• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپرہائی وے M9 جس کا افتتاح پچھلی حکومت کے دور میں کردیا گیا تھا اور خوب پبلیسٹی کرکے کراچی پر احسان کیا گیا تھا۔ مگر حالات ابھی تک موٹروے جیسے نہ ہوسکے۔ 

M9 بننے کے بعد سے اس کے مختلف " کٹس" بند کردیئے گئے تھے تاکہ ٹریفک کی روانی برقرار رہ سکے۔ لیکن بجائے ٹریفک روانی کے یہاں ٹریفک جام کی صورتحال رہتی ہے ۔ 

کیونکہ شارٹ کٹ کے چکر میں لوگ لمبا گھوم کہ آنے کے بجائے رانگ سائڈ ڈرائیونگ شروع کردیتے ہیں۔ موٹرسائیکل سے لیکر رکشہ، ٹیکسی، سوزوکی، بس، ٹرک الغرض ہر سواری بڑے آرام سے اپنا " ایندھن" بچاتے ہوئے رانگ سائڈ سے دھڑلے کے ساتھ آرہی ہوتی ہیں اور درست سمت سے آنے والےٹریفک کی روانی میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ خلل ڈالتی ہیں۔ 

لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ موٹروے پولیس جن کا پنجاب میں موٹروے پر طوطی بولتا ہے۔ یہاں سندھ میں ان کا وجود ٹول پلازہ سے پہلے نظرنہیں آتا۔ بالکل اسی طرح مقامی ٹریفک پولیس سپرہائی وے پر سے غائب رہتی ہے۔

ایسے میں سپرہائی وے ڈرائیونگ کے مزہ لینے کے لیے آنے والوں کو تفریح سے زیادہ زحمت اور تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ غلط سمت سے آنے والے ٹریفک کی بھرمار ان کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔ چند منٹوں کے سفر کو ٹریفک جام کی وجہ سے کئی گھنٹوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایسے میں ضرورت کی وجہ سے نکلنے والے، کراچی سے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے یاتفریحی کی نیت سے نکلنے والے لوگ اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 

کراچی جیسے شہر میں ویسے بھی تفریحی مقامات بہت کم ہیں پہلے عموماً لوگ سمندر کا ہی رخ کیا کرتے تھے ، پھر ٹریفک کی بھرمار اور رش میں پھنسنے کی وجہ سے اور دوسری طرف سپرہائی وے پہ بہت سے تفریحی مقامات کھلنے کی وجہ سے لوگ اب سمندر کے کنارے جانے کے بجائے ہائی وے جانے کو فوقیت دینے لگے تھے ۔

کیونکہ یہاں ٹریفک کا رش نہیں ہوتا تھا اور کھلی جگہ کی وجہ سے فضا اچھی ہوتی تھی ۔جس سےتازگی کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن موٹروے کے افتتاح کے بعد سے جو اس کی آخری ٹچنگ ہونی تھی وہ نہ ہوسکیں اور بجائے روڈ چوڑی ہونے کے اس کے کنارے کچے چھوڑ دیئے گئے ہیں ۔

اور اگر کہیں کام ہورہا ہے تو بہت ہی سست روی سے۔ جس کی وجہ سے اب M9 پہ سفر کرنا تفریحی کے بجائے اذیت بن چکا ہے ۔ جہاں کسی قسم کے قانون کی عملداری نہیں ہورہی ہےاور اس ٹریفک قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ٹریفک جام اور کناروں پہ کچے حصے کی وجہ سے دھول مٹی کا غبار ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتاجارہاہے۔ 

جس کی بدولت وہاں سے گزرنے والوں کے لیے سانس کی بیماری کا تحفہ اور سب سے بڑھ کر اطراف میں رہنے والوں کے لیے سانس ، گردوغبار کی بھرمارکے ساتھ ساتھ ان کی سڑکوں پہ گھنٹوں ٹریفک جام رہنامعمول کی بات ہوچکی ہے۔ کیا M3, M2, M1 اور اسی طرح اور دوسری موٹرے وے اور نیشنل ہائی وے کا یہی حال ہوتا ہے یایہ صرف M9 یعنی کراچی میں ہی ہوتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ موٹروے پولیس M1کے بعد ہر موٹروے پر بڑی موثر ہے لیکن کراچی کی ٹول پلازہ کے بعد یہ غائب ہوجاتی ہے اور سہراب گوٹھ تک ٹریفک کا کوئی نظام نظرنہیں آتا۔

سونے پہ سہاگا بالکل اختتام پر اب تک سڑک کی استرکاری نہ ہوسکی ہے سالوں کے بننے ہوئے کھڈے اب بڑھ کر گڑھوں میں بدل چکے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر یہ موٹروے پولیس انتظامیہ میں دو شہروں کے درمیان اتنافرق کیوں؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین