• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا۔ مغربی بنگال
(دوسری قسط)
رسولِ اکرم ﷺ کی چھٹی زوجہ حضرتِ اُم سلمہ ہندؓ بنت ابی امیہ تھیں۔ اُن کا اصل نام ہندؓ بنت سہیل تھا۔ آپؓ کا نکاح شوال چار ہجری میں 26 سال کی عمر میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوا۔ اس وقت آپ ﷺکی عمر مبارک 56 سال تھی۔ انہوں نے تمام امہات المومنین میں سب سے طویل 84 سال کی عمر پائی۔ انہوں نے بھی اپنے شوہر کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ دوبارہ بڑی مشقتوں کے بعد تنہا اپنی بچی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچیں جبکہ اُن کے شوہر حضرت ابو سلمہؓ پہلے ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ حضرت ابو سلمہؓ کے انتقال کے بعد آپؓ کے تمام بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبی کریم ﷺ نے حضرت ام سلمہؓ سے نکاح کے ساتھ ہی اپنے ذمہ لے لی۔ آپؓ کی پوری زندگی مجاہدانہ و زاہدانہ اور صبر و استقامت سے بھرپور ہے۔ آپ فقہ و حدیث کی ماہر تھیں اور تقریباً 378 حدیثیں آپؓ سے منقول ہیں۔آپؓ کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہؓ کی نمازِ جنازہ آپ ﷺ نے نو تکبیروں کے ساتھ پڑھائی تھی اور لوگوں کے سوال پر یہ کہا تھا کہ وہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے۔ آپﷺ حضرتِ ام سلمہؓ سے بہت پیار کرتے تھے اور نمازِ عصر کے بعد اپنی ازواجِ مطہرات کے یہاں تشریف لاتے تو سب سے پہلے اُن ہی کے گھر میں قدم رنجہ فرماتے تھے۔ آپؓ نے پیارے نبیﷺ سے اپنے نکاح کے پہلے دن ہی اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا تھا۔ پیارے نبی ﷺ نے نکاح کے بعد انہیں خرمے کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عنایت کی تھیں اور حضرتِ عائشہؓ کے مطابق رسولِ پاک ﷺ کی نگاہ میں اُن کے بعد حضرت زینبؓ بنت حجش اور حضرتِ ام سلمہؓ ہی عزیز تھیں۔ پیارے نبی ﷺ نہ صرف اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ اُن کے مخلصانہ مشوروں کی قدر بھی کرتے اوراُن پر عمل بھی کرتے۔ صلح حدیبیہ لکھے جانے کے بعد جب آپ ﷺ نے مومنین کو حلق کرانے (سر منڈوانے) اور قربانی کرنے کا حکم دیا اور وہ چونکہ ملول تھے، بے حس و حرکت بیٹھے رہے تو آپؓ کے مشورے پر ہی سب سے پہلے آپ ﷺنے خود حلق کرایا اور اُن کے بعد تمام مومنین جیسے چونک پڑے پھر سبھوں نے اُن کی پیروی کی۔پیارے نبی صلعم کی چھ زوجات کے باوجود بیک وقت چار ازواج ہی آپ ﷺکے نکاح میں تھیں اور اِن ہی چاروں یعنی حضرتِ سودہؓ، حضرتِ عائشہؓ، حضرتِ حفصہؓ اور حضرتِ ام سلمہؓ نے جنگِ احزاب کے زمانہ میں پیارے نبی ﷺسے زیادہ خرچ مانگا تھا کیونکہ مالِ غنیمت زیادہ پانے کی وجہ سے عام مسلمان تو خوشحال ہوجاتے تھے لیکن امہات المومنین کو کچھ بھی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی تنگ دستی دور نہ ہوتی تھی۔ اس مطالبہ سے پیارے نبیﷺ نے ناراض ہوکر اپنی تمام ازواج سے ایک مہینہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ اسی زمانے میں حضرت عائشہؓ اور حضرتِ حفصہؓ کو اپنے اپنے والد یعنی حضرتِ ابوبکرؓ اور حضرتِ عمرؓ سے ڈانٹ بھی پڑی تھی اور ناراضگی کا زمانہ گزار کر آپﷺ نے چاروں ازواجِ مطہرہ سے جب یہ سوال کیا کہ تم اللہ اور اُس کے رسولﷺ کو چاہتی ہو یا دنیا کی زینت کو، تو انہوں نے کہا کہ ہم اللہ اور رسول ﷺ کو چاہتے ہیں۔ یہی واقعہ ’’تحنییر‘‘ کہلاتا ہے اور نبی ﷺ کی ناراضگی کا واقعہ ’’ایلا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت نمبر 29 کے نزول کے بعد ہی آپ ﷺنے اپنی ازواج سے یہ سوال کیا تھا کیونکہ اس میں امہات المومنین کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دنیا اور اُس کی زینت کے لئے علیحدگی کرلیں یا آپ ﷺ کے ساتھ رہیں۔ اس آیت کے بعد آپﷺ سب سے پہلے حضرتِ عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لے گئے اور اپنی گفتگو کا آغاز ان ہی سے کیا۔سورۂ احزاب میں ہی اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کے لئے خصوصی احکام نازل فرمائے ہیں۔ اسی سورہ میں امہات المومنین کے لئے معاشرتی قانون اور پردہ کے احکام بھی نازل ہوئے۔ اسی سورہ سے انہیں ’امہات المومنین‘ کا اعزاز بھی ملا اور پھر اسی سورہ کے ذریعہ آپ ﷺ کے لئے پانچویں بیوی حلال کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو چند مصلحتوں کی بنا پر کچھ مخصوص قسم کی خواتین سے نکاح کی بھی اجازت دے دی۔ اسی سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ترجمہ: جب زید نے حجت پوری کردی اور طلاق دے دی اور عدت گزر گئی تو ہم نے (زینت کا) تمہارے ساتھ نکاح کردیا اور اس طرح گنتی کے اعتبار سے ساتویں مگر آپ ﷺ کی پانچویں باحیات ازواج میں سے ایک حضرتِ زینبؓ بنت حجش تھیں جن کا نکاح خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے پڑھایا دیا تھا۔ حضرتِ زینبؓ بنت حجش آپ ﷺ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں جن کا نکاح آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرتِ زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ ہوا تھا۔ اُن سے نکاح کے بعد آپ ﷺ پر منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے اورپانچویں بیوی سے نکاح پر اعتراضات ہوئے تھے جن کا جواب اللہ پاک نے سورہ احزاب میں ہی دے دیا تھا۔
آپ ﷺ کو اپنی یہ زوجہ بہت عزیز تھیں۔ اُن کے نکاح کی خوش خبری جس لونڈی نے حضرتِ زینبؓ بنت حجش کو سنائی تھی اُس کو انہوں نے اپنے زیورات اتار کر دے دیئے تھے اور خود اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ میں گر پڑیں۔ اس نکاح کے بعد آپ ﷺ نے ولیمہ کی ایک بڑی دعوت کی۔ یہ نکاح پانچ ہجری میں ہوا تھا اور اس نکاح کے وقت آپ ﷺ کی عمر شریف 57 سال اور حضرتِ زینبؓ کی عمر 26 سال تھی۔
صرف پیارے نبی ﷺ کی یہی زوجہ محترمہ تھیں جن کو حضرتِ عائشہؓ سے ہمسری کا دعویٰ تھا۔ اُن کی ایک بے مثال خصوصیت یہ تھی کہ اپنے ہاتھ سے کچھ دستکاری کرکے اس کی آمدنی فقراء و مساکین میں بانٹ دیا کرتی تھیں۔ اُن کی اسی خصوصیت کی بنا پر پیارے نبی ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے وفات پانے والی بیوی وہ ہوگی جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے (یعنی جو سخاوت میں سب سے آگے ہوگی)۔ آخر آپ ﷺ کے وصال کے بعد سب سے پہلے حضرت زینبؓ کا ہی 20 ہجری میں انتقال ہوا۔ حضرت عمرؓ نے جنازے کی نماز پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
حضرت زینبؓ بنت حجش سے گیارہ احادیث مروی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی عفت و عصمت کی اولین گواہوں میں سے ام المومنین حضرت زینبؓ بھی تھیں۔ اُن کے بارے میں حضرتِ عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’ازواج میں سے وہی رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں عزت و رتبہ میں میرا مقابلہ کرتی تھیں۔‘‘
حضرتِ جویریہؓ بنت حارث آپ ﷺ کی ازواج مطہرات میں شعبان پانچ ہجری میں شامل ہوئیں۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 57 سال تھی۔ یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں اور غزوۂ مربسیع میں اپنے قبیلہ کے ساتھ گرفتار ہوکر رسولِ پاکؐ کی خدمت میں پیش ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہیں آزاد کراکے اُن سے نکاح کرلیا۔ اِس نکاح کے بارے میں حضرتِ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرتِ جویریہؓ کے نکاح سے زیادہ مبارک ثابت نہیں ہوا۔‘‘ دراصل اُن سے نکاح کے بعد تمام مسلمانوں نے رسولِ پاک کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے قبیلہ بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا تھا۔ اس لئے یہ کہا گیا کہ حضرتِ جویریہؓ اپنے قبیلہ کے لئے بہت ہی مبارک ثابت ہوئیں۔ آپؓ سے سات احادیث مروی ہیں۔ آپؓ فجر سے چاشت تک عبادت میں مصروف رہتیں۔ آپؓ نہایت ہی عبادت گزار تھیں۔ آپؓ حسین صورت اور جاذب نظر تھیں۔ آپؓ کا پرانا نام برّہ تھا جسے نبی کریم ا نے بدل کر جویریہ رکھ دیا تھا۔ ربیع الاول 56 ہجری میں 65 سال کی عمر میں آپؓ کا انتقال ہوا۔ حاکم مدینہ مروان نے جنازے کی نماز پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔
آپؓ کے بعد سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابوسفیانؓ سے آپ ﷺ کا نکاح سات ہجری میں نجاشی بادشاہ نے آپ ﷺ کی درخواست پر پڑھایا اور مہر کی رقم بھی اپنے پاس سے ادا کردی۔ حضرت ام حبیبہؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی تھی لیکن وہاں پہنچ کر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا اور سیدہ بے یارومددگار کسمپرسی کے عالم میں اپنے ایمان کو سنبھالے زندگی گزارتی رہیں۔ اُن کی حالتِ زار پر رسولِ پاک ﷺ کو رحم آگیا اور آپ ﷺ نے انہیں اپنی زوجیت میں لے لیا۔
حضرت ام حبیبہؓ ایمان میں اتنی سخت تھیں کہ قبولِ اسلام سے پہلے جب ابو سفیان اپنی بیٹی سے ملنے آئے توام حبیبہؓ نے اپنے مشرک باپ کو پیارے نبی ﷺ کے بستر مبارکہ پر بیٹھنے تک نہیں دیا اور کہا کہ ’’میں یہ ہرگز گوارا نہیں کرسکتی کہ ایک ناپاک مشرک رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھے۔‘‘ آپؓ سے 15 حدیثیں مروی ہیں۔ آپؓ پابندی سے آخری وقت تک 12 نفل روزانہ پڑھا کرتی تھیں۔ آپؓ اپنے حقیقی بھائی حضرت امیر معاویہؓ کے عہدِ خلافت 44 ہجری میں 74 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔
اُن کے بعد آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں حضرت صفیہؓ بنت حئی بن اخطب آئیں جن کا سات ہجری میں نبی پاک ﷺ سے نکاح ہوا۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 59 سال اور حضرت صفیہؓ کی عمر 17 سال تھی۔ یہ خیبر کے سردار اعظم کی بیٹی اور قبیلہ بنو نصیر کے رئیس کنانہ بن الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں مارا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے انہیں ازواجِ مطہرات میں شامل کرلیا۔ پیارے نبی ﷺ اُن کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں اونٹ پر سوار کرنے کے لئے آپ ﷺ نے اپنا دایاں گھٹنا آگے بڑھا دیا تھا تاکہ وہ اُس پر اپنے پائوں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوجائیں۔ ایک دفعہ دورانِ سفر پائوں پھسلنے پر آپ ﷺ اور حضرتِ صفیہؓ گر پڑیں تو آپ ﷺ نے ابوطلحہؓ سے کہا کہ پہلے خاتون کی طرف توجہ کرو۔‘‘ ایک دفعہ حضرتِ صفیہؓ کو روتے دیکھ کر آپ ﷺ کے استفسار کرنے پر جب حضرت صفیہؓ نے بتایا کہ حضرتِ عائشہؓ اور حضرتِ حفصہؓ اُن کو حقیر سمجھتی ہیں تو آپ ﷺ نے اُن کی دلجوئی کرتے ہوئے اُن سے کہا ’’تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہارون میرے باپ، موسیٰ میرے چچا اور محمد ﷺ میرے شوہر ہیں، اس لئے تم مجھ سے کیونکر افضل ہوسکتی ہو۔‘‘ام المومنین حضرتِ صفیہؓ قیدی بن کر آئیں، پیارے نبی ﷺ نے انہیں آزاد کرکے یہ اختیار دے دیا کہ چاہیں تو اپنے گھر چلی جائیں اور اگر چاہیں تو رسولِ اکرم ﷺ سے نکاح کرلیں تو انہوں نے ام المومنین بننا پسند کیا اور آپ ﷺ کو بستر علالت پر دیکھ کر نہایت ہی غمزدہ لہجہ میں کہا کہ ’’کاش آپ ﷺ کی بیماری مجھ کوہوجاتی۔‘‘ اور جب تمام امہات المومنین نے اُن کی جانب دیکھا تو پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ سچ کہہ رہی ہیں۔‘‘ یہ تھیں امت کی مائیں جن کے لئے خود رسول پاک ﷺ نے گواہی دی۔ آپؓ سے بھی دس حدیثوں کی روایت ہے۔ آپؓ کا انتقال 50 یا 52 سال ہجری میں ہوا۔ یہ نہایت سخی تھیں۔ انہوں نے اپنی حیات ہی میں اپنا ذاتی مکان اللہ کی راہ میں دے دیا تھا۔
تازہ ترین