لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کردی گئی جبکہ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق جوابات مانگ لیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست دائر کی گئی جس پر جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا قانونی میں شرائط ہیں جو نواز شریف پر عائد کی گئی گئی ہیں اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے کون سے آفس کے کہنے پر ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا؟
مزید پڑھیں: بانڈ جمع کروائیں نواز شریف کو باہر لے جائیں، فردوس اعوان
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ان تمام باتوں کا علم نہیں ہے، وہ اس حوالے سے ہدایات لے کر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتے ہیں۔
عدالت نے مذکورہ معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جرنل کو شق وار جوابات جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا۔
اپنے دلائل دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان کے موکل نے عدالتی فیصلے کے تحت نام ایس سی ایل میں ڈالنے کے قانون کو چیلنج کیا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آئین کے کون سے آرٹیکل کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف وزری کی جارہی ہے جس کے تحت شہریوں کو آزادی کے ساتھ پاکستان میں رہنے اور باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
عدالت نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ وفاقی کابینہ نے جو ضمانت مانگی ہے کیا وہ وہی رقم ہے جو احتساب عدالت نے جرمانہ عائد کیا تھا؟ جس پر نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے نواز شریف کو ضمانت کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
درخواست گزار نے وکیل نے سوال اٹھایا کہ ریاست کا اس تمام معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر ریاست درمیان میں کہاں سے آگئی؟
مزید پڑھیں: ڈاکٹرز کی نوازشریف کو بیرون ملک لےجانےکی وارننگ, مریم اورنگ زیب
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل آرڈیننس وفاق کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دے جس پر امجد پرویز نے کہا کہ احتساب عدالت کے حکم پر نواز شریف کی سزا معطل ہوچکی ہے۔
اس بات پر جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سزا معطل ہوئی ہے جبکہ جرمانہ معطل نہیں ہوا ہے۔
امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موجود ہیں، نواز شریف کا علاج پاکستان سے بار ہونا چاہیے، کیونکہ ان کے جو میڈیکل ٹیسٹ کروانے ہیں ان کی سہولت پاکستان میں میسر ہی نہیں ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے بھی نواز شریف کی طبی رپورٹس طلب کی تھیں، جبکہ ان کی صحت کی تشخیص کرنے والے میڈیکل بورڈ نے بھی ان کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی تجویز پیش کی تھی۔
نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے موکل کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے مشروط اجازت دی گئی ہے۔
شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ہونے سے متعلق عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ان کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کا نام عدالتی حکومت پر اس فہرست سے نکالا جاچکا ہے۔
نواز شریف کے کیسز کے حوالے سے امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کے خلاف نیب لاہور میں کیسز ہیں، ان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا معاملہ زیر سماعت ہیں۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کی صحت پیاری ہے یا مال؟ مرادسعید
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے میرٹ پر سزا معطل کرکے ضمانت منظور کی اور ضمانت منظور کرتے وقت کوئی شرط بھی عائد نہیں کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل قانون میں سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک جانے کی اجازت ہے جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلوں میں نواز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی اس درخواست میں شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ نواز شریف کا نام غیرمشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔
اس میں یہ بھی موقف اپنایا گیا تھا کہ نوازشریف سزایافتہ ہونے کے باوجود بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس آئے، لاہور ہائیکورٹ نےضمانت منظور کی اور ای سی ایل سےنام نکالنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔