیے ہم پر تو ہر طرف سے نظریں لگی ہوئی تھیں۔ 

کئی افراد ہمیں دیکھ کر دُکان سے کچھ فاصلے پر جمع ہوگئے اور ہماری طرف دیکھ کر اشارے اور باتیں کرنے لگے۔ ہم نے کچھ فرصت دیکھی، تو اُن کی طرف چلے آئے تاکہ کچھ حال احوال ہوجائے۔ ایک بڑے میاں سے خواتین دُکان دار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’چچا! یہ کیسا کام ہے؟‘‘ تو وہ بولے’’ پُتّر! بھیک توں تے چنگا اے۔‘‘

تازہ ترین