• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر محمد اکرم رضا

امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو خدا نےجن لازوال علمی و فقہی کمالات، باطنی و نظری خصوصیات اور علمی و ادبی خصائص سے نواز رکھا تھا ان میں سے ایک صفتِ خاص آپ کی منفرد نعت گوئی ہے۔ اگر ایسے اساتذہٴ فکر و فن کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے اس صدی میں ثنائے مصطفی کا پرچم لہرانے والوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو ان میں یقینا سرِ فہرست حضرتِ فاضل بریلوی کا اِسم گرامی ہوگا کہ جن کی نعت گوئی کا اعتراف اپنوں نے ہی نہیں بلکہ بیگانوں نے بھی کیا ہے۔ بلکہ ان نابغہٴ روزگار ثناگویانِ کوچہٴ مصطفی ﷺ میں سے بیش تر نے انہیں فنِ نعت کے حوالے سے اہم سخن گویاں قرار دیا ہے۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا سورج جب ایک بار چمکا تو پھر اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑسکی، بلکہ ہر آنے والے دور کا شاعر جب مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ذہن و فکر کو آمادہ کرتا ہے تو احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلامِ بلاغت سے راہ نمائی ضرور حاصل کرتا ہے۔ ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ،ان کا تحریر کردہ یہ سلام گونجتا ہے:

مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ چوں کہ بہت بڑے عالم دین اور علومِ شریعت سے غیر معمولی آگاہی رکھنے والے نعت گو شاعر تھے اس لیے انہوں نے نعت کے حقیقی مقام و مرتبے کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں آپ نے نعت کی جو تعریف کی ہے وہ اصحابِ ذوق کے لیے شمع ہدایت ہے:

’’حقیقتاً نعت شریف کہنا بڑا مشکل کام ہے جسے لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض، حمد میں اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب حد بندی ہے‘‘۔

انہوں نے نعت کی شرعی حدود و قیود کا پورا پورا پاس کیا ہے۔ ان کی نعت عشق و عقیدت کی حسین داستان ہے۔ ایسی داستان جس کا ایک ایک نقطہ ذوق و شوق کی کیفیات سے بہرہ ور کرتا اور عنایات مصطفوی کا حق دار ٹھہراتا ہے۔ نعت میں عشق و عقیدت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو پھول میں خوش بو کو حاصل ہے۔ خوش بو پھول کے باطنی حُسن کو اجاگر کرتی اور اس کی حقیقی پہچان بن جاتی ہے۔ امام احمد رضا بریلوی چوں کہ بہت بڑے عاشق رسول تھے،لہذا یہی عشق ان کا سرمایہٴ حیات اور یہی ادب و احترام ان کا اثاثہٴ عمل اور روحانی گداز ان کے لیے ذریعہ نجات تھا۔

مضمون آفرینی کو شاعری کی جان کہا جاتا ہے ۔ شاعر جتنا بلند مضمون باندھے گا اس کا کلام اتنا ہی زیادہ مقبولیتِ عام اور فکری و فنّی شوکت کا مقام حاصل کرے گا۔ اعلیٰ حضرت نے نعتِ مصطفی صلی ﷺرقم کرتے ہوئے مضامین آفرینی کی بلندیوں کو چُھوتے ہوئے بھی ادب و احترامِ مصطفیﷺ کو فراموش نہیں کیا، کیوں کہ آپ سمجھتے تھے کہ اس کوچہٴ ارادت و عقیدت میں معمولی سی ٹھوکر بھی انہیں بلند مقام سے نیچے گراسکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے خود نعت کے تقدّس کو ملحوظ رکھا بلکہ دوسرے شعرا کی بھی راہنمائی فرمائی۔ چناں چہ اردو کے بلند پایہ شاعر حضرت اطہر ہاپوری نے ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع یہ تھا:

کب ہیں درخت حضرت ِوالا کے سامنے

مجنوں کھڑے ہیں خیمہٴ لیلیٰ کے سامنے

اعلیٰ حضرت نے سن کر ناراضی کا اظہار کیا کہ دوسرا مصرعہ مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے۔ آپ نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی ہے:

کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے

قدسی کھڑے ہیں عرشِ معلّیٰ کے سامنے

اعلیٰ حضرت کی اس اصلاح سے اطہر ہا پوری کی مضمون آفرینی اور رفعتِ تخیّل کو چار چاند لگ گئے۔

حضرت احمد رضا خاں صفت و ثناے حضور میں اس درجہ محو ہوئے کہ تمام زیست نعت کے علاوہ کسی اور طرز سخن کی جانب توجہ نہ کی۔ انہیں حضور ﷺسے نسبت پر اس قدر ناز تھا کہ اس کا اظہار ان کے کلام میں جابہ جا ملتا ہے:

کروں مدحِ اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں میری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارہٴ ناں نہیں

انہوں نے نعت کو ان بلندیوں پر پہنچادیا کہ زمانے کو ان کی عظمت تسلیم کرتے ہی بنی۔ نعت مصطفیﷺ وہ افتخار ہے کہ نعت گو شاعر بے اختیار اس کے احساس سے اپنے جذبات کو وجدمیں لے آتا ہے۔ اس لیے شاہ احمد رضا خاں فرماتے ہیں:

مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مُسلّم

جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں

……٭……

یہی کہتی ہے بُلبلِ باغِ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں

نہیں ہندمیں واصف شاہِ ہدیٰ مجھے شوخی ِطبعِ رضا کی قسم

……٭……

گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں

کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے

جب امام احمد رضا سرکارِ دوعالم ﷺکے حُسنِ باطنی اور جمالِ سیرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا انداز بیاں دیدنی ہوتا ہے۔ ان کی نگاہوں میں حضور نبی کریمﷺ کے تمام خصائص و کمالات گھومنے لگتے ہیں حضورﷺکی عظمتِ کردار، رفعتِ گفتار، بے پایاں رحمۃ للعالمینی، میدان محشر میں آپ کی شفیع المذنبینی، گنہگار امت کے لیے حضور کی گریہ وزاری، خطا کاروں کی بخشش کے لیے رحمت شعاری، جُود و کرم کی فراوانی، لطف و عنایات کی فراخ دامانی، اخلاق عالیہ کی رفعت، سیرت و کردار کی عظمت ،خدا کی اپنے محبوب پر بے پایاں عنایت اور حضورنبی کریم ﷺکا اُمّت کے لیے ہر آن امنڈتا ہوا بحرِ شفاعت، یہ سب خصائص جب احمد رضا خاں کے قلم میں سمائے ہیںتو ان کے خامہٴ عنبر فشاں کو نئی توانائی اور ان کے ذوقِ مدحت کو حیرت انگیز گہرائی و گیرائی وعطا ہوتی ہے۔

شاہ احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری کا وہ حصہ دِلوں کو بے اختیار گداز آشنا کرتا ہے جب آپ حرمین شریفین کی جانب سفر کی تیاری کرتے ہیں۔ مکہٴ معظمہ اور مدینہٴ منورہ کو دیکھنے کی تمنّا ہر صاحبِ ایمان کے دل میں مچلتی ہے اور پھر جب وہ شخصیت اس مبارک سفر پر روانہ ہورہی ہو جس نے عمر بھر عشقِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا درس دیا ہو، توحیدِ خداوندی کے آداب سکھائے ہوں، احترام و عقیدتِ رسول کی چمک عطا کی ہو۔ دلوں میں شمعِ عشقِ رسول ﷺ جلا کر اجالا کیا ہو، جس کی اپنی زندگی عشقِ مصطفوی کی تصویر اور محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تفسیر ہو، جس کے شب و روز بیت الله کے طواف اور حرمِ نبوی کی زیارت کے تصوّر میں گزرتے ہوں، تو پھر اس پر کیف سامانی کا سحاب کس شان سے پرتوِفگن ہوگا۔ اس کا تذکرہ بہار آفریں بھی ہے اور روحانی لطف و سرور کا باعث بھی ۔

جب آپ حجِّ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرکے مدینہٴ منورہ حاضر ہوتے ہیں تو ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے اور مدینہ منوّرہ کا تصوّر ان سے کس طور خراجِ عقیدت حاصل کرتا ہے، اس کی جھلک ملاحظہ ہو:

حاجیو! آوٴ، شہنشاہ کا روضہ دیکھو

کعبہ تو دیکھ چکے ،کعبے کا کعبہ دیکھو

غور سے سُن تو رضا! کعبہ سے آتی ہے صدا

میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو

مدینہٴ منورہ کے بارے میں احترام و عقیدت کا کس شان سے اظہار کرتے ہیں، انداز دیکھیے:

مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے

غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

شاہ احمد رضا خاں کا نعتیہ مجموعہ ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے جس کا اولین سالِ اشاعت 1325 ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کا ایک دلآویز اور خوب صورت حصّہ نعتیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے قصیدہٴ نور، قصیدہٴ معراجیہ اور آپ کا طویل سلام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ قصیدہ نور میں بہ طورِ خاص حضور نبی کریمﷺکی ولادتِ اقدس کے حوالے سے آپ کی صفات عالیہ کو موضوعِ شاعری بنایا گیا ہے۔ یہ قصیدہ اس قدر جامع اور اثر آفریں ہے کہ بے شمار عشاقِ مصطفےٰ اسے وظیفہٴ عقیدت جان کر پڑھتے ہیں:

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نُور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نُور کا

تاج والے دیکھ کر تیرا عماما نُور کا

سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نُور کا

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نُور کا

تو ہے عینِ نور، تیرا سب گھرانانُور کا

”قصیدہٴ معراجیہ“ میں نبی کریم ﷺکے سفرِ معراج کے حوالے سے آپ کی عظمت و فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ قصیدہ بہ ذاتِ خود فکر و فن کا شاہ کار اور کاروانِ مدحت نعت کا افتخار ہے۔ طویل بحرمیں لکھا گیا یہ قصیدہ تشبیہات، استعارات اور برجستہ تراکیب کے حوالے سے اردو ادب کے لیے سرمایہٴ اعزاز ہے۔ یہ قصیدہ آپ کی جَوْدَت وحِدَّتِ طبع کا آئینہ دار ہے۔ روانی و تسلسل اور زبان کی لطافت و پاکیزگی کے اعتبار سے معاصرین کے معراجیہ قصائد میں سب سے بلند ہے۔ اعلیٰ حضرت کے ہم عصر مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے ان ہی دنوں معراج پر قصیدہ’’سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرابادل‘‘ لکھا تھا۔محسن کا کوروی اپنا قصیدہ سنانے کے لیے بریلی میں مولانا احمد رضا خاں کے پاس گئے۔ ظہر کے وقت دو شعر سننے کے بعد طے ہوا کہ محسن کا کوروی کا پورا قصیدہ عصر کی نماز کے بعد سنا جائے۔ عصر کی نماز سے قبل مولانا نے قصیدہ معراجیہ تصنیف فرمایا۔ نمازِ عصر کے بعد جب یہ دونوں بزرگ اکٹھے ہوئے تو مولانا نے محسن کاکوروی سے فرمایا کہ پہلے میرا قصیدہ معراجیہ سن لیں۔ محسن کا کوروی نے جب مولانا کا قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا کہ مولانا آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔

مولانا احمد رضا خاں کا سلام ہر لحاظ سے ادب عالیہ کا ایک حصہ ہے۔ اسے فنِّ شاعری کے حوالے سے دیکھیں، یا محبت و عقیدت کے حوالے سے، ثناے مصطفی ﷺ کی روشنی میں دیکھیں یا الفاظ و تراکیب کی برجستگی کے حوالے سے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سلام حضور ﷺ کے نورانی سراپا کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے ایک ایک عضو پر عقیدت کی مہک بار پتیاں نچھاور کی گئی ہیں:

شہریارِ ارم تاجدارِ حرم

نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام

صاحبِ رجعتِ شمس و شقّ القمر

نائبِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

قدِّ بے سایہ کے سایہٴ مرحمت

ظلِّ ممدودِ رافت پہ لاکھوں سلام

دُور و نزدیک کے سننے والے وہ کان

کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام

جن کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا

اُس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام

پتلی پتلی گُل قدس کی پتیاں

ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نام ور محدّث اور علومِ شریعت کے عالم کامل تھے۔ تاریخ اور سیرت مصطفوی ﷺ کے روشن ادوار پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اس لیے آپ نے جہاں حُسنِ تغزل کی بہار بکھیرتے ہوئے اپنے آقا و مولا کے لامتناہی فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے وہاں آپ نے اپنے علمی کمالات اور علوم دینیہ پر گہری گرفت رکھنے کی بنا پر بہت سے ایسے واقعات اور معجزات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن سے عظمت و شانِ رسول ﷺکا اظہار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی قرآن فہمی اور احادیثِ نبوی پر عبور نے انہیں بہت مدد دی ہے ۔بعض نعتیہ اشعار تو آیاتِ قرآنی اوراحادیث نبوی کا منظوم ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے قرآنی آیات اور احادیث کو اس خوبی سے اپنی نعتوں میں سمویا ہے کہ ہر صاحبِ فکر کو ان کی قدرتِ فن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ بعض نعتوں میں تو عربی کے الفاظ اس طرح جگہ پاگئے ہیں کہ مستقل طور پر ان ہی کا حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان نعتوں میں عربی الفاظ کی آمیزش نے کس طرح ان نعتوں کے حُسن کو دوبالا کیا ہے اس کی بہترین مثال ان کی یہ شہرہٴ آفاق نعت ہے:

لَمْ یَاتِ نَظیرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شُد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سرا جانا

امام احمد رضا کی حیثیت اس صدی کے نعت گو شعرا میں میرِکارواں کی ہے۔ آپ کی نعتوں نے فقط آپ کے دور کو نہیں بلکہ آنے والے ادوار کو بھی متاثر کیا۔ فقہی اور شرعی امور میں آپ سے شدید اختلاف رکھنے والے حضرات بھی جب نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو تمام ترتعصّب کے باوجود انہیں بھی ایوانِ نعت کی سب سے سربلند مسند پر حضرت رضا بریلوی کو ہی جگہ دینی پڑتی ہے۔ ایک مضمون کہ جہاں صفحات کی تنگ دامانی راہ وارِ قلم کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہو، بھلا آپ کے تمام تر شعری اوصاف کا کس طور احاطہ کرسکتا ہے۔ آج فاضل بریلوی کی اثر آفریں نعت گوئی اپنی تاثر انگیزی کی گرفت کو اس قدر مضبوط کرچکی ہے کہ فقط بر صغیر ہی میںنہیں بلکہ دنیا بھر کےاسلامی ممالک میںآ پ کی شخصیت اور کلام پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔

اردو کے ممتاز نقّاد، نیاز فتح پوری آپ کے علم و فضل اور شعری محاسن پر آپ کی بھر پور گرفت کے قائل تھے۔ انہوں نے فاضلِ بریلوی کو قریب سے دیکھااور ان کی شخصیت کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا کہناہے:

’’اردو نعت کی تاریخ میں اگر کسی فردِ واحد نے شعراے نعت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں تووہ بلاشبہ مولانا احمد رضا کی ذات ہے‘‘۔

شان الحق حقّی کی رائے ہے:

’’میرے نزدیک مولانا کا نعتیہ کلام ادبی تنقید سے مبرّا ہے۔ اس پر کسی ادبی تنقید کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت اور دل پذیری ہی اس کا سب سے بڑا ادبی کمال اور مولانا کے مرتبے پر دال ہے‘‘۔

مولانا کوثر نیازی کی یہ رائے تھی:

’’بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خاں جس کا نام تھا۔ ان سے ممکن ہے بعض پہلووٴں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو ،لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عشقِ رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے‘‘۔

جب ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ ’’مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کی صدائیں ابھرتی ہیں تو جہاں اصحابِ نظر کی پلکیں عشق و عقیدت کے آنسووٴں سے نم ہوجاتی ہیں وہاں تصوّرات کے نہاں خانوں میں نعت گو، امام احمد رضا خاںرحمتہ اللہ علیہ کا جو روشن سراپا ابھرتا ہے وہ اس قدر سر بلند اور سرفراز ہے کہ ان کے معاصرین اور عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا وجود اپنی تمام تر بلند قامتی کے باوجود اس کے سامنے سرِ عقیدت خم کرتا نظر آتا ہے۔ آپ نے زندگی بھر عشق رسول ﷺہی کو حاصلِ ایمان سمجھے رکھا۔ اور خدا گواہ ہے کہ اس سے بڑی حقیقت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اسی موضوع سے متعلق آپ کے اسی جاوداں جاوداں شعر پر اس تحریر کا اختتام کر رہے ہیں:

انہیں جانا، انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

لِلّٰہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

تازہ ترین