• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عدیل خان

انسان کا اس کی تہذیب و تمدن سے رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسانی تاریخ کا۔ کسی بھی ملک کے عجائب گھر وہاں کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایسا ہی ایک عجائب گھر کراچی شہر میں 'نیشنل میوزیم آف پاکستان کے نام سے بھی قائم ہے ،جہاں مختلف انواع و اقسام کی تاریخی نایاب اشیا ءاور نوادرات رکھے گئے ہیں۔

نیشنل میوزیم آف پاکستان 1951ء کو تاریخی عمارت سب سے پہلے ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے 1871 میں اس وقت کے مشہور زمانہ ٹاؤن ہال ’’فریئر ہال‘‘ کی اوپری منزل سے اس کا آغاز کیا،اس میوزیم کو اس وقت وکٹوریہ میوزیم کا نام دیا گیا تھا، پھر اچانک اس میوزیم کو سپریم کورٹ کراچی کے رجسٹری آفس منتقل کر دیا گیا۔ عجائب گھر کی منتقلی کے باوجود اس کے نام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اسے وکٹور یہ میوزیم کے نام سے ہی جانا اور مانا جاتا رہا۔

پھر جب بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کی کاوشوں اور کوششوں سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایک ایسے عجائب گھر کے بارے میں سوچا جانے لگا جسے قومی عجائب گھر کا در جہ دیا جا سکے، لہٰذا برنس گارڈن جو کہ قدامت کے اعتبار سے کراچی کا پہلا باغ تھا، کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور باغ کے اندر قومی عجائب گھر قائم کرنے کی منظور ی بھی دے دی گئی، جس کے بعد تیزی سے اس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا اور جلد ہی ایک 5 منزلہ دیدہ زیب عما رت تعمیر ہو گئی۔

یہ برنس گارڈن کے احاطے میں 1969 سے قائم ہے۔ 1929 میں قائم ہونے والا یہ کراچی کا پہلا باغ تھا جو 25 ایکڑ اراضی پر مشتمل تھا۔اس کے بعد وکٹوریہ میوزیم کے نوادرات جو کہ مختلف وقتوں میں کبھی ڈی جے کا لج اور کبھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس اور دیگر عمارتوں میں رکھے گئے تھے، سے نوادرات کو اکھٹا کرکے نیشنل میوزیم کراچی کے اندر منتقل کر دیا گیا۔

ابتدائی طور پر یہاں 2 یا 3 گیلریاں شروع کی گئیں جن میں قرآنک گیلری اور گندھارا آرٹ گیلری شامل ہیں۔ بعد ازاں قومی عجائب گھر کے اندر لگ بھگ 8 سے زائد گیلریاں قائم کرلی گئیں ۔نیشنل میوزیم پورے پاکستان کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جہاں پتھر کے دور سے لے کر قیام ِپاکستان تک کے صدیوں پرانی نادر اشیاء رکھی گئی ہیں۔عجائب گھر کی ’انڈس سویلائزیشن گیلری‘ میں پاکستان میں بسنے والے افراد کے قدیم لائف اسٹائل کو دکھایا گیا ہے، جس میں پنجابی، سندھی اور بلوچی طرز کے عکس نمایاں ہیں، جنھیں مجسموں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔

ایک جانب قدیم دور کے مصوروں کے فن کو نمائش کےلئے پیش کیا گیا ہے، جبکہ کراچی میں قائم عجائب گھر میں قرآن گیلری اپنی مثال آپ ہے۔

دوسری جانب لوہے کے نادر زیورات رکھے گئے ہیں۔ ایک جانب جنگی اشیا ءہیں جو جنگ میں استعمال ہوا کرتی تھیں ا س میں لوہے کی آہنی تلواریں، لوہے کی ٹوپی، تیر کمان، چاقو چھریاں شامل ہیں۔ قدیم زمانے کے مٹی کے برتن بھی ہیں۔ایک اور گیلری میں ہڑپہ کے کھنڈرات سے ملنےوالے مجسمے اور موئن جو دڑو کے نوادرات رکھے گئے ہیں ،جسے دیکھ کر قدیم ثقافت و طرز زندگی کو یاد کیاجا سکتا ہے۔ 

دوسری جانب ہندو گیلری میں گندھارا اور بُدھ مت کے مجسمے رکھے گئے ہیں، جبکہ ان مجسموں میں ٹیکسلا کے مقام سے ملنے والے قدیم زمانے کے بدھا مجسمے بھی گیلری کی زینت بنے ہوئے ہیں مٹی کے مجسمے اور بدھ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔

ایک جانب قدیم سکوں کی گیلری ہے، جہاں چھ صدیوں پرانے چاندی، تانبے کے سکے اور مہریں رکھے گئے ہیں جو پرانے زمانے میں استعمال ہوا کرتے تھے جبکہ یونانی دور میں استعمال ہونے والے نادر سکے بھی نمائش کے لیے رکھےگئے ہیں۔ فریڈم گیلری میں قیام ِپاکستان کے وقت قائداعظم کو ملنے والے بیجز، دستاویزات اور اُن کی تصاویر رکھی گئی ہیں

جبکہ شیشے کے ایک فریم میں پاکستان کی 'پہلی کابینہ اجلاس کے اہم دستاویزات اور سپاس نامے بھی رکھے گئے ہیں۔

بانی پاکستان قائداعظم کو ملنےوالے مختلف یادگاری بیجز رکھے گئے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ سے ملنےوالا بڑے سائز کا بیج بھی ہے، جس پر آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدیداروں کے نام درج ہیں،اسی گیلری میں ایک جانب علامہ اقبال کی 'پگڑی، چھڑی، چھتری اور ان کی اہم دستاویزات شامل ہیں۔

لیاقت علی خان کی زیر استعمال ان کی ذاتی اشیاء بھی رکھی گئی ہیں۔ جن میں ان کا قلم ، لائٹر،چھڑی، بیجز اور گھڑی بھی شامل ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی مشہور شخصیات نیشنل ہیروز کی تصاویر بھی دیوار پر نصب ہیں۔

​قومی عجا ئب گھرکراچی جو کہ قیام پاکستان کے بعد وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کا حصہ تھی اور اس کے انتظا مات یہی محکمہ سنبھا لتا تھا 2011میں 18ویں تر میم کے آنے کے بعد اسے سندھ کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد اس وقت سے لے کر ماہ جنوری تک یہ سندھ کے زیر انتظام چلا گیا تھا مگر 17جنوری 2019کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے ریٹائر منٹ شروع ہو نے سے ایک روز قبل اسے پھر سے وفاق کے زیر انتظام کر دیا ہے جس کے بعد صوبائی حکو مت نے وفاق کو اس کے اختیا رات واپس لوٹا دئے ہیں اور اس کے تمام تر انتظا مات ایک بار پھر محکمہ آثار قدیمہ نے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

تازہ ترین