• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:حکمراں پارٹی کیلئے پارلیمنٹ میں کھلا محاذسوہان روح بن گیا

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)حکمراں پارٹی کے لئے پارلیمنٹ کے اندر کھلا محاذ بھی سوہان روح بن کر رہ گیا ہے جہاں قومی اسمبلی کے ناتجربہ کار ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے،زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ملک کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جان بچانے کی کوششوں میں حکومتی رخنہ اندازی پورے طور پر نمایاں ہو گئی ہے، حکومت ان رکاوٹوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں خائف ہونے کے باوجود اپنی سیاسی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے شریف خاندان سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے۔ اس خانوادے نے حتمی طور پر واضح کر دیا ہے کہ ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما اپنے علاج کے لئے بیرون ملک کا سفر سرکاری شرائط پر اختیار نہیں کریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ کے اکابرین جمعرات کر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اپنی حکمت عملی کو قطعی شکل دیں گے۔ حزب اختلاف کے رہنمائوں مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول زرداری نے بھی حکومتی طرزعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حکومت کے بڑے حلیف اور تجربہ کار سیاسی رہنما چوہدری شجاعت حسین نے بھی وزیاعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دانش مندی سے کام لیتے ہوئے نواز شریف کے بیرون ملک سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر یقینی بنائیں۔ ملک کے اس جہاندیدہ سابق وزیراعظم نے بتکرار عمران خان پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیں جس کی بعدازاں تلافی ممکن نہ ہو سکے۔ چوہدری شجاعت نے نواز شریف کی علالت سے رونما ہونے والے منظر کو طوفان سے مشابہ قرار دیا ہے۔ حکومت کو نواز شریف کی بحالی صحت کے لئے کوششوں میں نہ صرف حصہ دار بننا چاہئے بلکہ اس کے لئے مسلسل مصروف دعا رہنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ نواز شریف کی اچانک اور پراسرار خوفناک بیماری کے اسباب پر زوردار بحث چھڑنے والی ہے۔ این آر او کے حکومتی بیانے پر یوٹرن سے وزیراعظم کو خوفزدہ کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عمران خان کی سوا سالہ حکومت یوٹرن کے دفتر سے عبارت ہے۔ آج جو حکومتی مشیر بڑھ چڑھ کر نواز شریف کو بیرون ملک بھیجے جانے کے خلاف زہر افشانی کر رہے ہیں کل کلاں کو اس کی ذمہ داری کو قبول نہیں کریں گے،حکومت کو اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی میدان میں اتارنا پڑا ہے یہ الگ بات ہے کہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے زیر گردش قیاس آرائیوں کی وجہ سے انہیں مجبور کیا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے بارے میں سخت لب و لہجے کی تائید کریں۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے شاہ محمود قریشی ایسے معاملات میں الجھنے اور منفی رویہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ قرائن سے سراغ ملتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون فوری طور پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے گی کیونکہایک ایک لمحے کی تاخیر نواز شریف کی صحت کے لئے بھاری ثابت ہو رہی ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان اور بہو نے گزشتہ سے پیوستہ روز سوشل میڈیا پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے شیخی بگھاری تھی کہ شہباز شریف نے کار نمایاں انجام دے کر نواز شریف کو زنداں خانے سے نکال لیا ہے اور وہ انہیں ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ محتاط لفظوں میں یہ پرلے درجے کی حماقت تھی اگر اسے دیدہ دانستہ سبوتاژ کرنے کی کوشش تسلیم نہ کیا جائے تو بہتر ہوتا کہ سلمان شہباز اپنے اس بیان سے برات اختیار کر لیتے۔ نواز شریف کو بہترین علاج اور بے قرار دعائوں کی اشد ضرورت ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ نے وفاقی دارالحکومت کو خالی کر دیا ہے اب یہ مارچ پورے ملک میں پھیل کر اہم شاہراہوں اور راستوں کو مسدود کر دے گا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران مارچ کے شرکاء نے اپنے مثالی طرزعمل سے پورے ملک سے داد سمیٹی ہے اب وہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔حکمرانوں نے اس پر اطمینان کا سانس لیا ہے حالانکہ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق آزادی مارچ کے پلان بی پر عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہ پلان اعلان کے مطابق آگے بڑھتا ہے تو پورا ملک لاک ڈائون کی اذیت سے دوچار ہو جائے گا۔ ملک کے بڑے شہر اور شاہراہیں بند کرنے کی کوششوں کی حکومت یقیناً مزاحمت کرے گی اس طرح تشدد اور ہنگاموں کے برپا ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں اس مرحلے میں حکومت کے لئے بھی مشکلات دوچند ہو جائیں گی۔ حکمراں پارٹی کے لئے پارلیمنٹ کے اندر کھلا محاذ بھی سوہان روح بن کر رہ گیا ہے جہاں قومی اسمبلی کے ناتجربہ کار ڈپٹی اسپیکر کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے۔ اسپیکر کا سیکرٹریٹ اس تحریک کو معرض تاخیر میں ڈالنے کے لئے نت نئے حربے آزما رہا ہے۔ اسے آئندہ جمعہ المبارک یا اس کے بعد کے ہفتے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا لازم ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک کو واپس کرانے کے لئے دوسروں کے علاوہ خود اسپیکر اسد قیصر بھی مصروف عمل ہیں، وہ کامیاب نہ ہوئے تو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ حکمراں دم بخود ہیں کہ وہ عناصر جنہوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کو عدم اعتماد کی تحریک سے بچانے کے لئے سرگرم کردار ادا کیا تھا تاحال خاموش ہیں اور غیرجانبدار رہنے کا عملی ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر دوسرے دن کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے سربرآوردہ ماہر آئین، سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے عالمی دارالحکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی خلاف ورزیوں کی پاداش میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ختم کئے جائیں۔ راجہ محمد ظفرالحق کی پیش کردہ قرارداد پر پیپلزپارٹی کی سسی پلیجو، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق، تحریک انصاف کے سینیٹر شہزاد وسیم، پاکستان مسلم لیگ نون کے جنرل عبدالقیوم ملک اور متحدہ کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے زوردار پیرائے میں اظہارخیال کیا۔
تازہ ترین