دیدہ زیب ملبوسات اور سونے چاندی کے زیورات کے ساتھ ساتھ کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں بھی مشرقی خواتین کے روایتی زیورمیں شمار ہوتی ہیں۔ زیبائش حسن کے علاوہ جب یہ نسوانی کلائیوںکی لرزش کے ساتھ کھنکتی ہیں تو ماحول میں موسیقیت سی بکھرجاتی ہے ۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں چوڑی سازی کی صنعت کا دوسرا عظیم مرکز ہےجب کہ بھارت کا شہر فیروزآباد پہلے نمبر پر ہے۔
سستا زیور ہونے کی وجہ سے امیر ہو یا غریب ہر عورت کا پسندیدہ زیور کانچ کی باریک اور نازک چوڑیاں ہوتی ہیں اور نت نئے ڈیزائنوں کی چوڑیاںہر عمر کی خواتین کی شخصیت کی دل کشی میں اضافہ کرتی ہیں ۔ پچاس سے ستر روپے میں مختلف رنگوں اور ڈیزائن کی چوڑیاں غریب و امیر علاقوں کے بازاروں میں باآسانی دستیاب ہوجاتی ہیں۔
اگر اپنی مرضی کے مطابق مزید خوب صورت سیٹ بنوانا ہو تواس کی قیمت بھی اسی مناسبت سے بڑھ جاتی ہے۔رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد چوڑیوں کی مانگ میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سستا ترین زیور، قدیم مشرقی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے۔ برصغیر کی روایات کے مطابق زیادہ تر شادی شدہ خواتین کی کلائیاںچوڑیوں سے ہمہ وقت بھری رہتی ہیں۔
اگر خاندان کی بڑی بوڑھیاں ، بہو یا شادی شدہ بیٹی کی کلائی چوڑیوں سے خالی دیکھتی ہیںتو اسے بدشگونی قرار دیتے ہوئے ان کی سرزنش کرتی ہیں ۔ گھریلو خواتین ہوں یا ملازمت پیشہ اور فیشن ایبل ، کانچ کی چوڑیاں ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ عید، بقرعید، سمیت اقلیتی برادری کے تہواروں کے موقع پر خواتین خصوصی طور پر رنگ برنگی، خوش نما ڈیزائنوں اور میناکاری سے مزین باریک اور نازک چوڑیاں پہننا پسند کرتی ہیں۔ شادی ،بیاہ یا منگنی کی رسومات کے موقع پر حنائی ہاتھوں میں سہاگ کی نشانی کے طورپر دو سے تین درجن سرخ چوڑیاں پہنائی جاتی ہیں، جوکلائیوںکا حسن دوبالا کردیتی ہیں۔ ان تقریبات میں شریک خواتین میں بھی خوب صورت اور دل کش رنگوں اور ڈیزائن کی چوڑیاں پہننے کا مقابلہ ہوتا ہے۔
حیدرآباد میں بننے والی چوڑیاں کراچی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبات میں فروخت کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شادی شدہ عورتوں کی کلائیوں کو ہروقت چوڑیوں سے بھرا دیکھنے کی متمنی بزرگ خواتین، مشرقی روایات کے مطابق، ان کے شوہر کے مرنے کے فوراً بعد سب سے پہلے ’’بیوہ خاتون‘‘ کے ہاتھ کی چوڑیاں توڑ کر اس کی کلائیاں سونی کرتی ہیں۔
کچھ عشرے قبل تک عورتیں اور مرد گھر گھر جاکر نہ صرف چوڑیاں فروخت کرتے تھے بلکہ خواتین کو پہنایا بھی کرتے تھے۔ آج بھی اکثر علاقوں میں لگنے والے ہفتہ واریا عید بازاروں میں ’’منہار اور منہارنوں‘‘ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں جو قریب سے گزرنے والی خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے اس طرح آوازیں لگاتی ہیں، ’’چوڑیاں چڑھا لو‘ ‘، ’’چوڑیاں کڑیو‘‘، ’’چوڑیاں لے لو ‘‘، ’’ سرخ سبز، نیلی پیلی اور سفید چوڑیاں،ونگاں نی کڑیو‘‘ ۔
چوڑی کا شمار دنیا کےقدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلی چوڑی موئن جودڑو میں 2600 قبل مسیح میں بنی تھی ۔اس دور میں چوڑیاں گھونگے اور مٹی سے تیار کی جاتی تھیں۔ بعد میں جب مختلف اوزار ایجاد ہوئے اور دھاتیں دریافت ہوئیں، تو چوڑیاں بھی دھاتوں اور پتھروں سے تیار ہونے لگیں۔
قدیم آثار کی تلاش میں کھنڈرات کی کھدائی کے دوران سندھ ، پنجاب اور دیگر علاقوںکے مختلف مقامات سے قدیم نوادرات کے ساتھ ساتھ دیوی ، دیوتاؤں کی مورتیاں برآمدہوئیں۔ دیویوں کی مورتیوں کے ہاتھوں میں دھات، پتھر اور گھونگھوں سےبنی ہوئی چوڑیاں موجود تھیں۔قدیم آثار سے ملنے والی چوڑیوں کو ایک منفرد اندازسے گول شکل دی گئی، کیوں کہ اس دور کی چوڑی کی شکل چوکور اور مُثلّث نما ہوتی تھی۔چوڑی جنوبی ایشیا کی روایتی ثقافت کا ایک اہم ترین جزوبن گئی ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کو کانچ کی چوڑیوں کا موجد کہا جاتا ہے۔چوڑی سازی کےہنر کو برصغیر میں سب سے پہلے بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر فیروزآباد میں فروغ حاصل ہوا۔
ایک روایت کے مطابق جہانگیر کے بعد تخت نشین ہونے والے بادشاہ ، شاہ جہاں کی چہیتی ملکہ، ممتاز محل نےایک دفعہ بادشاہ سے کانچ کی چوڑیاں پہننے کی فرمائش کی۔ بادشاہ نے آگرہ کےتمام بازاروں میں ان کی تلاش میں اپنےملازمین کو دوڑایا۔ ناکامی پر بادشاہ خود چوڑیاں تلاش کرتا ہوا فیروزآباد پہنچا، جہاں چند کاریگروں نے پہلی مرتبہ کانچ کی انتہائی نفیس ، نازک، جاذب نظر، رنگ برنگی چوڑیاں تیارکیں۔ بادشاہ نے ملکہ کی کلائی کے سائز کے مطابق چوڑیاں پسند کیں اور آگرہ واپس پہنچ کر اپنے ہاتھ سے ملکہ کی کلائیوں میں پہنائیں۔
بھارت کا شہر فیروزآباد ،کانچ کی چوڑیاں بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد،دنیا میں چوڑی سازی کا دوسرا عظیم مرکز بن گیا۔ فیروز آباد، بھارت میں چوڑی سازی کی صنعت سے وابستہ مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مندافراد، ہجرت کرکے پاکستان آگئے ۔
پہلے انہوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی لیکن اس شہر کو اپنے پیشے کے لیےسازگار نہ پاکر سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں رہائش اختیار کرلی ۔ حیدر آباد میں قیام پذیر ہونے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس شہر کی ریتلی مٹی (Salica Sand) فیروز آباد کی ریت سے خاصی مماثلت رکھتی ہے دونوں مقامات کی ریتلی مٹی چوڑی سازی کی صنعت کے لیے نہایت موزوں ہے جب کہ حیدرآباد کی ریتلی مٹی میں نمی کا تناسب انتہائی کم ہے ۔ ابتدائی ادوار سے ہی اس صنعت کو حیدرآباد میں عروج حاصل ہوا اور کچھ عرصے بعدیہ شہر ملک میں چوڑی سازی کی سب سے بڑی گھریلو صنعت بن گیا۔
پاکستان بننے کے بعد فیروزآباد (یوپی) سے تعلق رکھنے والے حاجی فرید، شفیق اور بشیر الدین خان نے حیدرآباد میں کانچ کی چوڑیوں کے تین کارخانے لگائے ۔ اِس وقت شہر میں چوڑی سازی کےتقریباً 42 چھوٹے بڑےکارخانے کام کررہے ہیں۔ اس گھریلو صنعت سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ مرد، خواتین و بچوں کا روزگار وابستہ ہے۔
عید بقر عید اور اقلیتی برادری کے تہواروں کے موقع پر ملک میں چوڑیوں کی طلب میں خاصا اضافہ ہوتا ہے، اس وقت ان کارخانوں میں رات دن کام ہوتا ہے۔حیدرآباد کے جن علاقوں میں چوڑی کے کارخانے ہیں ان میں لیاقت آباد، گجراتی پاڑہ، حالی روڈ، ملت آباد، اسلام آباد، الیاس آباد، گل شاہ، پیر نورانی بستی، فردوس کالونی اور چوڑی پاڑہ کے علاوہ لطیف آباد کے مختلف یونٹس شامل ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتہائی سستے داموں فروخت ہونے والی چوڑیاں پانچ مختلف مراحل سے گزر کر دکانداروں تک پہنچتی ہیں۔ اِن مراحل کو جڑائی، صدائی، چکلائی، چٹک اور گنائی کہتے ہیں۔ اِن سارے مراحل سے گزرتے ہوئے 350 چوڑیوںپر مزدوری سمیت انتہائی کم لاگت آتی ہے۔350 چوڑیوں کےگچھے کو چوڑی سازی کی اصطاح میں ’’ توڑہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی چوڑیاں بازاروں میں فی درجن 50سے 120روپے کی قیمت میں فروخت ہوتی ہیں، یعنی چوڑیوں کے ایک توڑے پر فیکٹری مالکان اور ٹھیکیداروں کو منافع کی صورت میں خطیر رقم حاصل ہوتی ہے۔
خواتین کے ہاتھوں میں چوڑی چڑھانے کے عمل کے دوران بے شمار چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس وقت کسی کو یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں 72 ہاتھوں سے گزر کر ان کی کلائی تک پہنچی ہیں اور ان کی بناوٹ میں خواتین اور معصوم بچوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ چوڑی سازی میں خام مال کے طور پر شیشہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جس میں شیشہ چننے والی خواتین کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔
تھر کے علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین کچرا کنڈیوں اور کوڑے کے ڈھیر سے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتلیں اور دیگر اشیاء کاندھے پر لادی ہوئی کٹھری میں اکٹھا کرکے ، کارخانے کے مالک، ٹھیکیدار یا ڈیلر کے حوالے کرتی ہیں جو انہیں اس کام کے عوض ہر پندرہ دن بعد 300 سے پانچ سوروپے معاوضہ ادا کرتا ہے۔
اس مرحلے کے بعد شیشہ کے ٹکڑوں، سوڈا ایش ا و ریتلی مٹی یعنی سلیکا سینڈ (Salica Sand) کو بھٹی پر100 سے 1400 ڈگری فارن ہائٹ کے درجہ حرارت پر پگھلایاکر انتہائی پتلا اور چپچپا محلول تیار کیا جاتا ہے۔اس مکسچر کو ایک رولر مشین میں ڈال کر چوڑیوں کے رول میں بدلا جاتا ہے اور بعد میں الگ کرلیا جاتا ہے۔پھر انہیں انتہائی تیزی کے ساتھ مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ چوڑیوں کے مختلف سائزکے لچھے تیار کیے جاسکیں۔
یہ عمل بھٹی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے انتہائی مشقت طلب ہوتا ہے۔ وہ گرمی کی حدت سے گھبرا کر کچھ دیر کے لیےٹھنڈی ہوا لینے کے لیے پنکھے کے نیچےبیٹھ جاتے ہیں۔یہ عمل سارا دن جاری رہتا ہے، اس دوران بھٹی کے سامنے کام کرنے والے محنت کش کا بدن تمام دن میں متعدد مرتبہ سردی و گرمی سے دوچار رہتا ہےجس کے اثرات سے اس کے پھپھڑے متاثرہونے لگتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ تپ دق جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر خون تھوکتے ہوئے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
چوڑی سازی کے دوسرے مرحلے میں چوڑیوں کے توڑے تیار کیے جاتے ہیں اور ہر توڑے میںساڑھے تین سو چوڑیاں ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد یہ توڑے گھر وں میں کام کرنے والی مزدور خواتین کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ خواتین ان چوڑیوں پر صدائی، رنگائی، چکلائی، کٹائی، ڈیزائننگ و پالش کا کام کرسکیں۔ بعض گھروں میں بھٹیاں لگی ہوتی ہیں، جن میں چوڑیاں پکائی جا تی ہیں۔ اِس عمل کو صدائی کہتے ہیں۔ آگ کے چھوٹے چھوٹے شعلوں پر ان چوڑیوں کو جڑائی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
اس سارے عمل میں ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال ہوتا ہے جب کہ جو رنگ استعمال ہوتے ہیں وہ سرخ، سبز اورنیلے ہوتے ہیں جب کہ دیگر رنگ ان تینوں رنگوں کو ملا کر تیارکیے جاتے ہیں۔چوڑیوں پر چڑھے رنگ کومزید پختہ کرنے کے لئے ان پر ایک مخصوص کیمیاوی مادہ لگایا جاتا ہے جسے ہل لگانا کہتے ہیںجس کے بعد چوڑیوں کو آگ پر مزید پکایا جاتا ہے۔چوڑیوں پر پر مینا کاری اور خوبصورت نقش و نگار بنانے کا کام بھی ہوتا ہے۔ چکلائی کے عمل میں چوڑیوں کی سطح کو ہموار کیا جاتا ہے۔
یہ چوڑی سازی کے کام میں سب سے سخت مرحلہ ہے جو پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجۂ حرارت میں کیا جاتا ہے۔یہ کام کرنے والی خواتین کی انگلیاں اور انگوٹھے کی کھال اتنی مرتبہ جلتی ہے کہ فنگر پرنٹس ختم ہو جاتے ہیں، اس کا سبب ہر تین چار انچ کے بعد گیس کے پائپ میں سے نکلنے والے شعلے ہوتے ہیں۔
فنگر پرنٹس ختم ہونے کے سبب انہیں شناختی کارڈ ، پاسپورٹ بنوانے یا موبائل سم نکلوانے کے لیے’’ بایو میٹرک‘‘ شناخت میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور فنگر پرنٹس بحال ہونے کے لیےتقریباً چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ گھریلوورکرز کو ایک توڑا بنانے کا معاوضہ صرف 10 روپے ملتا ہے اور ایک دن میں یہ سو توڑے تیار کرپاتی ہیں جس کے عوض یہ 100روپے یومیہ کماتی ہیں۔
ہنرمند خواتین چوڑیوں پر پینٹنگ کےعمل سے ان پر نقش نگاری ، ڈیزائننگ اور میناکاری کا کام کرتی ہی جو انتہائی نفاست سے کیا جاتا ہے، اس کام کے لیے انتہائی مہارت درکار ہوتی ہے۔بعض شوقین لوگ اپنی رشتہ دار خواتین کوچوڑیوں کا تحفہ دینے کے لیے ان پر نام بھی لکھواتے ہیں۔
حیدرآباد میں چوڑیوں پر نام لکھنے والے سینکڑوں کاریگر موجود ہ ہیں جو شیشے کی رنگین تیلیوں اور آگ کی مدد سے انتہائی نفاست سےچوڑیوں پر نام کندہ کرتے ہیں۔ان مراحل کے بعد چوڑیوں کی فنشنگ کے بعد انہیںڈبوں میںپیک کیا جاتا ہے۔ پیکنگ سے قبل چوڑیوں کو خوبصورت دکھانے کے لئے رنگوں کی مناسبت سے ترتیب دی جاتی ہے۔سادہ چوڑیوں پر مختلف ڈیزائن بھی کاڑھے جاتے ہیں۔ اس کے لئے حیدرآباد میں الگ سے کارخانے موجود ہیں۔
چوڑیوں پر سو سے زائد دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جن کے نام بھی دلچسپ ہیں مثلاً، بندش، موشن بچی، ببل بچی، دلہن، نورجہاں، سادی ثریا اور طوفان ۔مختلف ڈیزائنوں میں ڈھلنے کے بعد یہ چوڑیاں اور بھی زیادہ خوب صورت نظر آتی ہیں۔ڈبوں میں پیک ہونے کے بعد انہیں ہول سیلرز اور ڈیلرز کے حوالے کیا جاتا ہے جو انہیں ملک کے طول و عرض میں فروخت کے لیے بھیجتے ہیں جہاں یہ خواتین کے ہاتھوں کی زینت بنتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مختلف دھاتوں سے چوڑی سازی کا کام ہوتا ہے۔ لیکن جو مقبولیت حیدر آباد شہر میں خواتین ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار ہونے والی کانچ چوڑیوں کو حاصل ہے وہ سونے چاندی کی چوڑیوں کو بھی حاصل نہیں۔