میرپور خاص سے مشرق کی جانب، کھپرو روڈ پر 22کلومیٹر کے فاصلے پر مانکانی تالپوروں کا تاریخی قبرستان ’’چٹوڑ ‘‘واقع ہے۔تاریخی حوالوں سے معلوم ہو تا ہے کہ چٹوڑی کا قبرستان کلہوڑو حکومت کے ابتدائی عہد سے تعلق رکھتا ہے، جس کی وسعت تقریباً 64 ایکڑ ہے۔ اس قبرستان میں سب سے پہلے تالپور میر، میر موسیٰ تالپور کو دفنایا گیا تھا ، لیکن اس سے قبل قبرستان میں مقامی افراد کی قبریں موجود تھیں۔
چٹوری‘‘ نام سے کچھ روایات بھی وابستہ ہیں۔علاقے کےقدیم باشندوں کا کہنا ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان واقع ہے، اس مقام پر کسی زمانے میں ایک جھیل تھی، جس میں ایک مخصوص جلدی بیماری میں مبتلا افراد غسل کیا کرتے تھے اور حیرت انگیز طور پر وہ اس سے شفایاب ہوتے تھے۔
اس بیماری کو لوگ ’’چٹی ‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ رہ روز سندھ کے دور دراز کے علاقوں سے سےدرجنوں لوگ مذکورہ بیماری سےشفایاب ہونے کے لیے اس جھیل پرغسل کرنے آتے تھے ۔جھیل کے نام کی مناسبت سے مذکورہ قبرستان کانام ’’چٹوڑی قبرستان پڑ گیا۔اس سلسلے میں دوسری روایت لوک کہانی کی صورت میں ہے، اس میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی دور میں اس جگہ کو ’’چٹ کا میدان ‘‘ کہا جاتا تھا۔
اس زمانے میں تین دوستوں ، جن کی دوستی مثالی حیثیت رکھتی تھی، انہوں نے اپنے مرنے کے بعد اس میدان میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کا انتقال ایک ساتھ ہوا جس کے بعد انہیں ’’چٹ کے میدان‘‘ میں دفن کیا گیا جو بعد میں چٹوڑی قبرستان کے نام سے مشہور ہوا۔
میر موسیٰ تالپور کی تدفین کے بعد اس کا شمارتالپور خاندان کے شاہی قبرستان کے طور پر ہونے لگا۔ مانکانی تالپوروں کے سب مقابر،خاکی پتھروں کے بنے ہوئے ہیں جوا علیٰ نمونے نقش و نگار سے مزین ہیں۔اس قبرستان میں تالپور حکمرانوں کے علاوہ ان کی اولاد اور خاص مصاحبین کے بھی مقبرے ہیں۔
یہاں میر فتح علی خان تالپور، شیر سندھ میر شیر محمد خان تالپور ،ٹنڈو الہٰیار شہر کے بانی میر اللہ خان تالپور ثانی، میرپور خاص شہر کے بانی و سندھ کے حاکم دوام میر علی مراد خان تالپور،میر ٹھارو خان تالپور، میر اللہ ڈنو خان تالپور ،میر مسو خان تالپور، شہید میر جادوخان تالپور، میر راجو خان تالپور ،میر شاہ محمد خان تالپور والی ،ٹنڈو الہیار ،میر علی بخش خان تالپور ،میر امام بخش خان تالپور ، سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا بھانجا اور محترمہ فریال تالپور اور میر منور علی خان تالپور کے جوان سال فرزند میر سرور علی خان تالپور، کامبھو خان شورو ، مشہور جنرل بیڑو خان کھوکھر، عالمی شہرت یافتہ سندھ کے مشہور سندھڑی آم کے بانی اور سابق وزیر اعظم پاکستان مرحوم محمد خان جونیجوکے والد خان صاحب دین محمد جونیجو سمیت بڑی تعداد میں سندھ کی تاریخ ساز اور قدآور شخصیات ابدی نیند سو رہی ہیں۔
چٹوڑی قبرستان میں سندھ کی نایاب تہذیب و ثقافت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ قبروں پر انتہائی دلکش نقش و نگار والے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، ان پتھروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بھارت کے علاقے جے پور، جودھپور کے علاوہ دیگر راجستھانی علاقوں سے لائے گئے تھے۔ قبروں پر اعلیٰ قسم کی نقش ونگار کی وجہ سے ہی اسے سندھی میں چٹوڑی کہا جاتا ہے۔مقبروں پر انتہائی مہارت کے ساتھ خوبصورت ،دیدہ زیب ، بلند وبالا سائبان تعمیر کئے گئے ہیں۔
جنہیں مقامی زبان میں ’’قبا‘‘ کہتے ہیں۔ قبروں کے اطراف میں کشادہ صحرا ہیں، وسیع وعرض دالان، جبکہ بعض قبروں پر بڑے بڑے گنبد اور تازہ ہوا کے گزر کیلئے انتہائی مہارت سے پتھروں کی جالیاں لگائی گئی ہیں۔چٹوڑی میں قبرستان کے شمالی حصہ میں ’’گادی شاہ ‘‘کے درویش وکنجوانی فقیر فقیر مدفون ہیں۔ یہ فقیر قصبہ راجو خانانی کے باشندے تھے۔
ان فقیروں سے مانکانی تالپوروں کی دوستی تھی۔ اس لئے مانکانی تالپور بھی یہیں مدفون ہیں، قبرستان کے مغربی حصے میں قریشی خاندان کے لوگ مدفون ہیں۔ جنوبی و مشرقی جانب مانکانی تالپوروں اور ان کے فوجی عملدار مدفون ہیں۔ علاوہ ازیں اس تاریخی قبرستان میں کیری بلوچوں کی قبریں بھی ہیں، جو مانکانی تالپوروں کے وفادار فوجی تھے۔
ایک کیری بلوچ کی قبر کو مقبرہ بھی کہا جاتا ہے جسکے اندر دو اور قبریں بھی ہیں۔ ایک جگہ میان مائل فقیر بلوچ کی بھی ہیں۔ اس قبرستان میں شر بلوچوں کی قبریں کافی تعداد میں پائی جاتی ہیں ،یہ سب مانکانی تالپوروں کے فوجی تھے۔ یہاں میر صاحبان کی تربتوں اور مقابر کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:۔
میر راجو کا مقبرہ :۔
میر الہٰہ یار خان تالپور کے فرزند میر راجو کا مقبرہ جس کی تعمیر مقامی زرد پتھر اور چھونے سے کی گئی ہے۔ اس پر مکلی کے قبرستان جیسے نقوش ہیں، تاہم موسمی اثرات کے باعث اب اس کی حالت مخدوش ہو گئی ہے۔ یہ مقبرہ شاہی قبرستان میں جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کا اوپر والا چبوترہ 31مربع فٹ ہے۔ جس کے اوپر پلیٹ فارم کا سائز 24مربع فٹ ہے۔ اور اس پر مقبرہ کا سائز17مربع فٹ ہے۔
اب اس کا گنبد گر چکا ہے اور بنیاد مخدوش ہو چکی ہے۔ مقبرہ اونچے چبوترے پر زرد پتھر سے بنا ہوا ہے۔ مغربی سمت کی قبر کے سرہانے اور شمالی دیوار میں ایک ٹوٹی ہوئی تختی پر فارسی میں کتبہ لگا ہوا ہے جس پر صاحب مزارکا نام میر راجو ولد میر اللہ یار خان تالپور درج ہے۔
مقبرہ میر علی مراد خان تالپور:۔
پکی اینٹوں سے بنے ہوئے اس مقبرے کی اندرونی سطح پر پلاستر کیا گیا ہے یہ مقبرہ میر علی مراد خان تالپور کا ہے۔
مقبرہ میر موسیٰ خان تالپور:۔
میر موسیٰ ولد میر اللہ یار خان تالپور کے مقبرہ کی عمارت مربع شکل کی ہے۔ جس پر گنبد بنا ہوا ہے۔ جبکہ فرش پتھروں کا ہے۔اس مربع مقبرہ کی پیمائش34فٹ چبوترے کا سائز34فٹ اور اس کی عمارت13فٹ مربع ہے۔ یہ مقبرہ میر راجو کے مقبرے کے مشرق میں ہے اور اسی انداز کی تعمیر ہے۔
اس کے چونے کے پلاستر والی گنبد محفوظ ہے۔ مگر اس کی سطح کے ہر طرف دراڑ یںآ چکی ہیں۔ مقبرے کی اندرونی سطح پر چھوٹے زرد پتھروں سے بنائی گئی تھی اب تک محفوظ ہے۔ اس کے گنبد کی دوسری سطح پر ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔
اندرونی طرف ایک اونچے چبوترے پر میر موسیٰ کے قبر کے پاس منقش پتھروں کی ریلنگ لگائی گئی ہے۔ شمالی، دیوار کے ستوں میں فارسی تحریر ہے۔ جب میر موسیٰ نے وفات پائی، اس وقت ان کے مقبرہ کی تعمیر پر 5ہزار روپے لاگت آئی تھی، اس کا فرش پتھروں کی سلوں سے بنایا گیا ہے۔
مقبرہ میر امیر خان تالپور :۔
یہ اینٹوں اور چوتھے کا بنا مربع شکل کا مقبرہ ہے۔اسکے گنبد کے گردن کے اندر محرابی در ہیں،جو نیلی ٹائلوں سے مزین ہیں۔ اسے باہر سے چونے سےپلاستر کیا گیا ہے، جس کے تین اطراف پینل بنائے گئے ہیں۔ اس کی مشرقی پیشانی سفید نیلے سبز اور کتھئی ٹائلوں سے مزین ہے۔مقبرے کے اندر چبوترے پر تین قبریں ہیں، جن پر ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔
مغربی قبر پر ایک کتبہ بھی لگا ہے، جس آرزو کھوکھرکا نام لکھا ہوا ہے جو جنگ کے دوران میانی مرا، جبکہ درمیانی قبر کا کتبہ موجود نہیں ہے۔ مشرقی جانب پر فارسی زبان میں ایک کتبہ ہے۔ جس پر فقیر کھوکھر ہے۔ مشرقی جانب قبر پر فارسی زبان میں ایک کتبہ ہے، جس پر فقیر کھوکھر کا نام لکھا ہوا ہے۔
جن کا انتقال یہاں جنگ کے دوران ہوا۔ یہ لوگ کون تھے، ان کے بارے میں کہنا مشکل ہے۔ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ آیا یہ تالپوروں کےعہد میں کون سی پوزیشن پر تھے، جس کی بنا پر انہیں چٹوڑی کے شاہیر قبرستان میں دفنایا گیا۔
مقبرہ میر جادو خان تالپور :۔
میر جادو خان تالپور ولد میر الہٰ یار کا مقبرہ میر موسیٰ کے مقبرے کے مشرق میں واقع ہے۔ باہر سے اس کی پیمائش ہر طرف سے12فٹ تک ،جبکہ اندرونی اطراف سے 7-9x7-6کا ایک چھوٹا سا چھتری نما گنبد ہے۔ جو خستہ حال ہے۔ یہاں قبر کا تعویذ پتھر کے چبوترے پر واقع ہے جسکے ستون پر فارسی تحریر لکھی ہوئی ۔جس میں میر جادو خان تالپور کا نام اور سن وفات درج ہے۔
مقبرہ کیری بلوچ:۔
چٹوڑی قبرستان میں یہ مقبرہ مشرقی سمت چٹوڑی شمال کی جانب تالپوروں کے مقبروں سے علیحدہ ہے۔ یہ مربع کی شکل کی عمارت ہے جس پر اینٹوں سے گنبد بنا ہوا ہے۔ جبکہ اس پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ اس کی دیوار میں چونے سے پلاستر کیا گیا ہے۔ جن میں مستقبل تختے بنائے گئے ہیں۔
اینٹوں کا نامعلوم مقبرہ :۔
یہ مقامی پتھروں سے تعمیر شدہ مقبرہ ہے، جس کا فن تعمیر چٹوڑی کے دیگر مقابر کی طرح ہے۔ یہ مقبرہ ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ چبوترے پر دو قبور ہیں، جن پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ اس مقبرے کا گنبد گر چکا ہے۔
نامعلوم مقبرہ :۔
یہ مقامی زرد پتھروں کی تعمیر ہے، جو چٹوڑی کے دیگر مقابرسے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کا گنبد ہشت پہلو گردن پر کھڑا ہے۔ جس کے جنوب مشرق اور جنوب شمال اور شمال مشرقی کو نے میں اینٹوں کا وہ سہارا دیا گیا ہے۔ جبکہ اندرونی اور بیرونی سطح پر چونے سے پلاستر کیا گیا ہے، یہ قبر اینٹوں کے ایک چبوترے پر بنی ہوئی ہے، جس پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔
مقبرہ میر فتح خان، میر باقر خان :۔
یہ خوبصورت مقبرہ چٹوڑی گوٹھ میں تالپوروں کے دسویں مقبرے کے مغرب میں واقع ہے۔ اس پر خوبصورت نقش و نگاری کے ساتھ مشرقی دیوار میں داخلی دروازے پر سنگ مرمر کے دو ٹکڑوں میں ایک کتبہ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ میر باقر خان ہے، جسے ان کے والدین میر مرزا خان سے16ہزار روپے کی لاگت سے بنوایا تھا ،تالپور سرداروں کی یہ قبور ایک چبوترے پر ہیں۔ شمال مغربی اور جنوبی دیواروں میں روشنی کے لئے راستہ ہے۔ کونے میں بنے محرابوں ، طاقچوں پر گنبد بنے ہوئے ہیں۔
مقبرہ ارضی کھوکھر :۔
یہ مربع شکل کا چھوٹا مقبرہ جس پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ چٹوڑی کے تاریخی قبرستان کی آج حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جس سے ان کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
جہاں حد نظر خطرناک جھاڑیاں قبرستان سے زیادہ جنگل کا نقشہ پیش کر رہی ہیں، یا چار دیواری ہے نہ ہی کوئی مناسب دیکھ بھال نظر آتی ہے۔ چند برس قبل تالپور خاندان کی محض قبروں پر ہال نما سائبان تعمیر کیا گیا تھا،لیکن مجموعی طور پر عدم توجہی کی بناء پر یہ تاریخی قبرستان آہستہ آہستہ اپنی شان و شوکت کھوتا جا رہا ہے، زندہ اور لا شعور قومیں اپنے قومی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی قدیم تہذیب و ثقافت سے روشناس ہو سکیں لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔