• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی اور بھارتی فورسز کی تعمیرات کی وجہ سے مقامی کسان سرحد کے نزدیک اپنی زرعی اراضی گنواچکے ہیں جبکہ انہیں مزید اراضی کھونے کا بھی خدشہ ہے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک بھارتی کسان بریام سنگھ نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فوج ہمارے گاؤں میں اپنی تعمیرات کر رہی ہے جس کی وجہ سے ہماری زرعی زمین سکڑتی جارہی ہے۔

بریام سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی سرحد سے نزدیک اب تک ہماری آدھی سے زائد زمین ملٹری لاک ڈاؤن کے اندر آچکی ہے۔

بھارت میں سرحد کے قریب رہائش پذیر افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بارڈر ویلفیئر کمیٹی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 سال سے بھارتی فوج اور بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) دفاعی آلات نصب کرنے کے لیے جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع کی زرعی اراضی اپنے قبضے میں لے چکی ہے۔

پاکستانی سرحد سے متصل گاؤں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج نے یہاں خاردار تاریں لگائی ہوئی ہیں اور بارودی سرنگیں بھی بچھائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کھیتوں میں نہیں جاسکتے جبکہ ان کے اس نقصان کا ازالہ بھی نہیں کیا جاتا۔

بریام سنگھ کہتے ہیں کہ اس پریشانی کی وجہ سے کسانوں کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے پاس متبادل ذرائع آمدن بھی نہیں ہیں۔

ایک سماجی کارکن آئی ڈی خجوریا کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رواں برس اگست میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد کسانوں کو اپنی مزید اراضی کھونے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب جموں کے ڈویژنل کمشنر سنجیو ورما کا کہنا ہے کہ تمام کسانوں کو ان کی زمینوں کی قیمت ادا کی جائے گی۔

تاہم یہ قیمت کون اور کب ادا کرے گا اس حوالے سے جموں ڈویژنل کمشنر نے کچھ نہیں بتایا۔

سماجی تنظیم کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ اگر کسانوں کو اپنے کھیتوں میں جانے کے لیے ایک وقت دیا جائے جہاں وہ کاشت کر بھی لیں تب بھی پاکستان اور بھارتی فوسرز کے فائرنگ کے تبادلے کا خطرہ ہے لیکن اگر مقررہ وقت کے علاوہ کھیتوں میں نہیں جائیں گے تو وہ اپنی فصلوں کو جانوروں سے محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔

مذکورہ کمیٹی کے صدر نانک چند کا کہنا ہے کہ میرے پاس 25 ایکڑ اراضی تھی، جس میں سے 2004 میں فوج نے 20 ایکڑ پر قبضہ کرلیا تھا جبکہ تین ماہ قبل باقی 2 ایکڑ پر بھی قبضہ کرلیا گیا اور اب میں بے زمین ہو چکا ہوں۔

نناک چند کہتے ہیں کہ انہیں ان کی اس زمین کے بدلے میں 30 لاکھ بھارتی روپے معاوضہ دیا گیا، لیکن وہ اس رقم سے بھارت کے کسی دوسرے حصے میں اتنی بڑی اراضی نہیں خرید سکتے۔

سماجی کارکن آئی ڈی خجوریا کا کہتے ہیں کہ اب بلڈرز اور کاروباری شخصیات مقبوضہ جموں و کشمیر کا رخ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کی قیمتیں ممکنہ طور پر بہت اوپر چلی جائیں گی جس کی وجہ سے ایک غریب کسان کے لیے دوسری جگہ پر زمین لینا مشکل ہوجائے گا۔

نانک چند کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں 2018 میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت سرحد کے قریب بسنے والے کسانوں کو ان کی زمین کا کرایہ دلوائے۔

مذکورہ پٹیشن پر اب تک بھارتی فوج یا حکومت کی جانب سے کوئی جواب داخل نہیں کروایا گیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین